انسان اورخود تکریمی
زندگی کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ جس انسان کی نگاہ میں اپنی جتنی عزت ہوتی ہے دنیا بھی اسے اتنی ہی تکریم سے نوازتی ہے۔ انسان خود کو ذلیل سمجھنے لگتا ہے تو دنیا بھی اسے حقیر سمجھنے لگتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کا ”تصور ذات“ دنیا کے ساتھ اس کے تعلق اور تعلقات کی نوعیت متعین کرتا ہے۔ چنگیز خان اپنے وقت کی سب سے بڑی علاقائی طاقت تھا۔ اس کی قوت ایسی تھی کہ اس کی مزاحمت کا خیال بھی حماقت محسوس ہوتا تھا۔ لیکن جلال الدین خوارزم شاہ نے چنگیز خان کی مزاحمت کی اور چنگیز خان کو کئی بار شکست کا مزا چکھایا۔ جلال الدین اور چنگیز کے معرکے میں ایک وقت ایسا آیا کہ جلال الدین کو میدان جنگ سے فرار ہونا پڑا۔ چنگیز خان نے جلال الدین کا تعاقب کیا اور ایک مقام پر جلال الدین کا محاصرہ کرلیا۔ جلال الدین کے پاس صرف اس بات کا امکان تھا کہ وہ پہاڑ سے پہاڑ کے ساتھ بہنے والے دریا میں گھوڑے سمیت چھلانگ لگا دے۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ چنگیزی لشکر کے تیر اندازوں کی زد پر تھا۔ جلال الدین نے فرارکے واحد امکان کو استعمال کیا۔ اس نے پہاڑ سے گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی۔ چنگیزکے تیراندازوں نے اسے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ مگر چنگیز نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ چنگیز نے کہا کہ ایسے بہادر انسان کی موت اس طرح نہیں ہوسکتی۔ اس کے برعکس معاملہ ان مسلم ”اکابرین“ کا تھا جو چنگیزکے لشکر سے خوف زدہ ہوکر مزاحمت کی خواہش بھی نہ کرتے۔ وہ امان اور انعام کے لالچ میں چنگیزکے لیے اپنے شہروں کے دروازے کھول دیتے۔ لیکن شہر پر قبضہ کرتے ہی چنگیز اپنے وعدوں سے مکر جاتا۔ وہ سب سے پہلے مسلم ”اکابرین“ ہی کو قتل کرتا۔ وہ کہتا جو لوگ اپنی قوم کے نہیں ہوئے وہ میرے کیا ہوں گے۔؟ انگریزوں کے زیر اثر برصغیر میں کالے انگریز یا اینگلو انڈین پیدا ہوئے۔ ان لوگوں نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی زبان بدلی‘ پیمانے بدلے‘ لباس تبدیل کیا‘ سماجیات متغیر کی۔ علم کی کایا کلپ کی۔ اپنی تاریخ کو ترک کیا۔ تہذیب کو الوداع کیا یہاں تک کہ بعض نے اپنے مذہب کو خدا حافظ کہہ دیا۔ لیکن اس کے جواب میں انہیں Babon کہا گیا۔ Baboon بندر کی ایک قسم ہے۔ بندر کی نمایاں ترین بات یہ ہے کہ وہ نقلچی ہوتا ہے۔ مقامی افراد نے انگریزوں کی نقل کی تھی۔ اس لیے انہیں Baboon کا خطاب دیا گیا۔ کثرت استعمال سے Baboon کا ”N“ غائب ہوگیا اور ایک نیا لفظ ”بابو“ وجود میں آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ مقامی لوگوں نے اس لفظ میں بے پناہ محبت انڈیل دی چنانچہ یہ لفظ ”پیارا“ کا ہم معنی ہوگیا۔ لیکن بہرحال خود تکریمی یا Self Respect سے محروم ہونے والے لوگوں نے اپنی تذلیل کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنرل ایوب کے زمانے میں پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا۔ آبادی اور جغرافیے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 10بڑے ممالک میں شامل تھا۔ لیکن جنرل ایوب میں خود تکریمی کم تھی۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست امریکا کا دم چھلا بن کر رہ گئی۔ 14 لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد جغرافیہ امریکا کے چار قدموں کے برابر بن گیا۔ 5کروڑ سے زائد انسان حشرات الارض بن گئے۔ جنرل ایوب کو بھی ان حقائق کا احساس ہوا چنانچہ انہوں نے ایک کتاب لکھی یا لکھوائی جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم امریکا کے ”دوست“ ہیں ”غلام“ نہیں۔ لیکن دوستی اعلان کرنے سے دوستی نہیں بنتی۔ دوستی کا اعلان کرنے سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوستی موجود نہیں۔ جنرل ضیاءالحق بھی امریکا ہی کی آشیرباد سے اقتدار میں آئے تھے۔ مگر ان میں خود تکریمی جنرل ایوب سے زیادہ تھی۔ چنانچہ امریکا نے پاکستان کو 800 ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا تو انہوں نے امداد کو مونگ پھلی کے دانے کہہ کر مسترد کردیا۔ اور امریکا کو اس کے بعد ساڑھے 3 ارب ڈالر کے پیکج کے ذریعے جنرل ضیاءالحق کو اپنی جانب راغب کرنا پڑا۔ یہ جنرل ضیاءکی خود تکریمی تھی جو انہیں افغانستان کو امریکا کی آنکھوں کے بجائے اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور کررہی تھی۔ جنرل ضیاءالحق میں خود تکریمی نہ ہوتی تو ان کا جہاز فضاءمیں تباہ نہ ہوتا جنرل ضیاءکی خود تکریمی نے ان کی موت کو ان کی زندگی سے مختلف بنادیا۔ ایسی خود تکریمی کا ملکوں اور قوموں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں میں جنرل پرویز مشرف کی خود تکریمی سب سے کم تھی چنانچہ انہوں نے غلامی سے بھی نچلی سطح ایجاد کی اور اسے ملک وقوم پر مسلط کردیا۔ اس سطح پر پاکستان کرائے کا فوجی تھا۔ امریکا کا ٹشو پیپر تھا۔ امریکا کا دستانہ تھا۔ امریکا کا بار بردار تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ایوب کے زمانے میں پاکستان کے عوام صرف تصور کی سطح پر حشرات الارض تھے لیکن جنرل پرویز کے دورمیں وہ عملاً حشرات الارض بن گئے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ناٹو کے اہلکاروں نے کسی جواز کے بغیر پاکستان کے 26 فوجیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل ڈالا اور 15 کو زخمی کردیا۔ لوگ کیڑے مکوڑوں کو مارتے ہیں تو اس کا جواز پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ یہی معاملہ ناٹو کا ہے اس کے پاس پاکستان کے 26 فوجیوں کو مارنے کا ”معقول“ جواز تک نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں طاقت کا کوئی علاج نہیں۔ ایسے لوگوں کو کیوبا اور کیوبا کے صدر فیدل کاسترو کی مثال کی طرف دیکھنا چاہیے۔ فیدل کاسترو 40 سال تک امریکا کی مخالفت کرتے رہے۔ ان پر درجنوں قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ زندہ بھی رہے اور انہوں نے اپنی وضع بھی تبدیل نہیں کی۔ کیوبا امریکا سے پانچ منٹ کی پرواز کے فاصلے پر ہے۔ مگر وہ کل بھی آزاد تھا اور آج بھی آزاد ہے۔ فیدل کاسترو کی خود تکریمی کیوبا کی ڈھال بھی ثابت ہوئی اور اس کی تلوار بھی۔ بلاشبہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے اور جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنی عزت کرتے ہیں دنیا بالآخر ان کی تکریم پر مجبور ہوجاتی ہے اور جو لوگ خود اپنی عزت نہیں کرتے حالات وواقعات انہیں جنرل ایوب‘ جنرل پرویز مشرف‘ جنرل کیانی اور آصف علی زرداری بنا دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment