Thursday, November 24, 2011

ضمیر اورمفادات

ایک اعتبار سے دیکھاجائے تو زندگی کے دو قطبین یا دو Poles ہیں۔ایک ضمیر اور دوسرا مفاد۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گیت ضمیرکے گاتاہے مگر زندگی اپنے مفادات کے تحت بسرکرتاہے۔ اس کے ہاتھ میں پرچم ضمیرکا ہوتاہے لیکن پیش قدمی وہ مفادات کی جانب کرتاہے۔ اس کی آنکھوں میں خواب ضمیرکے ہوتے ہیں مگر اس کی زندگی پر حکومت مفادات کی ہوتی ہے۔
اس کی ایک اچھی مثال فیض احمدفیض ہیں۔ فیض احمد فیض آزادی کے شاعرتھے۔ مزاحمت کے شاعرتھے۔ انقلاب کے شاعرتھے۔ انہوں نے ویت نام میں امریکا کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی۔ اس کے لیے نغمے لکھے۔ مضامین تحریرکیے ۔ بیانات جاری کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ویت نام ایک کمیونسٹ ملک تھا اور امریکا نے ایک کمیونسٹ ملک کی حرمت پامال کی تھی۔ چنانچہ ان کے لیے ویت نام کی مزاحمت باطل کے خلاف حق کی مزاحمت تھی۔ غلامی کے خلاف آزادی کی معرکہ آرائی تھی۔ مفادات کے خلاف ضمیرکی جنگ تھی۔ فیض احمد فیض نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حمایت کی اس کے لیے گیت لکھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریک آزادی کے قائد یاسرعرفات سوشلسٹ تھے اور ان کی شہرت روس نواز رہنما کی تھی۔ لیکن سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کا یہ کردار قصہ پارینہ بن گیا۔ انہوں نے افغانستان کی جدوجہد آزادی کے لیے نہ کوئی نظم لکھی۔ نہ کوئی مضمون تحریرکیا نہ کوئی بیان جاری کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں مداخلت کرنے والا سوویت یونین فیض کا نظریاتی کعبہ تھا اور اس کے خلاف آزادی کی جدوجہدکرنے والے اسلام کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ فیض سے اس بارے میں کئی بار سوالات بھی کیے گئے مگر وہ ہربارگول مول جواب دے کر رہ گئے۔
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کو پوری مغربی دنیاکی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ مغربی دنیا کے سیاست دان‘ دانشور اور صحافی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مجاہدین کہتے۔ انہیں فریڈم فائٹرکہہ کر پکارتے۔ گلبدین حکمت یاراوراحمد شاہ مسعود امریکا اور یورپ کے پریس میں ہالی ووڈ کے سپراسٹارزکی طرح رپورٹ ہوتے۔ امریکا کے صدر رونلڈ ریگن نے ایک بار مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجاہدین کا اخلاقی مقام امریکا کے بانیان کے مساوی ہے۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ کے رہنماﺅں ‘دانشوروں اور صحافیوں کے اذہان پر ان کے نام نہاد قومی مفادات نے قبضہ کرلیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مجاہدین دہشت گردبن گئے۔ حریت پسندرجعت پسند کہلانے لگے۔ امریکا کے بانیوں کے مساوی مقام کے حامل لوگ درندے بن گئے۔ انسانی تہذیب کی بقاءکی جنگ لڑنے والے تہذیب دشمن ٹھہرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کے قلوب اور اذہان پر ضمیرکے بجائے مفادات کا غلبہ ہوگیا۔ مفادات کا قطب ضمیر کے قطب کو نگل گیا۔ یہ مجموعی طورپر انسانیت کی ایک افسوسناک تصویرہے۔ لیکن زندگی کبھی استثنائی مثالوں سے خالی نہیں ہوتی۔
امریکا کی 30 کروڑ کی آبادی میں ایک نوم چومسکی بھی ہوتے ہیں۔ وہ امریکا کے چند ممتاز دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ وہ نسلی اعتبارسے یہودی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا کہناہے کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی بدمعاش ریاست ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم نے دنیا کو ظلم اور جبرسے بھردیاہے۔ وہ نائن الیون کو شک وشبے کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عراق اور افغانستان کے خلاف امریکا کی جارحیت کا کوئی جواز نہیں۔ وہ پاکستان کے خلاف امریکا کے عزائم کو تشویش کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس جتنے مذمتی الفاظ تھے انہوں نے امریکا کے خلاف استعمال کرلیے ہیں۔ یہ قومی مفادات کے قطب پر ضمیرکے قطب کے غلبے کا منظرہے۔ پاکستان میں امریکا کی سابق سفیر وینڈی چیمبرلن سے ایک بار صحافی نے سوال کیا کہ آپ امریکا پر نوم چومسکی کی تنقیدکے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔ وینڈی چیمبرلن نے اس سوال کے جواب میں کہاکہ نوم چومسکی ایک ایسے انسان ہیں جس کا کیریئر ختم ہوچکاہے۔ یعنی نوم چومسکی کا زندگی میں کوئی مفاد باقی نہیں رہا۔ چنانچہ وہ بے خوف ہیں اور ان کے جو جی میں آتاہے کہہ دیتے ہیں۔ تجزیہ کیاجائے تو یہ وہ طرز فکر ہے جو انسانوں کو مفادات کے دائرے کے باہرنہ دیکھ سکتاہے نہ سمجھ سکتاہے۔ لیکن نوم چومسکی سے زیادہ بڑی مثال ارون دھتی رائے کی ہے۔
ارون دھتی رائے ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی کے ملک بھارت کی شہری ہیں اور اتنی بڑی آبادی کے ملک میں ضمیرکی سربلندی کی اب کوئی روایت موجود نہیں۔ بھارت پر اندھی قوم پرستی کا غلبہ ہے اور وہاں ضمیرکا ایک چراغ چلانے کا مطلب درجنوں سرخ آندھیوں کو دعوت دینا ہے۔ اس کے باوجود ارون دھتی رائے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف سب سے بڑی چشم دید گواہ بن کر ابھری ہیں۔ انہو نے حال ہی میں نیویارک میں ہونے والی ایک تقریب میں کشمیرکے حوالے سے بھارت ہی کو نہیں پوری مغربی دنیا کو بھی آئینے کے سامنے لاکھڑا کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ حق خود ارادی کشمیریوں کا حق ہے اور بھارت 7 لاکھ فوجیوں کے ذریعے اہل کشمیر کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے کوئی لفظ چبائے بغیر کہاکہ مغربی دنیا کشمیرمیں بھارت کے مظالم سے صرف نظرکیے ہوئے ہے اور اس کے لیے انسانی حقوق نہیں بھارت کی منڈی اہم ہے۔ تقریب سے سید علی گیلانی خطاب کرتے تو وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے جو ارون دھتی رائے نے کہا۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو نوم چومسکی کی اخلاقی حیثیت 30 کروڑ امریکیوں سے زیادہ ہے اور ایک ارون دھتی رائے ایک ارب 30 کروڑ بھارتیوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے کے ضمیرکی آواز کا مفہوم کیاہے؟۔
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے سیکولر ذہنی سانچے کے حامل ہیں اور ضمیرکی آواز مذہبی تصور اورمذہبی احساس کے سوا کہیں سے ابھرہی نہیں سکتی۔ غورکیاجائے تو یہ حقیقت عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ مذہب صرف چند تصورات کانام نہیں۔ مذہب انسان کی ساخت یا اس کے ڈیزائن کا حصہ ہے۔ انسان مذہب کو تصور کی سطح پر مستردکرسکتاہے مگر وہ اپنے وجود کی ساخت کو مستردنہیں کرسکتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ ایک بار صحابہ کرام نے رسول اکرم کو کسی عرب شاعر کے ڈیڑھ سو دوسو اشعارسنائے۔ حضوراکرم نے اشعارسن کر فرمایا کہ یہ شاعر اسلام لانے کے قریب تھا۔ نوم چومسکی ارون دھتی رائے کا معاملہ بھی یہی ہے کہ وہ تصورکی سطح پر اسلام سے بہت دورکھڑے ہیں لیکن داخلی تجربے کی سطح پر وہ اسلام سے بے حد قریب ہیں۔

No comments:

Post a Comment