Sunday, September 18, 2011

زندہ تاریخ، مُردہ تاریخ

بندروں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ جب کسی بندریا کا شیرخوار بچہ مرجاتا ہے تو وہ اسے ترک نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات اسے ہفتوں سینے سے چمٹائے پھرتی رہتی ہے، حالانکہ سینے سے چمٹائے رہنے سے بچہ زندہ نہیں ہوجاتا۔ لیکن انسانوں کا اپنی تاریخ اور اپنے ماضی کے ساتھ یہی تعلق ہوتا ہے۔ ان کا ماضی مرجاتا ہے، تاریخ فنا ہوجاتی ہے لیکن وہ اسے سینے سے چمٹائے پھرتے رہتے ہیں، اور نہ صرف یہ بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ سندھ کی تاریخ موئن جو دڑو کی تاریخ ہے، اس لیے ہمیں موئن جو دڑو اور اس کی تاریخ سے محبت ہے۔ لیکن موئن جودڑو کی تاریخ ایک مُردہ تاریخ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ موئن جودڑو کی پوری تاریخ اب میوزیم میں رکھی ہوئی ہے، اور میوزیم کی تاریخ نہ زندہ تاریخ ہے اور نہ اس سے کوئی زندہ تعلق استوار کرنا ممکن ہے۔ اسی طرح سندھ کے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ہماری تاریخ راجہ داہر کی تاریخ ہے اور راجہ داہر سندھ کا اصل ہیرو ہے۔ لیکن راجہ داہر ماضی کا ایک کردار ہے اور اس کی تاریخ بھی مُردہ تاریخ ہے جس سے زندہ تعلق استوار کرنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راجہ داہر کی تاریخ کا نہ کوئی عقیدہ باقی ہے، نہ اس کی تہذیب اور ثقافت زندہ ہے، نہ اس کی سماجیات کا کوئی نشان موجود ہے، نہ اس کے ادب اور رسوم و رواج کا کوئی اتا پتا دستیاب ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو راجہ داہر اور اس کی تاریخ سے محبت ایک ذہنی بیماری، نفسیاتی عارضے اور جذباتی دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ ”مقامی“ نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو اپنے مُردہ ماضی پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں۔ سندھ میں موئن جودڑو اور راجہ داہر کے پجاری موجود ہیں تو مصر میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو فراعنہ کی تاریخ کو اپنی اصل تاریخ کہتے ہیں اور اہرام مصر کو اپنا تہذیبی ورثہ باور کراتے ہیں۔ لیکن اہرامِ مصر کا حوالہ محبت نہیں، ان کا مرکزی حوالہ عبرت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش اور اہرام مصر کو عبرت کے لیے باقی رکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”قدامت“ فی نفسہ کوئی اہم چیز نہیں، اہم چیز صداقت اور صداقت کے مظاہر کا زندہ ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل تاریخ وہ ہے جو قدیم بھی ہو، جدید بھی۔ جو ماضی بھی ہو اور حال بھی۔
اس معیار اور اس پیمانے کو دیکھا جائے تو موئن جودڑو اور اہرام مصر کی تاریخ کیا، بڑی بڑی تہذیبوں کی تاریخ مُردہ ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیت اپنی تاریخ کو زندہ کہتی ہے لیکن اس کی زندگی کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ عیسائیوں کی الہامی کتاب بائبل مسخ ہوچکی ہے۔ اس کی اصل زبان باقی رہی نہ عیسائی بائبل کے معنی کا تحفظ کرسکے۔ حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی اتنی سادہ تھی کہ آپ کے پاس صرف تین چیزیں تھیں: سواری کے لیے گدھا، پانی پینے کے لیے پیالہ اور بال بنانے کے لیے کنگھا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے ایک دن ایک شخص کو دونوں ہاتھ سے ”اوک“ بناکر پانی پیتے دیکھا تو پیالے کو ترک کردیا۔ ایک روز ایک شخص کو ہاتھ کی انگلیوں سے بال بناتے دیکھا تو کنگھے کو خیرباد کہہ دیا۔
 لیکن آج عیسائی دنیا میں حضرت عیسیٰؑ کی طرزِ حیات کی ایک معمولی سی
 جھلک بھی موجود نہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کو اپنی تاریخ باور کرانے والوں نے ”تعیش“ کو طرزِ حیات بنادیا ہے اور ان کے لیے ترقی کا مفہوم اول و آخر مادی ترقی ہوکر رہ گیا ہے۔ بائبل کہتی ہے شراب حرام ہے، لیکن عیسائی دنیا شراب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بائبل کہتی ہے سور کا گوشت نہ کھاﺅ، لیکن عیسائی دنیا میں خنزیر کا گوشت لوگوں کی سب سے پسندیدہ ڈش ہے۔ عیسائی دنیا کرسمس بڑے جوش سے مناتی ہے مگر کرسمس کی 99 فیصد سرگرمیاں حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم اور ان کی پاک زندگی کی تردید ہوتی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عیسائیت کی تاریخ بھی مُردہ تاریخ بن چکی ہے۔ عیسائیت ماضی تو ہے مگر حال نہیں۔ لیکن یہ صرف عیسائیت کی تاریخ کا معاملہ نہیں۔
ہندوﺅں کی الہامی کتاب وید کہتی ہے کہ خدا ایک ہے، اور ہندو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر لاتعداد خداﺅں کی پوجا کررہے ہیں۔ وید کہتے ہیںکہ خدا کی کوئی شبیہ نہیں ہے۔ لیکن ہندو طرح طرح کے بتوں کی عبادت کررہے ہیں۔ رام ہندوﺅں کی تاریخ کا مرکزی حوالہ ہیں۔ رام نے اپنے سوتیلے بھائی لکشمن اور اپنی شریک ِحیات سیتا کے ساتھ 14 سال جنگلوں میں گزارے۔ پھر ایک مرحلے پر راون نے سیتا کو اغوا کرلیا۔ اس موقع پر رام نے لکشمن سے کہا کہ جاﺅ جنگل میں اپنی بھابھی کو تلاش کرو۔ لکشمن نے کہا کہ مجھے بتائیے کہ بھابھی دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں کیونکہ میں نے آج تک ان کے پیروں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ہندوازم کی تاریخ کے یہ اور ایسے ہزاروں پہلو اب ہندوازم کا صرف ماضی ہیں، ان کا ہندو ازم کے حال سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندوازم کی تاریخ کا غالب حصہ مُردہ ماضی میں ڈھل چکا ہے۔
اس منظرنامے میں دیکھا جائے تو صرف اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ زندہ ہے۔ مسلمانوں کے عقائد زندہ ہیں، مسلمانوں کی عبادات زندہ ہیں، ان کی اخلاقیات زندہ ہے، ان کی تہذیب زندہ ہے، ان کے تہوار اور ان تہواروں کی روح زندہ ہے۔ اس اعتبار سے اسلام کی تاریخ قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ اسلام ماضی بھی ہے اور حال بھی۔ اور چونکہ اسلام ماضی بھی ہے اور حال بھی، اس لیے اسلام مستقبل بھی ہے۔ یعنی وہ اپنے روحانی، تہذیبی اور تاریخی تسلسل کو مستقبل میں بھی برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی مشہور زمانہ ”ماضی پرستی“ ایک حقیقی اور سچی چیز ہے، اور مسلمان اپنے ماضی کے عشق میں مبتلا ہونے میں حق بجانب ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مُردہ ماضی سے چمٹنے والوں کا مسئلہ کیا ہے؟
ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے شعور میں ماضی، حال اور مستقبل کا باہمی تعلق واضح نہیں۔ ماضی اگر حال اور مستقبل نہ ہو تو وہ ماضی نہیں بلکہ ماضی کی محض ایک یاد ہے، اور ایک بے معنی یاد سے چمٹ جانے کا کوئی مفہوم نہیں۔ ان لوگوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ پرانے بن کر فی نفسہ اہم سمجھتے ہیں، حالانکہ کسی چیز کا محض پرانا ہونا کسی قدر و قیمت کا حامل نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ پرانی چیز کا ہمارے حال اور مستقبل کی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ اور اگر پرانی چیز کا ہمارے حال اور مستقبل سے کوئی تعلق نہ ہو تو وہ محض کاٹھ کباڑ ہے جسے پھینک دینا ہی مناسب ہے۔ ان لوگوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کو حال میں ازسرنو ایجاد نہیں کرسکتے، چنانچہ وہ ماضی سے ایسی عظمت اور محبت وابستہ کرلیتے ہیں جو اس کا حق نہیں ہوتی۔

No comments:

Post a Comment