Sunday, October 2, 2011

پاکستانی معاشرے کا جمال

پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی ناکامیوں نے پاکستانی معاشرے میں ایک ایسی خود مذمتی کو جنم دیاہے جس نے پاکستانی معاشرے کے اس حسن وجمال کو بھی چھپادیاہے جو پاکستانی معاشرے کو دنیاکے بہت سے معاشروں سے ممتاز کرتاہے۔ اپنی انفرادی اور اجتماعی خامیوں پر نظر رکھنا اچھی بات ہے لیکن تنقید کا مطلب ”فکرکا توازن“ ہے۔ تنقید جہاں انفرادی اور اجتماعی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے وہیں وہ انفرادی اور اجتماعی خوبیوںکو بھی نمایاںکرتی ہے۔ وہ جہاں انفرادی اور اجتماعی بدصورتیوں کی نشاندہی کرتی ہے وہیں وہ انفرادی اور اجتماعی جمال کو بھی سامنے لاتی ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے میں تنقیدکی روایت کمزور ہے۔ اس خلا کو خود مذمتی پُرکررہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوںکی ناکامیاں ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہیں۔ ان ناکامیوں نے قوم کے مزاج میں ایک طرح کی سنکیت پیدا کردی ہے اور خود مذمتی کو ایک رجحان کے بجائے وبا بناد یاہے۔ اس وبا نے ہم سے ہماری ایسی بہت سی خوبیوں کو بھی چھین لیاہے جو ہمارے معاشرے کا حسن وجمال بھی ہیں اور اس کی بہت بڑی اخلاقی ‘ تہذیبی اور معاشرتی قوت بھی۔ لیکن پاکستانی معاشرے کا حسن وجمال ہے کیا؟ ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ خیراتی کام امریکا میں ہوتاہے اور امریکا کے لوگ فی کس آمدنی کے اعتبار سے خیراتی کاموں پر سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ تاہم آغاخان فاونڈیشن کے کئی سال پہلے کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کے لوگ فی کس آمدنی کے اعتبار سے امریکا سے دوگنا رقم خیراتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ جائزے میں بتایاگیا تھا کہ پاکستانی معاشرے کے وہ لوگ بھی جو خود زکوٰة اور صدقات کے مستحق ہوتے ہیں خیراتی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ ملک کی 40 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے کم ہے۔ مزید 40 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی ایک اور2 ڈالر کے درمیان ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا ایسا طوفان آیا ہواہے کہ اس نے متعدد طبقے کے لیے بھی زندگی دشوار بنادی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے نے 1999ءمیں خیراتی کاموں کے لیے 72 ارب روپے فراہم کیے تھے۔ اعداد وشمار کے مطابق شوکت خانم میموریل اسپتال کو گزشتہ سال زکوٰة وصدقات کی مدمیں 33 کروڑ روپے فراہم ہوئے تھے جو اس سال بڑھ کر 2کروڑ ہوگئے ہیں۔ اسی طرح شوکت خانم اسپتال کے وسائل میں 59 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ایدھی سینٹرکو اس سال رمضان المبارک میں 28 کروڑ فراہم ہوئے ہیں جوگزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہیں لیکن ایدھی سینٹرکو امید ہے کہ عبدالستار ایدھی جھولی لے کر نکلیں گے تو ان کی کمی پوری ہوجائے گی۔ اعداد وشمارکے مطابق سب سے زیادہ مالی وسائل اہل کراچی فراہم کرتے ہیں۔ ایک مولانا ایک دن بتارہے تھے کہ انہوں نے دنیاگھومی ہے مگر خیراتی اور خیرکے کاموں کے لیے جتنا جذبہ کراچی میں ہے کہیں نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ذاتی واقعہ سناتے ہوئے بتایاکہ ایک صاحب نے انہیں مسجد کے لیے 4لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا مگر وہ ایفائے عہد سے پہلے ہی انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال سے مولانا نے محسوس کیاکہ اب ان کو یا تو رقم ملے گی ہی نہیں اور ملے گی تو بہت کم ۔ لیکن وعدہ کرنے والے صاحب کے بیٹوں نے مولانا کو 4کے بجائے 8 لاکھ فراہم کیے اور کہاکہ 4کھ والدکے وعدے کے مطابق ہیں اور چار لاکھ والد کے لیے صدقہ جاریہ کے طورپر۔ ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان کے لوگوں نے 1999ءمیں 72 ارب روپے خیراتی کاموں کے لیے دیے تھے اور یہ رقم آسانی کے ساتھ 172 روپے ہوسکتی ہے اور کیا خبر یہ رقم اب تک 172 روپے ہوچکی ہو۔ ان حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ ملک کے بدترین معاشی بحران نے بھی پاکستانی معاشرے کے جذبہ خیرکو متاثرنہیںکیا۔ پاکستانی معاشرے کا ایک بنیادی معاشی پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں بچتوںکی شرح 8 فیصد ہے۔ جبکہ بھارت میں تو بچتوں کی شرح 25 فیصد ہے۔ لیکن معاشی زندگی کا یہ پہلو بھی لوگوں کے جذبہ خدمت پر منفی اثر ڈالنے میں ناکام ہے۔ امریکا دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ اس کی تکنیکی ترقی بے مثال ہے۔ اس کے مالی وسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس کا معاشرہ منظم ہے۔ لیکن نیوآرلیون میں سیلاب آیا اورپورا شہر ڈوب گیا۔لیکن وہاں نہ امریکا کی حکومت کا نام ونشان تھا نہ امریکا کے منظم معاشرے کا دور دور تک پتا تھا۔ اس کے مقابلے پر پاکستان میں زلزلہ آیا تو پاکستان کا پورا معاشرہ سرمایہ ہی نہیں خدمت بھی لے کر نکل کھڑا ہوا۔ اگرچہ سیلاب کے موقع پر سرمائے اور خدمت کی صورت میں زلزلے کی صورت حال کی ہم پلہ نہیں تھی۔ لیکن اس بار بھی معاشرے نے متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی اصل سے زیادہ سیاسی تاریخ فوجی اور سول آمروں کی تاریخ ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کی ایک کمزوری ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کی طاقت یہ ہے کہ اس میں آمر آتو جاتاہے لیکن 8‘10 سال سے زیادہ ٹھہر نہیں پاتا۔ معاشرہ اس سے بیزارہوجاتاہے اور اس کے خلاف متحرک ہوجاتاہے۔ جنرل ایوب 10سال اقتدارمیں رہے اور ان کے مشیران انہیں مشورہ دیا کرتے تھے کہ وہ بادشاہت کا اعلان کردیں۔ لیکن اس سانحے کی نوبت نہ آسکی۔ جنرل ایوب کے خلاف تحریک چلی اور انہیں اقتدارچھوڑنا پڑا۔ جنرل ضیاءالحق کی فوجی آمریت بھی چینج ہوئے بغیر نہ رہی۔ اس سے پہلے بھٹو کی سول آمریت کو معاشرے نے چیلنج کیا۔ جنرل پرویزبھی 10 سال تک اقتدار میں رہے۔ لیکن ان کے خلاف معاشرے میں اتنا زبردست ردعمل پیدا ہوا کہ وہ ملک کیا فوج اور امریکا کے لیے بھی یاربن گئے۔ اس کے مقابلے پر جنرل سہارتو انڈونیشیا میں 25 سال سے زیادہ اقتدارمیں رہے۔ زین العابدین نے تیونس میں 23 سال حکومت کی۔ حسنی مبارک نے مصر کو 30 سال تک روندا۔ لیبیا کے صدر قذافی نے 42 سال تک کسی چینج کے بغیر حکومت کی۔ پاکستانی معاشرے میں مزاحمت کا عنصر نہ ہوا تو پاکستان میں بھی یہی ہوتا۔ لیکن پاکستانی معاشرے کی خدمت نے کسی آمرکو10 سال سے زیادہ چلنے نہیں دیا۔ یہ پاکستانی معاشرے کا حسن وجمال بھی ہے اور اس کی بہت بڑی قوت بھی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے پاس یہ حسن وجمال اور یہ قوت آئی کہاں سے ہی؟ اس سوال کا صرف ایک جواب ہے۔ پاکستانی معاشرے کو یہ قوت اور یہ حسن وجمال مذہب سے فراہم ہوتاہے۔ پاکستان کے لوگ انصاف کرتے ہیں تو مذہب کی وجہ سے اور مزاحمت کرتے ہیں تو بھی مذہب کی وجہ سے ۔ یہ صورتحال بدترین حالات کے باوجود پاکستانی معاشرے کے بارے میں کسی کو بھی انتہائی یہ امید کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ اس صورتحال سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اگر بدترین حکمرانوں کے باوجود پاکستانی معاشرہ اتنا قوی اور جمیل ہے تو بہترین حکمرانوں کی فراہمی کے بعد اس کی طاقت اور اس کے حسن وجمال کا عالم کیاہوگا۔؟ 

No comments:

Post a Comment