Thursday, August 16, 2012

میڈیاکا منفی کردار

قرآن کریم نے عورت کی شباہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردکی شباہت اختیار کرنے والی عورتوں پرلعنت کی ہے کیونکہ اس سے فحاشی اور بے حیائی پھیلتی ہے جو معاشرتی اقدارکے لیے زہرقاتل ہے عورت کی شباہت اختیار کرنے والا ایک طبقہ خواجہ سرا کہلاتاہے جس کی کچھ فطری طبعی اورپیدائشی وجوہات ہیں جو اس کاکسی حدتک جواز فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے ٹی وی چینلزجس طرح خواتین کو تنگ پتلون اور کالروالی قمیض جس میں اوپرجیب اورمردوں کی قمیضوں کی طرح کے بٹن بھی ہوتے ہیں میزبان کے روپ میں پیش کیاجاتاہے اور جس طرح نیم مردانہ انداز سے وہ اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں مردوں سے ہاتھ ملاتی ہیں مغرب کی سرپرستی میں یہاں نفرت انگیزہندی ونصرانی کاکلچر پھیلانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا ہم شکارہورہے ہیں اس کام کی ملٹی نیشنل (یہودی) کمپنیوں کے علاوہ کئی بیرونی امدادپرپلنے والی این جی اوزبھی سرپرستی کرتی ہیں جنہیں اربوں روپ کے فنڈزفراہم کیے جاتے ہیں ملک کے اعلیٰ طبقے کے لوگ اور ان کی بیگمات اس معاملے میں ملوث ہوتے ہیں جن کی نہ تحقیقات ہوتی ہے نہ احتساب اس لیے یہ اعلیٰ عہدوں پرفائزہوتے ہیں یا ان کے شوہر با اثر ہوتے ہیں یہ لوگ اسلام دشمن اور یہودونصاریٰ اورہندوکلچرکو اس لیے پھیلاتے ہیں کہ ان کی اپنی زندگی اخلاق وکردارکی ان عظمتوں کو نہیں چھوسکتی جو پاکستانی اور مسلم کلچرکے فطری اخلاق وکردارمیں پنہاں ہے جس سے معاشرہ پاکیزہ محبت اورخلوص کا آئینہ دارہوتاہے۔جبکہ یہ2 فیصد مراعات یافتہ افراد اپنے لیے مادرپدرآزادی کے خواہاں ہوتے ہیں جہاں انہیں اخلاق وکردارکی ہرپستی میں گرنے سے روکنے والا کوئی نہ ہواور یہ معاشرے میں بدکرداری اوربداخلاقی کا زہرگھول سکیں آج کے ٹی وی اشتہار اور ڈرامہ اس ذہنیت کے مظہرہیں۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا(ٹی وی) پرمیزبانی کا تعلق ہے مردوں کو اس شعبے سے تقریباً خارج کردیاگیاہے اور اکثرچینلزپر دوپٹے سے بے نیاز نیم مرد انہ اندازاور زبان کی حامل خوبصورت واسمارٹ خواتین سے بھاری معاوضوں پر مشرقی اور مسلم کلچرکے منافی طور طریقوں اور اندازسے میزبانی کرائی جاتی ہے جو یہود وہنود اورنصرانی تصورات اورنظریات سے لتھڑے ہوئے مکالمات بول کر ہمارے معاشرے کو تبدیل نہیں تو کم ازکم کنفیوز ضرورکررہی ہیں اکثرمیزبان خواتین کے اطوار اور اندازمیں نسوانی وقارمتانت اور سنجیدگی کانام ونشان نہیں ہوتا وہ کبھی عمرشریف بننے کی کوشش (ناکام) میں طنزومزاح کے نام پر پھکڑپن کا مظاہرہ کرتی ہیں تو کبھی حسینہ معین کے ڈراموں کی آزاد خیال اور معاشرے کی باغی لڑکی کا کردار اداکرتی نظرآتی ہیں پاکستان کی عظیم الشان نامور میزبان خاتون کنول نصیر(جن کامتبادل کوئی نہیں تھا) نے ایک بار کہا تھا(ٹی وی پر)کہ آج کی میزبان خواتین زبان سے کم ہاتھوں اور آنکھوں سے زیادہ بولتی ہیں جو آداب میزبانی کے خلاف ہے“ ظاہرہے انگریزی فلمی اداکاراﺅں کی طرح کندھے اچکاکر ہاتھ لہراکر آنکھیں مٹکاکر اوربیٹھنے کے بجائے چل پھرکرنیم رقص کی حالت میزبانی کرنا۔
انڈین ایوارڈشوزکی میزبانوں کی طرح واﺅکہہ کرگلے سے بے ہنگم چیخ کی طرح اواﺅکی آواز نکالنا ہمارے یہاں رائج کرنے کی بتدریج کوشش ہمارے قومی اورخاص طورپرنسوانی وقارکی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے قوم کا اخلاق کلچر اورکردارتباہ کرنا باعث شرم ہے۔
 یہ ہمارے قومی تشخص اور پہچان کو مٹاکر ہمیں یہودوہنود کی حدتک گرانے اور مسلم کلچرکی بنیادوں پر خودکش حملوں کے مترادف ہے برصغیر میں میرجعفراور میرصادق جیسے کرداروں ہندوﺅں کے تعصب اور ایک مغل بادشاہ کی غلطی سے انگریزنے سونے کی چڑیا بھارت پرقبضہ کیا مسلمانوں کی حکمرانی ختم کرنے کے گھناﺅنے منصوبے کے تحت ہندومرہٹوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اوروہ انگریزجنہیں محض تجارت کی ایک ناعاقبت اندیش مسلم حکمران نے اجازت دی تو اس نے تجارت کی آڑ میں سازشیں کرکے ہندواکثریت کو ساتھ ملاکر اورنگزیب عالمگیرکے بعد مغل حکمرانوں کو کٹھ پتلی بناکر رکھ دیا۔ اور برصغیرسے کھربوں ڈالرکی دولت لوٹی بنگال کے نواب سراج الدولہ اوران کے والد اور میسور کے حیدرعلی اوربعدازاں ٹیپوسلطان نے جنوبی ہندوستان میں انگریزوں کا راستہ روکا لیکن میرجعفر اور میرصادق جیسے لوگوں کے انگریزی سازشوں کا حصہ بننے اورنظام دکن کی ہوس اقتدار اور ہندو مذہبی جنونیوں (مرہٹوں) کے انگریزوں کا مسلم دشمنی میںساتھ دینے سے انگریزوں کے لیے پورا ہندوستان ایک چراگاہ بن گیا اورآخری نمائشی مغل حکمراں بہادرشاہ ظفر کے دورمیں انگریزوںکا ہندوستان پر کامل تسلط ہوگیا۔اورہزاروں مسلمانوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور غدر سے پہلے اور بعد لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا انگریز نے صلیبی جنگوں کا بدلہ اتارتے ہوئے ہمیںجسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی غلام بنانے کی کامیاب کوشش کی اور لارڈ میکالے نے ایسا نظام تعلیم مرتب کیاکہ بقول اس کے مسلمان عیسائی بنیں یا نہیں لیکن وہ مسلمان بھی نہیں رہیں گے انگریز نے ہمیں ہماری تاریخ سے کاٹنے کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور فارسی کی جگہ اردوکے نفاذ پربھرپور توجہ اور سرمایہ صرف کیا اس لیے نہیں کہ اسے اردوسے محبت تھی بلکہ اس لیے کہ اس کا سوچا سمجھا منصوبہ تھاکہ مسلمانوںکو ان کے عظیم الشان علوم اور شاندارماضی سے کاٹا جائے ۔
یہی کام جوبرصغیرمیںکیاگیا انگریزاسپین میں بھی کرچکاتھا جہاں ہزاروں مسلمانوں کو عیسائی مذہب اختیارکرنے سے انکارپرزندہ جلادیاگیا قرآن وحدیث کے علاوہ عربی زبان کی تمام کتابوں کو آگ لگادی اوروہاں کی دولت سمیٹ کر عیسائی ممالک کے علاوہ امریکا پہنچادی جہاں برطانوی امراءنئی دنیا بسا رہے تھے عیسائیوں نے اسپین میں عربی زبان بولنے پرپابندی لگادی مساجدکو مسمارکیااورمسلمانوں کا تشخص پہچان اورکلچرتباہ کرکے رکھ دیا اوربتدریج اسے عیسائی ریاست میں تبدیل کردیا ۔اسپین اوربعدازاں برصغیرمیں اسلامی کلچر زبان نظریات وتصورات کو کچل کر نصرانی کلچرکو قابل قبول بنانے کے لیے عیسائی ممالک کل بھی سرگرم تھے اورآج بھی ہیں جبکہ عرب میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں جنم دے کر اپنا ایجنڈا مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے یہودی عالمی حکومت کا خواب لیے ان کی پشت پرہیں جس کی ایک مثال اظہرمن الشمس ہے کہ آج امریکا میں پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر95 فیصد یہودی مسلط ہوچکے ہیں اورجو کل لارڈ میکالے کررہاتھا آج وہ کام دنیا بھرمیں یہودی کررہاہے یہ ہے وہ پس منظرجس سے پتا چلتاہے کہ امریکا اور اس کے حواری درجنوں ممالک عراق افغانستان ہی نہیں دنیابھرمیں دہشت گردی کررہے ہیں اور اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور حالیہ صورتحال یہ ہے کہ بڑے مسلم ممالک میں جو معاشی طورپرقدرے مستحکم تھے خانہ جنگی کراکے کروڑوں مسلمانوں کی قاتل (گزشتہ صدیوں میں) عیسائی طاقتیں خصوصاً امریکا آج یہودی پروپیگنڈے کے ذریعے امن اور جمہوریت کا چیمپئن بن بیٹھاہے اور اپنے ایجنٹوںکے ذریعے پوری مسلم دنیاکو جسمانی طورپر غلام بنانے کے بعد اب ذہنی طورپر بھی غلام بنارہاہے اورہم لارڈمیکالے کے دانستہ اورنادانستہ پیروکاروں کے ہاتھوں اپنی شناخت پہچان اور کلچرسے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا انسانی ذہن پر انتہائی غیرمعمولی اثرات مرتب کرتاہے مثال کے طورپرسکس ملین ڈالرمین کی نقل میں ایک بچے نے گھر(فلیٹ) کی بالکنی سے چھلانگ لگادی تھی باوجود اس کے ٹی وی بچے زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں ہم اپنے بچوں کو اشتہاروں ڈراموں اور ٹاک شوزمیں کیادکھاتے اورسناتے ہیں اس کا جائزہ لیاجائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگلی چند دہائیوں میں ہماری آئندہ نسل نہ صرف یہ کہ اپنی شناخت پہچان انفرادیت اور نیم اسلامی کلچرسے محروم ہوجائے گی۔ بلکہ مغرب کی طرح ہمارا معاشرہ اس اخلاق اورکردارکے بحران کا شکارہوجائے گا جہاں لاکھوں بچے ناجائز ہوتے ہیں جہاں خاندانی نظام بکھرچکاہے ہزاروں بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو توکیاان کی ماں کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس کی اولاد ہے کہ ان کی والدہ محترمہ بیک وقت کئی مردوں سے تعلقات بنائے رکھنے کی عادی ہوچکی ہیں اورجہاں ماں باپ بھائی بہن اوربیٹی کے رشتے سوالیہ نشان ہیں دوفیصد مراعات یافتہ اوربعض مادرپدرآزادی کے شوقین طبقات اسی مغرب کے دلدادہ اینگلو پاکستانی ہمارے میڈیا خاص طورپر الیکٹرانک میڈیا پرباآواز بلنداپنے نظریات وتصورات (سیکولر اورمغرب زدگی) کی تعلیم وتبلیغ کرتے نظرآتے ہیں اوروہ یہ سمجھ ہی نہیں رہے کہ تہذیب کی جو چمک انہیں نظرآرہی ہے وہ فریب نظراورسراب ہے اورجھوٹے نگوں کی یہ ریزہ کاری ان کے خاندان معاشرے اور ملک کو تباہی اور غلامی کے اس اندھے کنویں میں دھکیل دے گی۔ اور ان کی آئندہ نسلیں تباہ وبرباد ہونے کے علاوہ تاریخ میں عبرت کا نشان بن جائیں گی۔ اور ان کی داستان بھی باقی نہ رہے گی۔ مستروک مذاہب کے لوگ جو ان کے قاتل کل بھی تھے آج بھی ہیں اورکل بھی رہیں گے ان کی تقلید میں علماءکرام کو ملّاکہنے والے اور دین فطرت کی سورج کی طرح روشن تعلیمات اور احکامات کا مذاق اور مضحکہ اڑانے والے خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں لیکن منافقوں کی طرح متعصب نصرانیوں اوریہودیوں کی زبان میں سکولر نظریات کی جگالی کرتے ہوئے اسلام اورمسلمانوں پرکیچڑ اچھالتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کیچڑ ان کے بعد خود ان کے آباﺅ اجدادکے کپڑوںپر گررہی ہے اور یہ اقدام ذہنی خودکشی کے مترادف ہے ہمارے ڈراموں میں اسلامی احکامات تعلیمات اورنظریات کو متنازع بناکر پیش کیاجاتاہے اورملٹی نیشنل یہودی ادارے اس کے عوض ان ڈراموں کی اشتہارات اوردیگر ذرائع سے سرپرستی کرتے ہیں ان ڈراموں میں ہمارے خاندانی نظام کی ایسی گھناﺅنی شکل پیش کی جاتی ہے کہ جس کا کہیں اورکوئی وجود نہیں ۔ جرائم کی فہرست جوکبھی سٹی پیج پرپیش کی جاتی تھیں آج انہیں صفحہ اول پرجلی سرخیوں میں نمک مرچ لگاکر پیش کیاجاتاہے یہی حال الیکٹرانک میڈیا پرہے محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے انسانی فطرت کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاناکہ اسے جرائم پرمبنی سنسنی خیزخبریں پسندہوتی ہیں۔ دولت کی ہوس لیکن اخلاقی کمزوری ہے جرائم کی داستانوں کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرنا انہیں گلیمرائزکرکے دکھانا کتنا سماج کو تباہ کرسکتاہے اس کا شعور عام لوگوں کو ہے تو کیا ہمارے میڈیا کے دانشوروں کو نہیں۔ یہ قتل کے اقدام کو براہ راست اورخون بہتے ہوئے دکھانا عورتوں اور مردوں کے ہاتھوں انسان کے گلے پر چھری پھیرتے دکھانا یہ بھی دکھاناہے کہ ایک عورت آشنا کی مدد سے شوہرکی ٹانگیں پکڑکر اسے زخم درزخم قتل میں مصروف ہے مقتول کوگڑھے میں دفن کرنے یا بوری میں بندکرکے کہیں پھینکنے ‘ناجائز تعلقات کے معاملات لڑکے لڑکیوںکی گھرسے باہر ملاقاتیں ہوٹلنگ‘ خاتون ڈاکوﺅں کے ڈاکے کی تفصیلات ان کی سگریٹ وشراب نوشی‘ قماربازی اورخفیہ اڈوں پر ملاقاتیں اورڈاکوﺅںکی منصوبہ بندیاں اورجرائم کے نت نئے طریقے دکھانا اور یہ دکھانا کہ چند منٹوں میں ڈاکو لاکھوں میں کھیلنے لگے پھرڈاکوﺅںکے پولیس سے مقابلے یہ قوم کو جرائم کی تبلیغ نہیں تو اورکیاہے ۔یہ سب را‘موساد اورسی آئی اے کے ہی مقاصد ہوسکتے ہیں ہماری قوم کو جرائم کی تربیت دی جائے ورنہ اسلام تو کہتاہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائیوں سے روکو۔اورپھر انہیں اوقات میں نسیم حجازی کے اور دیگر معاشرتی ناولوں کو شوٹ کیاجائے توکیا بہترنہیں ہوگاکہ ہمیں پتا چلے کہ غیرمسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں پرگزشتہ صدیوں میں کیا گزری یہاں ایک ہندی نام کی پراڈکٹ کے اشتہارمیں بیک وقت مجرے کی طرزکا گانا لڑکی کا گھرسے فرار اس کی فروخت اورکئی افرادکا ایک ساتھ قتل دکھانا سنگین معاشرتی جرم ہے پھر مختلف کھلے بازو لباس کھلے گلے اور شارٹ پینٹ کے ساتھ بیلودی شولڈر اور بیلودی بیلٹ خواتین کے کلوزاپ فوکس کرنا ان کی اچھل کود کے ہیجان خیزمناظرنئی سوچ تبدیلی کے نام پر اورموج مزہ مستی اور ہلا گلا کی بات کرکے پیش کرنا عورت مردکا کندھے سے کندھا ٹکرانا۔
ہاتھ پکڑ کر رقص کرنا‘ لڑکا لڑکی کا ہاتھ پکڑکر کہہ رہاہے کہ زندگی کا مزہ لے لو۔ یہ کیا ہم یہودوہنود نصرانیوں کی نقل نہیں کررہے بلکہ شاید ان سے بھی دس قدم آگے بڑھ گئے مزید برآں ہمارے اشتہارات میں عورت مرد کو نہاتے دکھانا گھٹنے سے اوپرتک ٹانگیں ننگی دکھانا‘ انڈین اداکاراﺅں اور آئٹم سانگ گرلزکو دکھانا۔اشتہارات اور ڈراموں میں ان کی زبان نظریات ورسومات اور ناموں کو شامل کرنا ان کے انداز اپنانا مغربی ممالک اور بھارت میں بنے ہوئے اشتہارات دکھانا ان کے پروگرام اپنے چینلز میں دکھانا کیا کلچرل تخریب کاری نہیں دوسری طرف اسٹارپلس کے ڈرامے اوراشتہارات ہم سے زیادہ مہذب ہیں اس حوالے سے ان کی پیروی کیوں نہیں ۔ان کے ڈراموں میں بزرگوں کی عزت دیکھنے میں آتی ہے دھرم پوجا ہے جبکہ ہم اپنے بزرگوں کی توہین کے علاوہ ڈراموں میں دین فطرت کی تضحیک توہین اور تحقیرسے بازنہیں آتے۔ وہ اپنے بزرگوں کے پیروں کو ہاتھ لگاتے ہیں ہم ان کی عزت پیروں تلے کچلتے ہیں افسوس۔

No comments:

Post a Comment