ایک وقت تھا کہ پاکستانی قوم سے زیادہ بامعنی قومی زندگی دنیا میں کسی کی بھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ تھی کہ پاکستان کا مطالبہ جس وقت سامنے آیا وہ قوم پرستی کا زمانہ تھا۔ قومیں نسل‘ زبان اور جغرافیے کی بنیاد پر اپنا تشخص متعین کررہی تھیں۔ قوم پرستی ایک فلسفہ تھی۔ ایک ”عقلی تناظر“ Rational Perception تھی۔ ایک عالمگیر رجحان تھی۔ ایک بین الاقومی فیشن تھی۔ سکہ رائج الوقت تھی۔ مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے اس کی جانب دیکھا تک نہیں۔ پاکستان کا مطالبہ جب فضا میں گونجا تو یہ سوشلزم کے عروج کا عہد تھا۔ روس کا انقلاب عالمگیر بن چکا تھا۔ چین سوشلسٹ انقلاب کے عمل سے گزر رہا تھا۔ سوشلزم ایک فلسفہ تھا۔ ایک نظریہ تھا۔ ایک تحریک تھا۔ سیاسی عقل پرستی نئی آب وتاب کے ساتھ ہی ظاہر ہورہی تھی۔ سوشلزم نئی زندگی اور نئی دنیا تخلیق کررہا تھا۔ یعنی برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت سوشلزم سے لاتعلق کھڑی رہی۔ اس نے پاکستان کا مطالبہ کیا تو اسلام کی بنیاد پر یہ رائج فلسفہ پسندی سے زیادہ فلسفہ پسندی تھی۔ یہ مروج انقلابیت سے زیادہ انقلابیت تھی۔ اس لیے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ دریا کے بہاو کی مخالف سمت میں تیر رہی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ اسلام کی بنیاد پر ایک وطن کا مطالبہ کرکے نہیں رہ گئی بلکہ اس نے ایک الگ وطن بنانے میں کامیابی بھی حاصل کی اور ثابت کیا کہ وہ دنیا میں کہیں بھی دوسری قوم سے زیادہ بامعنی زندگی بسر کرنے کا امکان رکھتی ہے۔ لیکن قائد اعظم کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا اس کو منیر نیازی نے دو مصرعوں میں بیان کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔ میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا عمر میری تھی مگر اُس کو بسر اُس نے کیا اس شعر میں اُس سے مراد پاکستان کا حکمران طبقہ ہے۔ اس طبقے نے پاکستانی قوم کی انتہائی بامعنی زندگی میں بے معنویت کا زہر ملا دیا۔ اس عمل کی سب سے بڑی علامت پاکستان کے فوجی حکمران ہیں۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو کہا تھا کہ اس کا سبب سیاسی بحران ہے۔ لیکن جنرل ایوب جس بحران کو جواز بنا کر اقتدار میں آئے تھے ان کی رخصتی کے وقت ملک میں اس سے سوگنا بڑا بحران تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اقتدار ایک اور جرنیل جنرل یحییٰ کے سپرد کرکے گئے۔ جنرل ایوب نے جماعتی سیاست کی نفی کی مگر خود بالآخر کنونشن لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت ایجادکی۔ وہ جمہوریت کو برا خیال کرتے تھے مگر انہوں نے خود بنیادی جمہوریت ایجاد کی جو عام جمہوریت سے زیادہ بدصورت تھی۔ جنرل ایوب کی شخصیت اور پالیسیوں کی بے معنویت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بالآخر وہ خود فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے قابل قبول نہ رہے۔ جنرل ایوب نے جنرل یحییٰ کو ”مرد بحران“ کے طور پر اقتدار منتقل کیا تھا لیکن مرد بحران نے بحران کو مزید بڑھا کر قومی زندگی کی بے معنویت میں اضافہ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے ”منصفانہ انتخابات“ کرائے لیکن ان کی ”انصاف پسندی“ کی بنیاد یہ تھی کہ ملک میں طاقت کے دومراکز سامنے آئیں تاکہ وہ ان مراکز کو دباو میں لاکر اپنی صدارت کے لیے راہ ہموار کرسکیں۔ انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ ہر اعتبار سے اس قابل تھے کہ وہ بھٹو کو شیخ مجیب کی اکثریت تسلیم کرنے پر مجبور کریں۔ لیکن جنرل یحییٰ نے ایسا نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ ”مرد بحران“ نے ملک ہی توڑ دیا۔ جنرل ضیاءالحق بھی سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئے مگر جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ملک زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ قوم کی سیاسی بے سمتی بڑھ گئی تھی۔ سندھ میں لسانیت کے بھوتوں کا راج تھا۔ جنرل ضیاءالحق سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے۔ مگر انہوں نے خود جونیجو لیگ ایجاد کی۔ مگر وہ اپنی ایجاد کے ساتھ بھی گزارہ نہ کرسکے۔ ان کے دور میں دیہی سندھ کے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ سندھ پاکستان سے علیحدگی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل ضیاءالحق جنرل ایوب کی طرح خود فوج کے لیے بھی قابل قبول نہ رہے۔ ان کے طیارے کا حادثہ یقیناً بین الاقوامی سازش تھا مگر یہ سازش طاقت ور مقامی افراد کے بغیر بروئے کار نہیں آسکتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف بھی سیاست کے بحران کا عذر تراش کر اقتدار میں آئے لیکن وہ ملک کو زیادہ بڑے سیاسی بحران میں مبتلا کرکے اقتدار سے رخصت ہوئے۔ ماضی کے فوجی حکمرانوں کی طرح انہوں نے بھی ایک مسلم لیگ ایجاد کی اور اس کا نام (ق) لیگ رکھا۔ انہوں نے سیاست دانوں سے کہیں بڑھ کر ملک کی آزادی اور خود مختاری کو مذاق بنایا۔ ان کے دور میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک آتش فشاں بن گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے فوج کو اتنا بدنام کیا کہ فوجیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وردی پہن کر بستیوں میں نہ جائیں۔ ان کی پالیسیوں نے قوم کیا‘ انہیں فوج کے لیے بھی بوجھ بنا دیا اور فوج کی اعلیٰ قیادت نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے بعد وہ اقتدار میں نہ رہ سکے۔ پاکستان کے سول حکمرانوں نے بھی قوم کی اجتماعی زندگی میں کم بے معنویت نہیں پھیلائی۔ ذوالفقار علی بھٹو قائد اعظم کے بعد ملک کے مقبول ترین رہنما تھے۔ مگر انہوں نے قوم کو جو فلسفہ دیا۔ وہ یہ تھا ۔ اسلام ہمارا مذہب ہی‘ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ لیکن بھٹو صاحب نہ اسلامی تھے۔ نہ سوشلسٹ اور نہ جمہوری تھے۔ چنانچہ ان کا ورثہ یا تو انتقامی جذبہ تھا یا ایک بے نام احساس زیاں۔ اس ورثے نے پیپلزپارٹی کو زندہ تو رکھا لیکن قوم کے لیے اس ورثے میں کوئی معنی نہ تھے۔ میاں نوازشریف بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے ایٹمی طاقت کو بھی اپنی کمزوری بنالیا۔ ان کے پاس کوئی نیا سیاسی معاشی اور سماجی پروگرام نہ تھا۔ چنانچہ وہ تین سال تک سیاسی چونکے چنانچے سے کام چلاتے رہے۔ ان کی کمزوری نے جنرل پرویزکو اقتدار پر قبضے کا موقع فراہم کیا۔ بعد ازاں میاں صاحب جنرل پرویز سے معاہدہ کرکے ملک سے چلے گئے۔ اس طرز عمل نے ان کی ساکھ اور وزن کو بہت کم کردیا۔ آصف زرداری کے اقتدار نے قومی سیاست کی بے معنونیت کو انتہا پر پہنچا دیا۔ قوم ایبٹ آباد کے سانحے کی تعبیر کی پوزیشن میں رہی نہ وہ کراچی میں بحریہ کے اڈے پر حملے کی معنویت کو سمجھ سکی۔ میمو اسکینڈل نے ہماری قومی زندگی کی سطحیت اور کھوکھلے پن کو نمایاںکردیا ہے اور ہمیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمرانوں نے پوری قوم کو کولہو کا بیل بنا دیا ہے۔ جو صبح سے شام تک چلتا ہے اور اس کے باوجود کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ لیکن کولہو کے بیل کی حرکت قوم کی حرکت سے اس لیے بہتر ہے کہ کولہو کے بیل کی حرکت سے تیل پیدا ہوتا مگر ہمارے حکمرانوں نے قوم کو جس کرپشن کا شکار کیا ہے اس سے صرف بے معنویت پیدا ہورہی ہے۔ رہنما ذرّے کو آفتاب بناتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے آفتاب کو ذرّہ بنادیا ہے۔
 
 
 
No comments:
Post a Comment