Tuesday, February 19, 2013

خاک ہوجائو گے، افسانوں میں ڈھل جاؤگے

ہم حجاب ڈے کے حوالے سے ایک چینل کا پروگرام ریکارڈ کروانے کے لیے جمع تھے۔ وہاں پروگرام میں شریک خواتین سے بات ہونے لگی، ایک خاتون جن کا تعلق کسی مڈل کلاس گھرانے سے تھا، اپنے حلیے سے بہت مذہبی بھی نہیں لگ رہی تھیں مگر ماحول میں پھیلی بے حیائی پر بہت فکرمند تھیں… دکھ سے بولیں: کیا کریں، کہاں لے کر جائیں بچوں کو، کیسے بچائیں اور کہاں کہاں بچائیں! میرا بچہ تیسری جماعت میں پڑھتا ہے اور عام سا اسکول ہے، مگر ویلنٹائن سے ایک دن پہلے اسکول سے آکر کہنے لگا ’’امی کل مجھے لال شرٹ پہن کر جانی ہے اور ایک پھول لیکر جانا ہے‘‘۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’کس لیے بیٹا؟‘‘ ’’امی ہماری ٹیچر نے کہا ہے کل کلاس میں ویلنٹائن ڈے منائیں گے تو وہ کپل بنائیں گی اور مجھے اپنی کپل کو پھول دینا ہے‘‘۔ وہ خاتون تو اپنا دکھ بیان کر گئیں مگر مجھے لگا کہ ہم ایک ایسی گہری کھائی میں گررہے ہیں جس کی پستی کا ابھی اس وقت شاید کسی کو اندازہ نہیں، یا کرنا نہیں چاہتے، مگر جب آنکھ کھلے گی تو وقت گزر چکا ہوگا۔
اسکول جو ماں کی گود کے بعد بچے کی تربیت اور شخصیت سازی کی اہم ترین جگہ ثابت ہوا کرتے تھے، استاد جن کو روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے کہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ وہ بچے کو ہر برائی سے روکیں اور اس میں اچھائیاں پیدا کریں… مگر یہ کیا!آج کے استاد نے اپنا کام صرف چھوڑ دیا ہوتا تو بھی اتنا نقصان نہ ہوتا مگر اس نے تو اپنی راہ ہی بدل لی، اور راہوں کے بدلنے کا کفارہ من حیث القوم دینا پڑتا ہے۔ جن قوموں کی تقلید میں ہم اپنا دین، ایمان، غیرت، حیاء سب دائو پر لگا دیتے ہیں وہ پھر بھی ہمیں قبول نہیں کرتیں اور سب کچھ کھو کر بھی ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
مجھے میرے دعویٰٔ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
آج ہر اسکول، کالج، یونیورسٹی میں منایا جانے والا بے غیرتی کا یہ تہوار ایک مسلم معاشرے کے لیے زہر قاتل کی طرح ہے، اور نوجوان نسل ہی کیا اب تو معصوم ذہنوں کو بھی پراگندہ کرنے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، چاہے وہ نام نہاد آزاد میڈیا ہو جہاں ہر چینل پر بیٹھے غیرت سے عاری جوڑے ہوں جو ایک طرف خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری طرف آنے والی نسل کو اخلاقی بانجھ پن کا شکار کررہے ہیں، یا وہ خودغرض سرمایہ دار ہوں جو اپنا کثیر سرمایہ بے حیائی کی ترویج کے لیے اس تہوار پر لگاتے ہیں، جن کی بدولت بڑے شاپنگ مالز سے لے کر گلی محلے کی دکانوں میں بھی ویلنٹائن کے کارڈز ہوں، دل بنے غبارے ہوں یا پھول… ہر طرف سرخ رنگ کی بہتات نظر آ تی ہے اور ہر ایک کے لیے اس کو منانا اتنا آسان کردیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر ایک کے دروازے تک پہنچا دیا تو بے جا نہ ہوگا، جس نے پورے کے پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیا۔
اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس کو دنیا کے کسی ملک میں اتنی کوریج اور اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ ہمارے ملک میں۔ کیونکہ ہم تو وہ کہنہ مشق بھکاری ہیں جو غیروں کی اندھی تقلید میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے! اگر اسی پر ایک نظر ڈال لیتے تو شاید حیاء اور شرم یہ سب منانے سے روک دیتیں۔
اس تہوار کے بہت سے تاریخی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں، مگر ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو حیاء سے عاری نہ ہو اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کی ترغیب نہ دیتا ہو، مگر ہماری نوجوان نسل جو اپنی عید کا پورا دن سونے میں گزارتی ہے مگر اس تہوار کو وہ بہت ہی اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔
اس تہوار کے منانے والے اللہ کے نبیؐ کی اس تنبیہ کو یاد رکھیں: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ (ترمذی، مسند احمد50… سنن ابوداؤد 4021)
چونکہ شیطان کا پہلا وار ہی انسان کی حیاء پر کیا گیا تھا اور اسی لیے رب نے خود بنی آدم کو تنبیہ کی تھی کہ:
’’اے اولادِ آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوادیا، ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتے ہیں کہ تم ان کو نہیں دیکھتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (سورہ الاعراف)
فرمانِ نبویؐ ہے: ’’جب تم حیاء نہ کرو تو جو تمہارا جی چاہے کرو۔‘‘ (بخاری) اس لیے کہ حیاء ایمان کی ایک شاخ قرار دی گئی اور حیاء اور ایمان دونوں کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا اور واضح کردیا گیا کہ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حیاء ہی وہ فرق ہے جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے، اور جب حیاء نہ رہے تو انسان کو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی اور رشتوں کا تقدس و احترام سب جاتا رہتا ہے۔
نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ محبت کا دن ہے اور اسے ضرور منانا چاہیے، تو ان کے لیے یہ ایک اہم خبر ہے کہ اسلام کی تو بنیاد ہی محبت و اخوت پر ہے، اس میں تو سال کا ہر دن محبتوں سے لبریز ہوتا ہے، ہاں بس فرق اتنا ہے کہ اسلام جائز رشتوں، جائز طریقوں سے محبت کا حکم دیتا ہے اور ہر لمحے کے لیے دیتا ہے، سال میں صرف ایک دن کے لیے نہیں۔
ہاں کچھ حدیں ہیں جو اللہ نے خود متعین کی ہیں، اور یہ بجلی کے تاروں کی طرح ہیں جن کو چھونے سے ہی منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کے قریب سے بھی گزرنے سے روک دیا گیا اور وعید سنادی گئی:
’’اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہلِِ ایمان میں بے حیائی پھیلے اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘(النور: 19)
یہی وہ حدود ہیں کہ جن کو توڑنے کے نتیجے میں رب نے ہم سے پہلے کی قوموں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اور آخرکار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، سنو! دور پھینک دیے گئے عاد، ہود کی قوم کے لوگ۔جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے، گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سنو! مدین والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔‘‘( سورہ ہود)
یہ وہ سورتیں تھیں کہ جن کے نزول کے بعد آپؐ کے بالوں میں یکدم سفیدی نظر آئی تو حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ کے بالوں میں اتنی سفیدی…!‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر مجھے ’’یونس اور ہود‘‘ نے بوڑھا کردیا ہے۔
یہ سورتیں اللہ کی نافرمانی کرنے اور اپنی من مانی کرنے والی قوموں کے خوفناک انجام کا پتا دیتی ہیں اور وعید ہے کہ جب اللہ کی حدود کو کھلم کھلا توڑا جائے تو نتیجہ کیا ہوتا ہے، اس لیے کہ رب کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی، اس سے پہلے کہ اس قوم کے دور پھینک دینے کا فیصلہ کردیا جائے اور توبہ کی مہلت بھی نہ مل سکے ہمیں پلٹنا ہوگا، رجوع کرنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ ہمارا ذکر بھی نہ ہو داستانوں میں۔ فیصلہ کیجیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوجائیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ان ایام کو سوگ کے دن قرار دینے پر مجبور ہوں۔


No comments:

Post a Comment