Thursday, August 16, 2012

اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہی اجلاس

مکّہ مکرّمہ میں مسلمان ممالک کے سربراہوں کا غیرمعمولی دوروزہ ہنگامی اجلاس ختم ہوگیا۔ خادم حرمین شریفین اورسعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے 14 اور 15 اگست کو مسلم دنیا کو درپیش مسائل پرغورکے لیے غیرمعمولی اجلاس طلب کیاگیاتھا‘ اختتامی سربراہی اجلاس کے لیے مکّہ مکرّمہ میں لیلتہ القدرکا انتخاب کیاگیاتھا‘او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے میزبان شاہ عبداللہ نے مسلمانوں کے درمیان اتفاق واتحادکی ضرورت پر غیرمعمولی زوردیا اورکہاکہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے باعث ان کا خون بہہ رہاہے‘ مسلمانوں کے درمیان مسلک کے اختلافات کو انہوں نے غیرمعمولی توجہ دی اوراس کے لیے دواہم اقدامات کیے‘ انہوں نے بین المسالک اختلافات کو دورکرنے کے لیے مکّہ مکّرمہ میں ایک عالمی مرکزقائم کرنے کی تجویزپیش کی اور اس کے ساتھ ہی اتحاداوریکجہتی کے فروغ کے لیے اپنی ساتھ کی نشست پر ایران کے صدر محموداحمدی نژاد اورقطرکے حکمران شیخ حمادبن خلیف الثانی کو اپنے ساتھ نشست پر بٹھاکر تمام مسلمان ملکوں کے سربراہوں کا استقبال کیا۔ سعودی فرماںروا شاہ عبداللہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ایرانی صدر محموداحمدی نژادکو براہ راست فون کرکے دعوت بھی دی تھی‘ اسلامی سربراہ کانفرنس ایسے وقت پرمنعقدہوئی ہے جب مشرق وسطیٰ میں آگ لگی ہوئی ہے ۔شام کا بحران مشرق وسطیٰ کو ایران‘ عرب اور شیعہ سنی کشیدگی میں تبدیل ہوتا ہوا نظرآرہاہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس سے چند دن قبل شام کے مسئلے پر ایران کے کچھ ملکوںپرمشتمل ایک اجلاس بھی منعقدکیاتھا لیکن اسلامی سربراہ کانفرنس کے بروقت انعقاد نے مسلم ممالک کی سیاسی تقسیم کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام کے ممالک کے درمیان کئی اختلافات ہیں‘ ان کا تعلق سیاسی بھی ہے۔ تزویراتی بھی‘ علاقائی بھی ہے اور مسلکی بھی‘ عالم اسلام کے درمیان اتحاد پیداکرنے کے لیے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے سفرشروع ہواتھا۔ مسلمانوںکو امیدپیدا ہوئی تھی اور عالم اسلام میں شاہ فیصل جیسی مدبرشخصیات بھی موجود تھیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈرکے اعلان اور عراق پر حملے کے بعد او آئی سی غیرموثرہوگئی تھی‘ نائن الیون کے بعد اورافغانستان وعراق پربراہ راست امریکی قبضے کے بعد او آئی سی عملاً مفلوج ہی ہوگئی تھی۔ اس لیے طویل عرصے بعد اسلامی سربراہ کانفرنس کا ہنگامی سربراہی اجلاس ایک مثبت قدم ہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس میں شام اورمیانمارمسئلے کو مرکزیت حاصل رہی ہے۔ ایران کے احتجاج کے باوجود اسلامی سربراہ کانفرنس نے شام کی رکنیت معطل کردی ہے ایران نے شام کی رکنیت کی معطلی کے فیصلے کو غیرمنصفانہ قراردیاہے اوریہ کہاہے کہ اس سے مسئلہ حل نہیںہوگا لیکن ایران نے زیادہ مزاحمت نہیں کی ہے‘ ایران کے صدر احمدی نژاد اجلاس میں مسلسل شریک رہے ہیں بلکہ سعودی عرب کے ٹی وی چینل نے مسلسل شاہ عبداللہ اورایرانی صدر محموداحمدی نژاد کے درمیان بے تکلّفانہ مکالمات اور مسکراہٹوں اورہنسی کے تبادلوں کو دکھاکر دونوں ملکوں کے عوام کو پیغام دیاہے کہ باہمی اختلافات کے باوجود یکجہتی اور اتحاد ممکن ہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا اجلاس انتہائی نازک اورحساس مرحلے پر منعقد ہوا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں کو یہ احساس ہوگیاہے کہ مسلکی تقسیم عالم اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے تو ان کو اس کا بھی اچھی طرح علم ہوگا کہ اس تقسیم کی پشت پر امریکا ہے۔ کیا زین العابدین بن علی‘ کرنل قذافی اور حسنی مبارک کے عبرت ناک حشرکے بعد ان حکمرانوں کو احساس ہوگیاہے کہ امریکا اپنے آلہ کارحکمرانوں کا تحفظ نہیں کرسکتا مسلم حکمرانوں کو اب یہ سبق سیکھ لینا چاہیے کہ انہوں نے اب تک سامراجی طاقتوں کے آگے سجدہ ریزی کی ہے اور اپنے عوام کے خلاف طاقت استعمال کی ہے ۔ جیسے اس وقت شام کے صدر بشارالاسد گزشتہ 16 ماہ سے عوامی تحریک کو فوجی طاقت سے کچلنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ شام میں سیاسی تبدیلی کے بعد عالمی منظرنامہ تبدل ہوجائے گا اور اسرائیل کے پڑوس میں ایک اور اسرائیلی مخالف حکومت قائم ہوجائے گی۔ مشرق وسطیٰ میں عوامی لہرکی بنیاد اسلام ہے اور اسلام کی حقیقی بیداری سے نام نہاد مسلمان حکمراں اسلام دشمن مغربی استعمارسے زیادہ خوف زدہ ہیں۔

No comments:

Post a Comment