Thursday, February 2, 2012

حقیقی انسان اور مصنوعی زندگی

برصغیر میں انگریزوں کی آمد کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مسلمانوں کا طبقہ ¿ امراءکھیل تماشوں میں اُلجھ کر رہ گیا تھا۔ کھیل تماشا زندگی کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں کے طبقہ ¿ امراءکا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے دور میں کھیل تماشا زندگی کا حصہ نہیں رہ گیا تھا بلکہ زندگی کھیل تماشے کا حصہ بن گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی اور کھیل تماشے میں ترجیح اور تناسب کا جو رشتہ تھا وہ اُلٹ گیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے طبقہ ¿ امراءنے حقیقی انسانوں پر ایک مصنوعی زندگی مسلط کردی تھی۔ اصول ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ یعنی پہلے معاشرے کے بالائی طبقات خراب ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی عوام میں خرابیاں عام ہوتی ہیں۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر کے معاشرے میں یہی ہورہا تھا۔ منشی پریم چند نے اپنے افسانے شطرنج کے کھلاڑی میں اس صورتحال کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ شطرنج کے کھلاڑی 2 ایسے امراءکی کہانی ہے جو اپنے عصر اور اپنی انفرادی اور اجتماعی تقدیر سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کے لیے شطرنج کا کھیل پوری اور حقیقی زندگی بن گیا تھا۔ انہیں شطرنج کے لیے گھر پر مناسب حالات فراہم نہ ہوسکے تو وہ کھانے پینے کا سامان لے کر شہر سے باہر ایک کھنڈر میں جاکر شطرنج کھیلنے لگے۔ کھیل کے دوران ایک فریق نے بے ایمانی کی تو دونوں میں ٹھن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات اتنے کشیدہ ہوئے کہ دو پرانے دوست تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد 2 لاشیں کھنڈر میں پڑی تھیں۔ ”شطرنج کے کھلاڑی“ شطرنج کی بازی کے لیے ایک دوسرے کو ہلاک کرچکے تھے اور انگریزوں کا لشکر کھنڈر سے ذرا فاصلے پر مارچ کرتا ہوا ان کے شہر میں داخل ہورہا تھا۔ جن تلواروں کو حقیقی زندگی کے دفاع کے لیے بروئے کار آنا چاہیے تھا وہ ایک مصنوعی زندگی کی نذر ہوچکی تھیں۔ 
تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے 17 کروڑ حقیقی انسانوں پر ایک مصنوعی زندگی مسلط کردی ہے۔ اس مصنوعی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک میں ہر8‘ 10 سال بعد ایک مارشل لا آجاتا ہے۔ مارشل لا کی اہم ترین بات یہ ہے کہ مارشل لا سرتاپا ایک مصنوعی نظام حکومت ہے۔ اس کا قوم کے نظریہ حیات‘ ہماری تاریخ اور تہذیب سے کوئی تعلق ہے نہ وہ فطری معنوں میں عوام کی اجتماعی آرزو ہے۔ مارشل لا جب بھی آتا ہے قومی مجبوری کے طور پر آتا ہے۔ اس کا بیج ہماری اجتماعی زندگی میں کہیں موجود ہوتا ہے نہ وہ پودے کی طرح نمو پاکر درخت بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمارشل لا ناکام ہوتا ہے اور ہر آمر قوم کی ناکامیوں میں اضافہ کرکے اقتدار سے رخصت ہوتا ہے۔ تاہم مارشل لا کے مصنوعی پن کا تجربہ یہیں تک محدود نہیں رہتا۔ مارشل لا کی آمد کے ساتھ ہی سب سے بڑا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے تمام حقیقی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور قوم دوگروہوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک گروہ مارشل لا کا حامی بن جاتا ہے اور دوسرا مارشل لا کا مخالف ہوجاتا ہے اور پھر قوم کی زندگی کے نہایت قیمتی سال مارشل لا کی حمایت اور مخالفت میں گزر جاتے ہیں۔ جنرل ایوب کے 10 سال اسی طرح بسر ہوئے۔ جنرل یحییٰ کے تین سال اسی طرح گزرے۔ جنرل ضیاءالحق کی ایک دہائی اسی طرح بیتی۔ جنرل پرویز مشرف کا عشرہ اسی طرح کٹا۔
مارشل لا کی تخلیق کردہ مصنوعی زندگی کی سب سے ہولناک مثال یہ ہے کہ جنرل یحییٰ کے زمانے میں مشرقی پاکستان آتش فشاں بنا ہوا تھا لیکن پاکستان کا قومی پریس اندھا بہرا اور گونگا بنا ہوا تھا۔ جنرل یحییٰ کہہ رہے تھے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ جنرل نیازی فرما رہے تھے کہ بھارتی فوجیں میری لاش سے گزر کر ڈھاکا میں داخل ہوں گی۔ یہ بیانات مارشل لا کی مسلط کی ہوئی مصنوعی زندگی کے قصے تھے اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن ہماری صحافت اور ہماری سیاست ان بیانات کو من وسلویٰ کی طرح نوش کررہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سقوط ڈھاکا ہوا تو پوری پاکستانی قوم حیران رہ گئی۔
بدقسمتی سے پاکستان کی ”غیرمارشل لائی زندگی“ بھی مصنوعی پن کا شکار ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری پوری سیاسی زندگی یا تو پیپلزپارٹی کی حمایت یا مخالفت کی نذر ہوگئی یا پھر اس پر شخصیات کی مخالفت کا جذبہ غالب آگیا اور یہ دونوں چیزیں ہماری قومی زندگی کی ضرورت نہیں تھیں۔ ہماری ضرورت نظریات تھے۔ اجتماعی مسائل تھے۔ بین الاقوامی رجحانات تھے مگر ہماری سیاست کی ترجیحات کی فہرست میں کہیں پیپلزپارٹی کی محبت سرفہرست تھی۔ کہیں پیپلزپارٹی کی نفرت پہلے نمبر پر تھی۔ کہیں بے نظیر بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ ہماری قومی ترجیح تھا اور کہیں میاں نوازشریف کا اقتدار میں آنا ہماری اولین ضرورت تھا۔ 
اس وقت بھی دیکھا جائے تو ہماری حقیقی زندگی پر مصنوعی زندگی کا غلبہ ہے۔ بلوچستان نصف پاکستان ہے اور نصف پاکستان آتش فشاں بنا ہوا ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ آتش فشاںکو سیلی ہوئی ماچس کی تیلی بنا کر رپورٹ کررہے ہیں۔ دوسری جانب پوری قوم پر میموگیٹ اسکینڈل مسلط ہے جس کی ہماری قومی زندگی میں کوئی حقیقی اہمیت نہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس ملک میں ملک ٹوٹنے کی تحقیق نہ ہوئی ہو وہاں پوری قوم ایک خط کی تحقیق میں اُلجھ گئی ہے یا اُلجھادی گئی ہے۔ 
دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بین الاقوامی زندگی میں بھی حقیقی انسانوں پر مصنوعی مسائل حاوی ہوگئے ہیں۔ دنیا کی طاقت ور قوموں نے 20 ویں صدی کے اوائل میں دوعالمی جنگیں ایجاد کیں چنانچہ 1914ءسے 1950ءتک عالمی جنگوں کی نفسیات اور ان جنگوں کے پیدا کردہ مسائل پورے خطہ ¿ ارض کو اپنی گرفت میں لیے رہے اور کروڑوں انسان ان مسائل کے دائرے سے نکل کر سوچنے کے قابل نہ رہے۔ ان جنگوں نے ایک نئے بین الاقوامی Disorder کو پوری دنیا پر Order بناکر مسلط کردیا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بنی نوع انسان کے مجموعی وسائل بہت بڑھ گئے ہیں لیکن انسانیت کے مسائل میںکمی ہونے کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ دولت بڑھ رہی ہے مگر غربت کم نہیں ہورہی۔ ”عقل پرستی“ کا دور ہے۔ لیکن بین الاقوامی زندگی میں ہر طرف دلیل کے بجائے طاقت کا سکہ چل رہا ہے۔ انسان جسمانی طور پر ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں مگر ان کے دلوں میں فاصلے پہلے کی نسبت بڑھ گئے ہیں۔ یہ تمام چیزیں انسانوں پر مصنوعی زندگی کے غلبے کے مظاہر ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment