Tuesday, November 13, 2012

’’و ہی لے ثواب اُلٹا‘‘

اقوام متحدہ نے دنیا کے سارے مسائل حل کردیے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل بھی حل ہوگئے۔ اب جبکہ اس کے پاس کرنے کو کوئی کام نہ رہا تو ’’عالمی یوم ملالہ‘‘ منانے کا خیال جی میں آیا۔ ہفتے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی اپیل پر دنیا بھر میں عالمی یوم ملالہ منایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ سے لے کر برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون، اور خود بان کی مون تک سب نے ملالہ کو علم دوستی کی علامت اور مشعلِ راہ قرار دیا۔ اس بہانے ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی بے چاری شازیہ کا خیال بھی کچھ لوگوں کو آگیا اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون نے ٹیلی فون کرکے اس کی خیریت بھی دریافت کرلی۔
اقوام متحدہ کی اپنی حیثیت ہی کیا ہے؟ اس کے اکثر فیصلے امریکی مفادات اور خواہشات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ اِس وقت پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ ایسی علامتیں کھڑی کرنا امریکا کی ضرورت ہے جس سے دنیا کی توجہ افغانستان کے بجائے پاکستان کی طرف منتقل ہوجائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری ایک معصوم پھول صورت بچی ملالہ کو بھی ایک تراشیدہ علامت کے طور پر پینٹ کیا جانے لگا ہے۔ ملالہ پر حملے کے بعد طالبان کو اپنے نیمے دروں نیمے بروں حامیوں کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں دنیا کی مخالفت سے غرض نہیں تھی، کیونکہ دنیا پہلے ہی ان سے خوش نہیں تھی۔ غیروں کے پتھروں کے وہ عادی تھے، مگر اپنوں کے پھولوں نے انہیں پہلی بار زخم زخم کیا۔ اس طرح پہلی بار انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ گویا کہ نشانہ سو فیصد ٹھیک بیٹھا تھا۔ یہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کھیل ہوتے ہیں جس میں غریب ملکوں کے لوگ اور ان کے بچے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
بھارت جب 1990ء کی دہائی میں اپنی منڈیاں مغربی ملکوں کے لیے کھول دیتا ہے تو ایک ارب انسانوں کے ملک میں کئی سال تک مسلسل ’’حسینۂ عالم‘‘ دریافت ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا سارا حسن ہی بھارت میں عود کر آیا ہو، یا پھر حسینائوں کا کوئی نیا جزیرہ دریافت ہوگیا ہو۔ جلد ہی یہ عقدہ کھلا کہ مغرب کی اس مہربانی اور نوازش کا تعلق کاسمیٹک مصنوعات بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروباری مفادات سے تھا۔ یوکیتا مکھی اور ایشوریا رائے کی تقلید میں جنوبی پنجاب کی سکھ مٹیارنیں، آگرہ کی گرمی سے سڑی ہوئی دوشیزائیں، اور گھونگھٹ نکالے مراٹھی لڑکیاں میک اَپ کی مصنوعات اور رنگ گورا کرنے والی کریمیں خریدنے لگیں۔ بھارتی لڑکیاں اس کام پر لگ گئیں تو اب لگتا ہے کہ وہاں سے حسن و جمال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا ہے۔ ایک دہائی ہونے کو ہے بھارت میں کوئی حسینۂ عالم دریافت نہیں ہوئی۔
کچھ یہی حال مختاراں مائی کا تھا جسے پاکستانی سوسائٹی میں عورت کی مظلومیت کی علامت کے طور پر پینٹ کیا گیا تو اس کے پیر پاکستان میں ٹکتے ہی نہیں تھے۔ کبھی اسے امریکا تو کبھی لندن میں بلاکر تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ جسے سرائیکی کے سوا کوئی دوسری زبان بولنا نہیں آتی تھی اس سے بزبانِِ انگریزی ایک کتاب بھی لکھوادی گئی اور ہاتھ میں قلم پکڑے بغیر وہ مصنفہ بن گئی، اور پھر اس کتاب کوگرم کیک کی طرح فروخت بھی کروا دیا گیا۔ یورپی پبلشر نے اس سے کیا کمایا؟ اور مختاراں مائی کے مسئلے کو بنیاد بناکر پاکستان میں عورتوں کے نام پر کئی پروجیکٹس شروع کرکے کتنے کاروباری مقاصد کو آگے بڑھایا گیا، اس کا علم ریاستی اداروں کو بخوبی ہے۔
تہذیبِ مغرب کے کھیل کس قدر نرالے ہیں! بے چاری معصوم ملالہ کو بھی بی بی سی نے پراسرار کہانیاں لکھواکر یا اُس کا نام استعمال کرکے دہشت کے جنگل میں تنہا کھڑا کردیا۔ جہاں سے ووٹ لینے والے عوامی نمائندے واپس اپنے ووٹروں اور حلقوں میں جانے کے بجائے اسلام آباد میں عافیت کے دن گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اُس ’’دشتِ دہشت و وحشت‘‘ میں ملالہ کو گولی کھانے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اب ملالہ کے نام پر ایک نیا کاروبار شروع ہوگیا ہے۔ کاروباریوں کو سوات کی اس بچی سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے مقاصد اور مفادات اس مہم سے پورے ہوتے ہیں۔ یہ بے رحم مغربی ساہوکاروں کے Bull fighting  جیسے ظالمانہ کھیل ہیں۔
چند دن پہلے امریکا کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے مولوی فضل اﷲ اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت افغانستان میں روپوش ہیں۔ افغانستان پر اِس وقت نیٹو اور امریکا کا کنٹرول ہے۔ افغان فوج کی حیثیت برائے نام ہے۔ امریکی اخبار نے یہ بھی کہا تھا کہ نیٹو اور امریکی فوج فضل اﷲ کے خلاف کارروائی میں اس لیے دلچسپی نہیں لیتیں کہ وہ ان سے خطرہ محسوس نہیں کرتیں۔ اب امریکی فوج نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ مولوی فضل اﷲ نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ انہیں افغان حکام آر پار جانے کی سہولت اور سفری دستاویزات بھی فراہم کرتے ہیں۔صدر کرزئی نے یہ کہہ کر اس بات کو مذاق میں اُڑانے کی کوشش کی ہے کہ فضل اﷲ اگر افغانستان میں ہے تو پاکستان سے ہی آیا ہوگا۔صدر کرزئی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنی سرحدیں بند کر کے فضل اﷲ جیسے لوگوں کو روک سکتا ہے۔ مگر یہ وہ کام ہے جوامریکا اور نیٹو کی بہادر اور باوسیلہ ا فواج دس سال تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود نہ کرسکیں،یہاں تک کہ انہیں کئی صوبوں سے رخت ِسفر باندھ کر کابل و قندھار کی راہ لینا پڑی۔ اس سے پہلے بھی افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی نے اس دعوے کوجھٹلا یا تھا کہ پاکستان کا انتہائی مطلوب شخص مولوی فضل اﷲ افغانستان میں مقیم ہے۔
فضل اﷲ کی سرگرمیوں کا سارا رخ پاکستان کی جانب ہے۔گویا کہ مولوی فضل اﷲ کا شمار امریکی طالبان میں ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے طالبان،امریکا کے طالبان،روس کے طالبان،سعودی عرب اور ایران کے طالبان اور نجانے کس کس ملک کے طالبان پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں سرگرم ہیں۔پاکستان نے پہلے پہل مولوی فضل اﷲ کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن اب کسی دبائو میں اس محاذ پر خاموشی چھا گئی۔اس کامطلب یہ ہواکہ ملالہ کے حملہ آور اور اس کے خون پر آنسو بہانے والے ایک ہی ہیں۔اسی پر کہا جاتا ہے کہ ’’و ہی ذبح بھی کرے ہے و ہی لے ثواب الٹا‘‘۔امریکا اور مغرب ملالہ کے نام پر کاروبار اور نوحہ خوانی کرنے کے بجائے اس کے حملہ آوروں کو اپنی زیرقبضہ سرزمین سے ڈھونڈ نکالیںاور انہیں پاکستان کے حوالے کریں تاکہ یہاں کے قانون کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہوسکے۔ شایدیہی ملالہ کے ساتھ ہمدردی کا بہترین طریقۂ اظہار بھی ہے۔

No comments:

Post a Comment