ایک امریکی کانگریس میں لوئی گوہمرٹ نے کہا ہے کہ امریکا کو اپنے ملک
میں شرعی قوانین روکنے کے لیے بندوق استعمال کرنی ہوگی… یہ وہ بات ہے جو
برسہا برس سے اسلام کے مخالفین پھیلایا کرتے تھے یعنی یہ کہ اسلام تلوار سے
پھیلا ہے۔ آج ساری دنیا کی دولت ساری دنیا کا میڈیا اور ساری دنیا کی سب
سے بڑی فوجی قوت ہونے کے دعویدار ملک کی کانگریس کا نمائندہ کہتا ہے کہ
اسلام کو روکنے کے لیے بندوق کی ضرورت ہے۔ وائس آف فریڈم نامی ریڈیو کے ایک
پروگرام میں گوہمرٹ نے یہ بات کہی۔ وائس آف فریڈم کا مطلب آزادی کی آواز…
لیکن یہ آزادی کئی اور مواقع اور امور میں کہاں چلی جاتی ہے۔ ہولوکاسٹ کے
بارے میں بات کرنے والے کا آزادی اظہار کا حق کیوں دبا دیا جاتا ہے۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ 9/11 نے جہاں پورے امریکی معاشرے کو متاثر کیا ہے وہیں
امریکیوں کے نمائندوں کے ذہنوں کو بھی بری طرح مسموم کیا ہے۔ صرف یہی
امریکی سیاستدان نہیں ہیں بلکہ اس سال صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران پورے امریکا
میں شرعی قوانین کے خلاف 29 بل پیش کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر بلز
اپنی موت آپ مرجاتے ہیں لیکن یہ رویہ بتارہا ہے کہ 9/11 اور اس کے حوالے
سے امریکی میڈیا کی رپورٹنگ نے امریکی معاشرے، قانون سازی اور دانشوری کو
بری طرح متاثر کیا ہے… اگر ایک آدمی میں شرعی قوانین کو روکنے کے لیے بندوق
کے استعمال کا شورہ دے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زہر بری طرح اندر تک
اتر چکا ہے… ہاں ابھی بہت سے لوگ ایسے ضرور ہیں جو اس قسم کی مہم کو درست
نہیں سمجھتے۔ ایک امریکی خاتون نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ کیا آپ ایسے
لوگوں کے خلاف بندوق استعمال کریں گے جو پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور سور
کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ایک رکن کانگریس نے ایسا سوال
اٹھایا ہے اور اس کے سوال کو اکثریت نے مسترد کردیا ہے بلکہ امریکی معاشرے
میں ایسے سوالات اور ایسی باتوں کا اٹھایا جانا ہی اس معاشرے کے ان اصولوں
کے زوال کا اعلان ہے جن کی بنیاد پر امریکا اور امریکی خود کو دنیا سے
ممتاز تصور کرتے تھے۔ مذہبی آزادی، شخصی آزادی، آزادیٔ اظہار، برداشت یا
تحمل ورواداری وغیرہ جن کو امریکا ساری دنیا میں پھیلاتا رہا ہے اس پر
اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہی امریکی معاشرے کا حسن
تھا… اس حسن کو گہن لگ رہا ہے۔ پتا نہیں اب کوئی ابرریام لنکن، کوئی
واشنگٹن پیدا ہوگا کوئی سوچے گا کہ مستقبل کا امریکا کیسا ہوگا اس کو دنیا
میں کس نام سے پہچانا جائے گا… جنگی جنون میں مبتلا کچھ حکمرانوں اور ان کے
اسلحہ کے تاجر دوستوں نے امریکا کا یہ چہرہ تو بتا دیا ہے کہ وہ ساری دنیا
میں جنگوں کا سودا گر ہے… وہ امن قائم کرنے جہاں گیا اس سرزمین کو آگ وخون
میں نہلا دیا ہے… گویا اب امریکا ابراہام لنکن یا جارچ واشنگٹن کے نام سے
نہیں پہچانا جاتا ہے بلکہ اس کی شناخت 9/11 ہے۔ اسے اب معاشرتی آزادیوں کا
ملک نہیں بلکہ پابندیوں، جکڑ بندیوں اور قانون کے ساتھ کھیل کرنے والا ملک
بتایا جارہا ہے… صرف ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو لے لیں تو عقل حیران ہے کہ
پاکستان کے کسی پسماندہ گائوں میں پنجایت کے فیصلے کو ہی لے لیں وہاں جھوٹا
مقدمہ بنایا جاتا ہے جھوٹے گواہ پیش ہوتے ہیں اور جھوٹے ثبوت لاکر کسی کو
بھی مجرم قرار دے دیا جاتا ہے پھر جو چاہے احمقانہ سزا تجویز کردی جاتی ہے
کبھی پورے گائوں میں خواتین کو برہنہ کرکے گھمانے کی سزا دی جاتی ہے کبھی
70 سال کے بوڑھے کی 10 سالہ بچی سے شادی کردی جاتی ہے کبھی پوری جائداد ضبط
کرکے کسی کے حوالے کردی جاتی ہے لیکن مقدمہ میں گواہان وغیرہ ہر چیز مکمل
کی جاتی ہے۔ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ملزم واقعی مجرم ہے… لیکن عافیہ صدیقی
کے معاملے میں تو عدالت اس پر لگائے گئے الزامات بھی ثابت نہیں کرسکی لیکن
پھر بھی… اسے 86 برس کی سزا سنا دی گئی… ہم تو اپنی پنچایت کے ایسے فیصلے
کو قومی ٹی وی چینلز پر احمقانہ اور ظالمانہ قرار دے سکتے ہیں لیکن 9/11 نے
امریکیوں سے اظہار رائے کی آزادی سلب کرلی ہے اب عافیہ کیس پر آواز اٹھانے
والوں کو بھی کبھی کبھی گھیسٹ لیا جاتا ہے لیکن وہاں شخصی آزادی کی بات
کرنے والے اس پر آواز اٹھارہے ہیں ہم سنجیدہ اور دانشور امریکیوں سے توقع
رکھتے ہیں کہ ایسے موقع پر خاموش نہ رہیں نفرت کی یہ آگ اگر بھڑک اٹھی تو
شعلے ہر گھر تک پہنچیں گے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ کیا پتا کسی ریاست میں
یہ بل قانون بن جائے پھر کیا ہوگا۔ کوئی تو سوچے… اور کوئی یہ بھی سوچے کہ
شریعت سے اتنا خون کیوں… یہ ابھی سے نظر آرہا ہے کہ امریکی اپنی جبلت سے
مجبور ہوکر شریعت کا مطالعہ کریں گے اور پھر امریکا میں اسلام قبول کرنے
والوں کی رفتار راکٹ کی سی تیز ہوجائے گی۔
No comments:
Post a Comment