Sunday, February 24, 2013

کلچر

کلچر ہماری دنیا کے مشہور ترین الفاظ میں سے ایک ہے۔ دنیا میں ہر طرف لوگ کلچر کلچر کررہے ہیں، لیکن یہ لفظ جتنا مشہور ہے اس کے مفہوم کا فہم اتنا ہی کمیاب ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ لوگ ’’اسلحے کا کلچر‘‘، اور ’’بدعنوانی کا کلچر‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کلچر کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کلچر کے حوالے سے برپا شور و غوغا اور اس کے مفہوم کی عدم تفہیم میں ایک ربط ہے۔ چونکہ دنیا کے اکثر مقامات پر حقیقی کلچر دم توڑ رہا ہے، اس لیے لوگ لاشعوری طور پر کلچر کلچر کا راگ الاپ کر خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کا کلچر نہ صرف یہ کہ زندہ ہے بلکہ وہ خود بھی اپنے کلچر سے گہرے طور پر وابستہ ہیں اور اس کے فروغ میں ایک کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کلچر کا مفہوم کیا ہے اور یہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟
کلچر کسی قوم کے تصورِ حقیقت کو زندگی کی ہر سطح پر اس طرح طرزِ اظہار میں ڈھالنے کا نام ہے کہ حقیقت کی معنویت اور اس کا جمال ایک اکائی بن کر ظاہر ہوں۔ دوسرے الفاظ میں کلچر کسی قوم کے معلوم کو محسوس اور مجرد کو ٹھوس بنانے کا نام ہے۔ مثلاً مسلمانوں کا تصورِ حقیقت توحید کا تصور ہے۔ اس تصور میں ایک جانب خدا کی ذات کا تصور ہے اور دوسری جانب خدا کی صفات کا۔ چنانچہ مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کی ذات اور اس کی صفات کے تصور کو اس طرح معرضِ اظہار میں لائیں کہ خدا ہمیں ہر طرف موجود نظر آئے اور اس کی موجودگی ہمیں ہر طرف محسوس ہو۔ مثلاً اسلام کا کلچرشعورِ بندگی اور اس کا اظہار ہے۔ اس اظہار کی بلند ترین سطح ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں نظر آتی ہے۔ آپؐ سردار الانبیاء تھے، مگر آپؐ نے فرمایا ہے کہ میں تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں سوائے اس کے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ آپؐ کا یہ شعورِ بندگی آپؐ کی ہر چیز سے ظاہر ہوتا تھا۔ آپؐ کی تواضع اور آپؐ کا انکسار اس کا اظہار تھے۔ آپؐ دنیا کے سب سے اہم انسان ہونے کے باوجود عام انسانوں کی طرح رہنا پسند کرتے تھے۔ لیکن یہ کلچر کی بلند ترین سطح ہے۔ تاہم کلچر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف زندگی کی بلند ترین سطحوں سے متعلق نہیں ہوتا۔ وہ کہیں علم کی فضیلت پر اصرار بن جاتا ہے، کہیں شاعری اور فنِ تعمیر میں ڈھل جاتا ہے، کہیں مہمان نوازی اور پڑوسیوں کی خبر گیری کی روایت کی صورت اختیار کرلیتا ہے، یہاں تک کہ وہ لباس اور کھانے پینے کے آداب تک میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ کلچر کے سلسلے میں بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ تہذیب اور ثقافت یا تہذیب اور کلچر میں کیا فرق ہے؟ کیا یہ ہم معنی الفاظ ہیں، یا ان کے درمیان کوئی امتیاز پایا جاتا ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تہذیب اور کلچر ہم معنی الفاظ ہیں، اور بعض لوگوں کے نزدیک تہذیب زندگی کی خارجی اور کلچر زندگی کی داخلی جہات کی علامت ہے۔ مگر یہ خیالات درست نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب کلچر کی ’’آفاقیت‘‘ ہے، اور کلچر تہذیب کی ’’مقامیت‘‘۔ مثال کے طور پر مسجد کی تعمیر میں موجود ’’مسجدپن‘‘ اسلام کی تہذیب کی علامت ہے اور مسجد کا نقشہ یا ڈیزائن مسجد کے کلچر کا استعارہ ہے۔ اسی طرح لباس کا ’’ساتر‘‘ ہونا اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہے اور لباس کی وضع اور تراش خراش لباس کی ثقافتی جہت ہے۔ یعنی مسجد جہاں بھی ہوگی مسجد پن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ اس کے نقشے پر ترکی، برصغیر اور انڈونیشیا کے مقامی تخلیقی رجحانات کا اثر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح لباس اگر ساتر نہیں تو اسے ہرگز اسلامی تصور نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ ساتر ہے تو اس کے شلوار، قمیص،پاجامے یا کچھ اور ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مذہب کے کلچر میں ڈھلنے کا مفہوم اور اس کا فائدہ کیا ہے؟ مذہب کے کلچر میں ڈھلنے کا مفہوم یہ ہے کہ شعور تجربہ بن گیا اور اس میں انسان کے جذبات و احساسات کی تسکین اور تہذیب کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلچر کی پشت پر مذہب کی موجودگی صرف مسلمانوں سے مخصوص ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہندوازم میں تو موسیقی تک مذہبی پس منظر کی حامل ہے۔ ہندوئوں میں کلاسیکل موسیقی کا تصور یہی ہے کہ جب انسان کی روحانی قوت کمزور پڑگئی اور وہ محض اپنی استعداد کی بنیاد پر خدا سے رابطہ پیدا کرنے اور تعلق استوار کرنے کے قابل نہ رہا تو برہما یا کائنات کی تخلیق کرنے والے نے ایک مددگار عنصر کے طور پر موسیقی کو خلق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو اپنی کلاسیکل موسیقی کو صرف موسیقی یا سنگیت نہیں کہتے، بلکہ شاستریہ سنگیت کہتے ہیں۔ یعنی ایسی موسیقی جس نے شاستروں کے مقدس متن یا Sacred Text سے جنم لیا۔ موسیقی کے اس پس منظر کی وجہ سے شاسترے سنگیت کے بڑے ماہرین جدید موسیقی کو تقریباً گمراہی خیال کرتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک یہ موسیقی شاسترے سنگیت سے انحراف ہے اور یہ خدا تک لے جانے والی موسیقی نہیں ہے۔ ہندوستان نے گزشتہ ساٹھ ستّر سال میں جو فلمی موسیقی پیدا کی ہے اس میں شاسترے سنگیت کی محض جھلک موجود ہے، تاہم اس موسیقی کا خاص پہلو یہ ہے کہ اس کے مواد کا بڑا حصہ ایسا ہے جو معنی کے ابلاغ کا حامل ہے، اور معنی کا یہ ابلاغ موسیقی کے احساس پر غالب ہے۔ چنانچہ اس موسیقی میں بھی ایک عمودی جہت یا Vertical Dimension پیدا ہوگئی ہے۔
مغرب میں میتھوآرنلڈ نے کلچر پر ایک پوری کتاب Culture and anarchy لکھی ہے اور اس میں اس نے کلچر کی تعریف کرتے ہوئے اسے Light and Sweetness قرار دیا ہے۔ غور کیا جائے تو Light and Sweetness یا روشنی اور لطف میں ’’لطف‘‘ احساس، جسمانیت، مقامیت، کلچر اور افقی جہت یعنی Horizental Dimension کی علامت ہے، اور ’’روشنی‘‘ معنی، روحانیت، آفاقیت، تہذیب اور عمودی جہت یا Vertical Dimension کی علامت ہے۔ کلچر اور تہذیب کا اسلامی تصور بھی یہی ہے۔
فی زمانہ مسلمانوں کی مذہبی فکر کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو کلچر میں ڈھالنے کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مذہبی ذہن کو لگتا ہے کہ معلوم کو محسوس بنانے سے مذہب میں ملاوٹ ہوجاتی ہے اور وہ خالص یا Pure نہیں رہتا۔ اس فکر کی معذوری کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہ فکر اقبال کی شاعری کو تو اسلامی سمجھتی ہے مگر میر کی شاعری اسے اسلامی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے یہاں اسلام سطح پر موجود ہے اور میر کے یہاں مذہب پس منظر میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مذہبی فکر صورت پرستی کی مخالف ہونے کے باوجود صورت پرستی کی اسیر ہے۔ وہ مذہبی شعور اور مذہبی معنی کو کچھ صورتوں میں پہچانتی ہے اور ان سے معنی اور لطف اخذ کرتی ہے۔ مگر جیسے ہی مذہبی شعور اور مذہبی معنی صورت تبدیل کرتے ہیں وہ انہیں پہچاننے سے انکار کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہبی فکر نظریہ، تصور اور ذہنی حقیقت تو بن جاتی ہے مگر وہ حسّی تجربے اور جذبات کی تسکین کا ذریعہ نہیں بن پاتی۔ لیکن کلچر کے مذہب سے برآمد ہونے کا خیال عالمگیر نہیں ہے۔
جدید مغرب کا خیال یہ ہے کہ کلچر مذہب کی پیداوار نہیں بلکہ مذہب خود کلچر سے برآمد ہوتا ہے۔ مغرب کے اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے مذہب کو مسترد کردیا اور لادینیت اختیار کرلی۔ لادینی فکر کے تحت کارل مارکس نے یہ تک کہہ دیا کہ معاذ اللہ خدا کا تصور خود انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ جدید مغربی فکر بھی زندگی کو صرف ایک مادی حقیقت سمجھتی ہے اس لیے وہ بھی مذہب کو انسان کی تخلیق باور کراتی ہے۔ چونکہ مذہب بھی انسان کی تخلیق ہے اس لیے کلچر میں بھی کوئی ماورائی یا روحانی جہت نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کا تصورِ حقیقت مادہ ہے، یعنی وہ مادے ہی کو الہٰ سمجھتا ہے۔ اس فکر کا اثر پورے مغربی کلچر پر پڑا ہے۔ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ مغرب میں عریانیت یا جسمانیت بہت ہے، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ  مغرب کی عریانیت یا حد سے بڑھی ہوئی جسم پرستی کا سبب مغرب کی مادہ پرستی ہے۔ اس حوالے سے مغربی فکر اور مذہبی فکر کا موازنہ کیا جائے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ مغرب روحانیت سے، اور مذہبی فکر جسمانیت سے خوف زدہ ہے، اور اس سلسلے میں دونوں جگہ عدم توازن پایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مغرب کا عدم توازن بہت بڑا اور ہولناک ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی تہذیب توازن کی عالمگیر علامت ہے۔ اس لیے کہ اس تہذیب کی ثقافتی روح یہ اصول ہے کہ روح جسم کا لباس ہے اور جسم روح کا لباس ہے۔ مسلمانوں نے جب تک اس اصول کی پیروی کی وہ دنیا کی سب سے بڑی تہذیبی اور ثقافتی قوت بنے رہے اور تخلیق ان کا نشانِ امتیاز بن گئی۔ اس کے برعکس مغرب چونکہ روحانیت کا منکر ہے اس لیے اس کا کلچر آنند کمار سوامی کے بقول Culture کے بجائے Cult-tureبن کر رہ گیا ہے۔ یعنی مغرب کا کلچر صرف تاثر تخلیق کرتا ہے اور اسی کے ابلاغ کے قابل ہے۔ وہ نہ معنی تخلیق کرتا ہے اور نہ ان کا ابلاغ کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف اسلام ہے جو تہذیب اور کلچر جیسے الفاظ کو ان کے اصل معنی فراہم کرسکتا ہے، اور صرف اسلام ہے جو حقیقی معنوں میں عالمگیر کلچر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

No comments:

Post a Comment