انسانی تاریخ میں مہمان کے تصور کو ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذہبی روایت میں مہمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھ کر اس کا بے پناہ اکرام کیا گیا ہے۔
پیغمبرانہ روایت میں مہمان نوازی کی اوّلین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ حد درجہ مہمان نواز تھے۔ آپؑ کی عادت مبارکہ تھی کہ کھانے کا وقت ہوتا تو گھر سے باہر تشریف لے جاتے اور جو مل جاتا اُسے مہمان بنا کر لاتے اور کھانے میں اپنے ساتھ شریک کرتے۔ بسا اوقات اس کام کے لیے آپؑ کو کدوکاوش کرنی پڑتی۔ آپؑ کی مہمان نوازی کی انتہا یہ تھی کہ جب چار فرشتے انسانی شکل میں مہمان بن کر آپؑ کے یہاں تشریف لائے تو حضرت ابراہیمؑ نے صرف چار لوگوں کے لیے بچھڑا ذبح کر ڈالا حالانکہ چار لوگوں کے لیے اتنے بڑے اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن چونکہ کوئی اور اہتمام ممکن نہ ہوگا اس لیے صرف چند مہمانوں کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کردیا گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہر چیز کمال کو پہنچی۔ چنانچہ مہمان نوازی کی روایت میں چار چاند لگ گئے۔ اس روایت کا مشہور ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی رسول کے یہاں ایک مسافر مہمان ہوا تو ان کے یہاں کھانے کو اتنا ہی تھا کی صرف مہمان کا پیٹ بھر سکتا تھا۔ چنانچہ میزبان نے یہ ترکیب کی کہ کھانے کے وقت چراغ بجھا دیا اور مہمان کے ساتھ خود بھی اس طرح بیٹھ گئے جیسے کھانے میں شریک ہوں حالانکہ ان کے سامنے کھانے کے لیے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ یہ مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ رسول اکرم نے اپنے صحابیؓ کی ستائش کی اور فرمایا کہ رات تم نے جو اندازِ میزبانی اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا۔ حضرت امام حسنؓ کا دسترخوان بہت کشادہ تھا اور آپؓ متعدد مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں مسافروں کا خاص طور پر خیال کیا جاتا اور انہیں مہمان بنا کر اہتمام کے ساتھ کھانے میں شریک کیا جاتا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ مسجد میں ایک مسافر ٹھیرا ہوا تھا کہ پکارنے والے نے آکر پکارا کہ جس کسی کو امام حسنؓ کے کھانے میں شریک ہونا ہو وہ تشریف لے آئے۔ مسافر امام حسنؓ کے یہاں جانے کے قصد سے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ایک صاحب روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ مسافر نے انہیں بھی امام حسنؓ کے یہاں چلنے کو کہا مگر انھوں نے انکار کردیا۔ مسافر امام حسنؓ کے یہاں حاضر ہو اتو اس نے یہ بات امام حسنؓ کو بتائی۔ امام حسنؓ نے کہا کہ جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا وہ میرے والد ہیں اور وہ میرے دستر خوان پر تشریف نہیں لاتے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہماری روایت میں مہمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھا گیا ہے تو اس کا مفہوم کیا ہے؟
اس مفہوم کی تین سطحیں ہیں۔ اس مفہوم کی پہلی سطح یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہورہا ہے۔ ہم کسی سے ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ملتے ہیں۔ ہم کسی سے بچھڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچھڑتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص ہمارے یہاں مہمان بن کر آتا ہے تو وہ گویا خود نہیں آتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اسے بھیجتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سے محبت اور اس کا اکرام کرنا اور اس کے لیے دیدہ ¿ و دل فرشِ راہ کرنا اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا اور اس کا شکر بجالانا ہے۔
مہمان کے رحمت ہونے کے مفہوم کی دوسری سطح یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان جو رزق کھاتا ہے وہ مہمان کی آمد سے بہت پہلے میزبان کو عطا کردیا گیا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ مہمان آتا ہے تو اپنے حصے کا رزق کھانے آتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے سے کسی کو رزق پہنچایا اور رزق پہنچانے کی نیکی اور اس کے ثواب میں ہمیں شریک کیا۔
ایک اور مہمان کی آمد اور اس کے رزق کھانے کے مفہوم کی سطح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مسلمان یا ایک انسان کی خدمت کا موقع عنایت فرمایا انسانی تاریخ میں مہمان کی اس اہمیت کا نتیجہ تھا کہ عہد جاہلیت تک میں مہمان کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ عربوں کی فیاضی عروج پر تھی۔ کوئی مسافر کسی بھی گھر پر دستک دے کر اس گھر میں تین دن تک مہمان بننے کی درخواست کرسکتا تھا۔ عربوں کا دل اتنا کشادہ تھا کہ ان کی تاریخ میں صرف ایک مہمان کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنے کی روایات ملتی ہیں۔
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ پر مسلمانوں کی مہمان نوازی کی روایت کا گہرا اثر ہے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے برصغیر کے مسلمان گھر تعمیر کرتے تو اس کی تعمیر میں دو چیزوں کا خاص خیال کرتے تھے۔ ایک یہ کہ گھر کا نقشہ مسجد کے روایتی نقشے کی طرز پر ہو۔ یعنی ا س میں کمرے ہوں کمروں کے آگے سہہ دری ہو اور اس کے بعد مسجد کے دالان کی طرح کھلا دالان ہو۔ گھروں کی تعمیر میں جس دوسری چیز کا خاص خیال رکھا جاتا تھا وہ ”مہمان خانہ“ تھا۔ گھروں میں مہمان خانے کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ مہمان ہماری زندگی کا جزو لاینفک ہیں بلکہ ہمارے خاندان ہی کا حصہ ہیں اور ان کو نظرانداز کرکے ہم اپنے گھر کا تصور نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ مہمان خانے چھوٹے گھروں میں نہیں ہوتے تھے لیکن چھوٹے گھروں میں مہمان آتے تھے تو گھر کا ایک حصہ ازخود مہمان خانہ بن جاتا تھا۔ مسلمانوں کی تواضع بہتر کھانوں سے کی جاری تھی۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اچھے خاصے امیر خاندان میں بھی مرغ کا گوشت صرف مہمانوں کے لیے پکتا تھا۔ مہمانوں کو گھر کے بہترین بستر اور بہترین لحاف پیش کیے جاتے تھے۔ مہمان قریبی عزیز ہوں اور دوسرے شہر آرہے ہوں تو ان کی آمد کا خط گھر میں خوشی کا طوفان برپا کردیتا تھا۔ ان کی آمد کا انتظار کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ دن گنے جاتے تھے اور جس دن مہمان آتے تو بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن پر ان کا خصوصی استقبال کیا جاتا تھا۔ مہمان کچھ دن رہ کر رخصت ہوتے تو مہمان اور میزبان جدائی کے احساس سے اس طرح دکھی ہوتے کہ جیسے اس بار بچھڑ کر پھر کبھی نہیں ملیں گے۔ مہمان جس دن لوٹتے اس دن صبح ہی سے گھر میں رونے دھونے کے مناظر دیکھنے کو ملنے لگتے۔ مہمان گھر سے روانہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر روتے‘ کہا سنا معاف کراتے‘ باقاعدگی سے خط لکھنے کا وعدہ کرتے۔ مہمانوں کی ”رخصتی“ کے کئی دن بعد تک ان کی ”عدم موجودگی“ کو محسوس کیاجاتا رہتا۔
شادی بیاہ کے موقع پر مہمان داری کی انتہا ہوجاتی۔ قریبی عزیز شادی سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی آنا شروع ہوجاتے اور شادی سے پانچ سات دن پہلے تک گھر مہمانوں سے بھر جاتے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات پڑوسیوں سے ان کے گھر کا کوئی حصہ مہمانوں کے لیے ”ادھار“ لینا پڑ جاتا۔ اس صورتِ حال میں اکثر اوقات گھر والے ”باہر والے“ بنے نظر آتے اور مہمانوں کو دیکھ کر خیال آتا کہ اصل گھر والے تو یہ ہیں۔ براتی ”خاص الخاص مہمان“ ہوتے تھے۔ اگر سو لوگ برات میں آئے ہیں تو دلہن والے یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان میں سے ایک براتی بھی ناراض ہوگیا ہے۔ چنانچہ ایک ایک براتی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ شادی کی دعوت ایک بڑی آزمائش ہوتی تھی۔ دیہات میں یہ صورتِ حال ہوتی کہ کھانے کی دعوت دینے کے لیے مدعوین کے گھروں پر دو دو‘ تین تین بار جانا پڑتا اور انہیں کھانے کے لیے بلانا پڑتا۔ اس لیے کہ مدعوین بھی شادی میں ”مہمان“ ہوتے تھے۔ ایک مہمان بھی ”ناراض“ ہوجاتا تو شادی والا گھر لرز کر رہ جاتا۔ مہمان نوازی کی یہ روایت بار بن جاتی تھی مگر لوگ اس بار کو ہنسی خوشی اٹھاتے تھے۔ تاہم مہمان نوازی کی روایت کے بار نے مہمانوں کے خلاف ردعمل کی صورتیں بھی پیدا کیں۔ بن بلائے مہمان اور مان نہ مان میں تیرا مہمان جیسی اظہار کی صورتیں اسی ردعمل کا ثبوت ہیں تاہم ردعمل کی یہ صورتیں ہمیشہ مہمان نوازی کی روایت کے ”مضافات“ میں پڑی نظر آتیں۔
ہماری دیہی معاشرت میں مہمان آج بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ دیہی لوگ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ وہ اس کی تکریم کرتے ہیں‘ اس کو اچھے سے اچھا کھلاتے پلاتے ہیں۔ البتہ ہمارے شہری تمدن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مہمان کے تصور سے بے زار ہے یا کم از کم اس کے لیے گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ ہماری مذہبی فکر میں مہمان کی ایک اہمیت ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ شہری تمدن پر فرد پرستی یا individualismکا گہرا اثر ہے۔ اس مرض کے تحت لوگ انفرادی زندگی کو اجتماعی زندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ فرد پرستی سے خود پسندی جنم لیتی ہے جو انسان کو خود مکتفی یا Self Sufficient بنا دیتی ہے۔ ایسا انسان مہمان کیا پڑوسی اور عزیزوں کے تصور سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت صرف اپنے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ شہری تمدن میں مہمان بیزاری کا ایک سبب یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رزق صرف ان کا رزق ہے اس پر کسی اور کا حق نہیں۔ چنانچہ انہیں کسی اور کو کھلاتے پلاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہمان ان کے حق پر قبضہ جمانے آگیا ہے۔
www.nasikblog.com
پیغمبرانہ روایت میں مہمان نوازی کی اوّلین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ حد درجہ مہمان نواز تھے۔ آپؑ کی عادت مبارکہ تھی کہ کھانے کا وقت ہوتا تو گھر سے باہر تشریف لے جاتے اور جو مل جاتا اُسے مہمان بنا کر لاتے اور کھانے میں اپنے ساتھ شریک کرتے۔ بسا اوقات اس کام کے لیے آپؑ کو کدوکاوش کرنی پڑتی۔ آپؑ کی مہمان نوازی کی انتہا یہ تھی کہ جب چار فرشتے انسانی شکل میں مہمان بن کر آپؑ کے یہاں تشریف لائے تو حضرت ابراہیمؑ نے صرف چار لوگوں کے لیے بچھڑا ذبح کر ڈالا حالانکہ چار لوگوں کے لیے اتنے بڑے اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن چونکہ کوئی اور اہتمام ممکن نہ ہوگا اس لیے صرف چند مہمانوں کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کردیا گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہر چیز کمال کو پہنچی۔ چنانچہ مہمان نوازی کی روایت میں چار چاند لگ گئے۔ اس روایت کا مشہور ترین واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی رسول کے یہاں ایک مسافر مہمان ہوا تو ان کے یہاں کھانے کو اتنا ہی تھا کی صرف مہمان کا پیٹ بھر سکتا تھا۔ چنانچہ میزبان نے یہ ترکیب کی کہ کھانے کے وقت چراغ بجھا دیا اور مہمان کے ساتھ خود بھی اس طرح بیٹھ گئے جیسے کھانے میں شریک ہوں حالانکہ ان کے سامنے کھانے کے لیے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ یہ مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ رسول اکرم نے اپنے صحابیؓ کی ستائش کی اور فرمایا کہ رات تم نے جو اندازِ میزبانی اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا۔ حضرت امام حسنؓ کا دسترخوان بہت کشادہ تھا اور آپؓ متعدد مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں مسافروں کا خاص طور پر خیال کیا جاتا اور انہیں مہمان بنا کر اہتمام کے ساتھ کھانے میں شریک کیا جاتا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ مسجد میں ایک مسافر ٹھیرا ہوا تھا کہ پکارنے والے نے آکر پکارا کہ جس کسی کو امام حسنؓ کے کھانے میں شریک ہونا ہو وہ تشریف لے آئے۔ مسافر امام حسنؓ کے یہاں جانے کے قصد سے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ایک صاحب روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ مسافر نے انہیں بھی امام حسنؓ کے یہاں چلنے کو کہا مگر انھوں نے انکار کردیا۔ مسافر امام حسنؓ کے یہاں حاضر ہو اتو اس نے یہ بات امام حسنؓ کو بتائی۔ امام حسنؓ نے کہا کہ جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا وہ میرے والد ہیں اور وہ میرے دستر خوان پر تشریف نہیں لاتے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہماری روایت میں مہمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھا گیا ہے تو اس کا مفہوم کیا ہے؟
اس مفہوم کی تین سطحیں ہیں۔ اس مفہوم کی پہلی سطح یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہورہا ہے۔ ہم کسی سے ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ملتے ہیں۔ ہم کسی سے بچھڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچھڑتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص ہمارے یہاں مہمان بن کر آتا ہے تو وہ گویا خود نہیں آتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اسے بھیجتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سے محبت اور اس کا اکرام کرنا اور اس کے لیے دیدہ ¿ و دل فرشِ راہ کرنا اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا اور اس کا شکر بجالانا ہے۔
مہمان کے رحمت ہونے کے مفہوم کی دوسری سطح یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان جو رزق کھاتا ہے وہ مہمان کی آمد سے بہت پہلے میزبان کو عطا کردیا گیا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ مہمان آتا ہے تو اپنے حصے کا رزق کھانے آتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے سے کسی کو رزق پہنچایا اور رزق پہنچانے کی نیکی اور اس کے ثواب میں ہمیں شریک کیا۔
ایک اور مہمان کی آمد اور اس کے رزق کھانے کے مفہوم کی سطح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مسلمان یا ایک انسان کی خدمت کا موقع عنایت فرمایا انسانی تاریخ میں مہمان کی اس اہمیت کا نتیجہ تھا کہ عہد جاہلیت تک میں مہمان کی بڑی قدرومنزلت تھی۔ عربوں کی فیاضی عروج پر تھی۔ کوئی مسافر کسی بھی گھر پر دستک دے کر اس گھر میں تین دن تک مہمان بننے کی درخواست کرسکتا تھا۔ عربوں کا دل اتنا کشادہ تھا کہ ان کی تاریخ میں صرف ایک مہمان کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنے کی روایات ملتی ہیں۔
برصغیر کی ملتِ اسلامیہ پر مسلمانوں کی مہمان نوازی کی روایت کا گہرا اثر ہے۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے برصغیر کے مسلمان گھر تعمیر کرتے تو اس کی تعمیر میں دو چیزوں کا خاص خیال کرتے تھے۔ ایک یہ کہ گھر کا نقشہ مسجد کے روایتی نقشے کی طرز پر ہو۔ یعنی ا س میں کمرے ہوں کمروں کے آگے سہہ دری ہو اور اس کے بعد مسجد کے دالان کی طرح کھلا دالان ہو۔ گھروں کی تعمیر میں جس دوسری چیز کا خاص خیال رکھا جاتا تھا وہ ”مہمان خانہ“ تھا۔ گھروں میں مہمان خانے کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ مہمان ہماری زندگی کا جزو لاینفک ہیں بلکہ ہمارے خاندان ہی کا حصہ ہیں اور ان کو نظرانداز کرکے ہم اپنے گھر کا تصور نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ مہمان خانے چھوٹے گھروں میں نہیں ہوتے تھے لیکن چھوٹے گھروں میں مہمان آتے تھے تو گھر کا ایک حصہ ازخود مہمان خانہ بن جاتا تھا۔ مسلمانوں کی تواضع بہتر کھانوں سے کی جاری تھی۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اچھے خاصے امیر خاندان میں بھی مرغ کا گوشت صرف مہمانوں کے لیے پکتا تھا۔ مہمانوں کو گھر کے بہترین بستر اور بہترین لحاف پیش کیے جاتے تھے۔ مہمان قریبی عزیز ہوں اور دوسرے شہر آرہے ہوں تو ان کی آمد کا خط گھر میں خوشی کا طوفان برپا کردیتا تھا۔ ان کی آمد کا انتظار کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ دن گنے جاتے تھے اور جس دن مہمان آتے تو بس اڈے یا ریلوے اسٹیشن پر ان کا خصوصی استقبال کیا جاتا تھا۔ مہمان کچھ دن رہ کر رخصت ہوتے تو مہمان اور میزبان جدائی کے احساس سے اس طرح دکھی ہوتے کہ جیسے اس بار بچھڑ کر پھر کبھی نہیں ملیں گے۔ مہمان جس دن لوٹتے اس دن صبح ہی سے گھر میں رونے دھونے کے مناظر دیکھنے کو ملنے لگتے۔ مہمان گھر سے روانہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر روتے‘ کہا سنا معاف کراتے‘ باقاعدگی سے خط لکھنے کا وعدہ کرتے۔ مہمانوں کی ”رخصتی“ کے کئی دن بعد تک ان کی ”عدم موجودگی“ کو محسوس کیاجاتا رہتا۔
شادی بیاہ کے موقع پر مہمان داری کی انتہا ہوجاتی۔ قریبی عزیز شادی سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی آنا شروع ہوجاتے اور شادی سے پانچ سات دن پہلے تک گھر مہمانوں سے بھر جاتے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات پڑوسیوں سے ان کے گھر کا کوئی حصہ مہمانوں کے لیے ”ادھار“ لینا پڑ جاتا۔ اس صورتِ حال میں اکثر اوقات گھر والے ”باہر والے“ بنے نظر آتے اور مہمانوں کو دیکھ کر خیال آتا کہ اصل گھر والے تو یہ ہیں۔ براتی ”خاص الخاص مہمان“ ہوتے تھے۔ اگر سو لوگ برات میں آئے ہیں تو دلہن والے یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان میں سے ایک براتی بھی ناراض ہوگیا ہے۔ چنانچہ ایک ایک براتی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ شادی کی دعوت ایک بڑی آزمائش ہوتی تھی۔ دیہات میں یہ صورتِ حال ہوتی کہ کھانے کی دعوت دینے کے لیے مدعوین کے گھروں پر دو دو‘ تین تین بار جانا پڑتا اور انہیں کھانے کے لیے بلانا پڑتا۔ اس لیے کہ مدعوین بھی شادی میں ”مہمان“ ہوتے تھے۔ ایک مہمان بھی ”ناراض“ ہوجاتا تو شادی والا گھر لرز کر رہ جاتا۔ مہمان نوازی کی یہ روایت بار بن جاتی تھی مگر لوگ اس بار کو ہنسی خوشی اٹھاتے تھے۔ تاہم مہمان نوازی کی روایت کے بار نے مہمانوں کے خلاف ردعمل کی صورتیں بھی پیدا کیں۔ بن بلائے مہمان اور مان نہ مان میں تیرا مہمان جیسی اظہار کی صورتیں اسی ردعمل کا ثبوت ہیں تاہم ردعمل کی یہ صورتیں ہمیشہ مہمان نوازی کی روایت کے ”مضافات“ میں پڑی نظر آتیں۔
ہماری دیہی معاشرت میں مہمان آج بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ دیہی لوگ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ وہ اس کی تکریم کرتے ہیں‘ اس کو اچھے سے اچھا کھلاتے پلاتے ہیں۔ البتہ ہمارے شہری تمدن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مہمان کے تصور سے بے زار ہے یا کم از کم اس کے لیے گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ ہماری مذہبی فکر میں مہمان کی ایک اہمیت ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ شہری تمدن پر فرد پرستی یا individualismکا گہرا اثر ہے۔ اس مرض کے تحت لوگ انفرادی زندگی کو اجتماعی زندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ فرد پرستی سے خود پسندی جنم لیتی ہے جو انسان کو خود مکتفی یا Self Sufficient بنا دیتی ہے۔ ایسا انسان مہمان کیا پڑوسی اور عزیزوں کے تصور سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت صرف اپنے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ شہری تمدن میں مہمان بیزاری کا ایک سبب یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا رزق صرف ان کا رزق ہے اس پر کسی اور کا حق نہیں۔ چنانچہ انہیں کسی اور کو کھلاتے پلاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہمان ان کے حق پر قبضہ جمانے آگیا ہے۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment