عدالت عظمیٰ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں پرفحش مواد دکھائے جانے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کررہی ہے۔عدالت عظمیٰ نے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر ٹی وی پرنشرکیے جانے والے فحش پروگرام بندکردے اور چیئرمین پیمرا کو 13 اگست تک نشرہونے والے پروگراموں کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔عدالت عظمیٰ نے یہ حکم جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمدکی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے جانے والے خط اور سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمدکی جانب سے ٹی وی چینلوں پرفحش مواددکھائے جانے کے خلاف دائردرخواست کی سماعت کے دوران میں جاری کیاہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کا اقلیتی مقتدرطبقہ جو قوم‘ اس کی تہذیب‘ دین‘ عقیدے اورعوام سے کٹاہواہے‘ قوم کے اخلاق وکردارکے خلاف نئی خفیہ سازشوں کی منصوبہ بندی میں شریک ہوگیاہے۔ سوشل میڈیا پر ذرائع ابلاغ کی صورت حال کی نگرانی کرنے والے عامل صحافیوں کے گروپ ”پریس پاکستان“ کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیبل آپریٹرزایسوسی ایشن کی دعوت پر کیبل آپریٹرزاوربراڈکاسٹرزایسوسی ایشن کا ایک خفیہ اجلاس کراچی میں منعقدہوا جس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو غیرموثرکرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کیبل آپریٹرزاورچینل کے مالکان نے ٹی وی چینلوں میں بڑھتی ہوئی عریانی وفحاشی اور مغربی وبھارتی ثقافت کے فروغ کے خلاف سینیئر تفتیشی رپورٹرجناب انصارعباسی کی زبان بندی کا بھی فیصلہ کیاہے۔ ٹی وی چینلوں اور ذرائع ابلاغ میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانی کے خلاف ذرائع ابلاغ ہی میں سے ایک بڑے اخباری گروپ سے وابستہ سینئرصحافی انصارعباسی کی چلائی جانے والی مہم سے بھی یہ طبقہ پریشان ہے اور اس نے فیصلہ کیاہے کہ تمام چینل مالکان 13 اگست کو اس مقدمے کی کارروائی کا بلیک آﺅٹ کریں اور اس کے لیے 14 اگست کی تقریبات کا بہانہ بنائیں گے اور اسی طرح انصار عباسی کو کسی بھی ٹی وی ٹاک شومیں مدعونہیں کیاجائے گا اور ان کا اخبار اس موضوع پر ان کی کوئی تحریربھی شائع نہیں کرے گا۔ گویا آزادی اظہارکے علم بردارایک ایسی آوازکو بندکرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ملک وقوم کے بنیادی عقیدے اورفکرکاتقاضا ہے۔ عام طورپربڑے ذرائع ابلاغ ان اخلاقی موضوعات پر بات کرنے سے گریزکرتے ہیں جن کا تعلق معاشرے کی پاکیزگی کے تحفظ اورعریانی وفحاشی کو دورکرنے سے ہو۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ کے احتساب سے بھی گریزکیاجاتاہے‘ حالانکہ آزادی‘ ذمہ داری کا تقاضاکرتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مادرپدرآزادی کا تصورنہیں ہے۔ آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کو اسی لیے فوقیت حاصل ہے کہ اس نظام میں تمام افراد کے متفقہ عقائداورتصورات کے مطابق قوانین اور ضوابط تشکیل دیے جاتے ہیں اورحکومت کا فرض یہ ہے کہ وہ ان ضوابط وقوانین کو نافذکرے۔ آئین کی روسے پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کا”مقتدر اعلیٰ“ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے احکامات کا نفاذ اس”نیابتی اقتدار“ کے ذریعے قائم ہوگا جو جمہورکے عطاکردہ اختیارات کے حامل منتخب نمائندوں کے ذریعے قائم ہوگا۔ آئین کی روسے منتخب نمائندے بھی قرآن وسنت کے پابندہیں جس سے مقتدراعلیٰ اللہ کی ذات کی منشاکاعلم حاصل ہوتاہے۔ اس لیے قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ دستورکا یہ بھی تقاضا ہے اور یہ دستور میں لکھاہواہے کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایاجائے گا کہ وہ انفرادی اوراجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات ومقتضیات کے مطابق جس طرح کہ قرآن پاک اور سنت نبوی میں ان کا تعین کیاگیاہے‘ ترتیب دے سکیں۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) دستور اورقوانین کو نافذکرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹی وی چینل اورکیبل آپریٹرزپیمرا کے ضوابط کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ان کی اس کے علاوہ کوئی کوشش نہیں ہے کہ طاقتورذرائع ابلاغ کو حکومت کی مصلحتوں کے تابع کرسکیں‘ جبکہ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تمام اداروںکو قرآن وسنت اور آئین کے تابع کریں۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے نعروں کے شورمیں ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری اور جوابدہی کا تصور بہت پیچھے چلاگیاتھا۔ اب تک تصوریہ تھا کہ فحاشی کے خلاف بات کرنا صرف مولویوں اورمذہبی جماعتوں کی ذمہ داری ہے جس کو آسانی سے نظراندازکیاجاسکتاہے لیکن ایک معزز سابق جج نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا‘ ایک سینئرصحافی نے اس موضوع کو ذرائع ابلاغ میں زندہ کیا اور پھر سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے باقاعدہ درخواست دائرکی اور عدالت عظمیٰ نے اپنے احکامات جاری کردیے ہیں تو ایسے میں وہ لوگ جن کاکاروبار ہی عریانی اورفحاشی پر چل رہاہے‘ مضطرب اور بے چین ہوکرنکل آئے ہیں ہمارے ملک کا مغرب زدہ اقلیتی طبقہ عریانی وفحاشی اوراس کے مہلک اثرات کو بہت معمولی شے سمجھتاہے۔ حالانکہ مغرب سے آنے والی الحاد زدہ تہذیب نے پوری دنیا میں فسق وفجورکا بازارگرم کردیاہے‘ اس تہذیب نے سب سے زیادہ نقصان خواتین اوربچوں کو پہنچایاہے۔ اس لیے کہ مادرپدرآزاداورفسق وفجورسے آلودہ تہذیب ”گھر“ کو توڑدیتی ہے جو بچوں اورعورتوں کا محفوظ قلعہ ہے۔ جب سے عریانی وفحاشی کا عروج ہواہے نفسیاتی امراض اور جرائم میں اضافہ ہواہے لیکن تحقیقی ادارے‘ جامعات اور ذرائع ابلاغ کی قیادت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ سے پھیلائی جانے والی عریانی وفحاشی کو روکنے کی ذمہ داری خود ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے اداروں کی ہے۔ ابھی تک اس سلسلے میں جوکوشش سامنے آئی ہے وہ ”فرد“ کی سطح پر ہے اور ذرائع ابلاغ کے پنڈت ایک ”فرد“ کی آواز کو بندکرنے کے لیے متحدہوگئے ہیں۔ یہ مسئلہ اپنی تاریخ ‘تہذیب اورثقافت کو بچانے کا ہے۔ یہ ہماری نئی نسلوں اور ہمارے اپنے بچوں کا مسئلہ ہے۔ جن لوگوں کی نظرمیں دولت اور اقتدارکے علاوہ کسی چیزکو فوقیت حاصل نہیں ہے وہ تواندھے‘ بہرے ہوگئے ہیں‘ لیکن اکثریت کا حال یہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت مسلسل سکڑرہی ہے۔ آخر اتنے مہنگے ذرائع ابلاغ کے لیے سرمایہ کاری کہاں سے ہورہی ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ اس کی پشت پرملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ حکومت کا فرض تو یہ تھا کہ وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تشہیری مہم کو بھی قرآن وسنت اور پاکستانی تہذیب کی پابندی کرنے پرمجبورکرے‘ لیکن ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پشت پرامریکا ہے۔ امریکی ”وارآن ٹیرر“ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کی جنگ ہے جو پوری دنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی پر تلی ہوئی ہے۔ ظالمانہ اورانسانیت کش سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرنے کے لیے ایشیا وافریقہ اور عالم اسلام میں مغربی تہذیب کا فروغ ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سیاست ومعیشت کو اپنا غلام بنانے میں ضرورکامیاب ہوگیاہے‘ لیکن مسلمانوں کی بے عملی اور فسق وفجورکے باوجود اسلامی تہذیب کو مکمل طورپر مسخ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔ یہ کام ذرائع ابلاغ کے ذریعے لیاجارہاہے۔ اس لیے جولوگ اس مہم کا حصہ ہیں وہ امت اور ملت کے ساتھ غداری کررہے ہیں ۔اس طبقے کا ہمیشہ سے ایک استدلال یہ رہاہے کہ فحاشی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں ہے۔ چیئرمین پیمرا نے عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران میں یہی موقف اختیارکیاہے اور کہاہے کہ فحاشی کی کوئی واضح تعریف نہیں کی جاسکتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیئرمین پیمرا اس ادارے کی سربراہی کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔ جس شخص کو اپنے عقیدے‘اقدار اورتہذیب کا علم اسے اچھی طرح معلوم نہیں اوریہ معلوم نہیںہے کہ فحاشی کی تعریف کیاہے‘ اگر انہوں نے اپنا فرض ادا نہیںکیا تو یہ امریکا کی ثقافتی دہشت گردی میں شرکت کے مجرم ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment