پاکستان میں انتخابات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ اقتدار کی شمع کے پروانے جہاں
حکومت ملنے کا شعلۂ امید دکھائی دیتا ہے وہیں کا رخ کررہے ہیں۔ نئے سیاسی
اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ وفاداریاں بدلی جارہی ہیں، پارٹیاں تبدیل کی
جارہی ہیں، نئے عہدو پیمان باندھے جارہے ہیں، پیپلز پارٹی اگر بے روزگاروں
کو قرضوں کے اجراء کے منصوبے پر عمل کررہی ہے تو مسلم لیگ (ن) نے بھی ایک
لاکھ عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ معاشی حقائق بڑے تلخ
ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کا
حجم کم ہورہا ہے۔ روپیہ غیر مستحکم ہورہا ہے، بدامنی دہشت گردی، اہدافی
قتل، ہڑتالوں، احتجاجوں، دھرنوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کی بدولت معیشت
کی حالت بد سے بدترہوتی جارہی ہے۔ انتخابی نعروں کی تکمیل کے لیے قومی
خزانے کو لٹایا جارہا ہے اور قرض کا بوجھ مزید بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ آنے
والے انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے کیا معاشی منشور اور پروگرام تیار
کیا ہے اس کا جائزہ لیا جانا، اس کا تجزیہ کرنا اور اس پر مباحث کا آغاز
وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے وقت وقتی، جذباتی نعروں کا بہت شور سننے میں آتا ہے۔ برداری سٹم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے، جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار اپنا پورا اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنے طبقات کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے آشیانوں پر بسیرا کرلیتے ہیں، گزشتہ 63 سالوں سے چند خاندان اور گھرانے پاکستانی سیاست پر قابض ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں موروثی قیادت اور طبقۂ اشرافیہ کے مفادات کی نگہبان سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک سیاسی جماعتوں کے معاشی، اقتصادی پروگرام، لیڈروں کی لیاقت، قابلیت، صلاحیت، دیانت کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کا رواج نہیں ہے نہ ہی میڈیا یہاں اس قسم کے مباحث کو رواج دیتا ہے۔ میڈیا کو بھی بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑے اشتہارات ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کو ایک مہذب قوم کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو منشور، ان کے تعلیمی اور اقتصادی پروگرام کا جائزہ لینا چاہیے۔ امیدواروں کے کردار، اخلاق، ساکھ، حب الوطنی اور اخلاص کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ جو جماعتیں برسر اقتدار ہیں یا ماضی میں برسراقتدار رہی ہیں ان کی ماضی کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے۔ ملک کو اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لیے میڈیا، تعلیمی اداروں، ایوان ہائے صنعت وتجارت، تجارتی انجمنوں، دانشوروں کو ان مباحث کا آغاز کرنا چاہیے جس کے تحت ریاستی جماعتوں کے معاشی، تعلیمی اور سیاسی تبدیلی کے پروگرام کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ ان میں شعور پیدا کیا جائے تاکہ آنے والے انتخابات میں انہیں بہتر نمائندے منتخب کرنے کا موقع مل سکے۔ سوشل میڈیا کو بھی اس غرض کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو بھی اس کام کے لیے متحرک کرکے آگہی مہم چلائی جاسکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے منشور اور پروگرام کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس دفعہ بھی روایتی انداز میں الیکشن لڑرہی ہیں اور ان کے پاس ملک میں تبدیلی کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی نہیں ہے۔ مناسب ہوم ورک اور غوروفکر کی کمی ہے۔ کچھ جماعتوں نے البتہ اپنے پروگرام میں کچھ معاشی نکات ضرور پیش کیے ہیں۔ پاکستان کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں ان میں توانائی کا بحران، ٹیکس اور قومی آمدنی کا پست ترین تناسب، حکومت کا قرضوں اور امداد پر انحصار، پست برآمدات، درآمدات پر بڑھتا ہوا انحصار اور لگثرری درآمدی اشیاء کو کلچر کا حصہ بنانا، اس پر فخر کرنا، برتری کا باعث سمجھنا، محنت کے کلچر کا فقدان، ہڑتالوں اور مارکیٹوں کی جبری بندش کا بڑھتا ہوا رحجان، تعلیم کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے قومی آمدنی کی کم ترین شرح کا خرچ کیاجانا، جاگیردار، وڈیروں، سرمایہ داروں اور اشرافیہ طبقات کے مفادات کا تحفظ، آئی ایم اپف، ورلڈ بینک اور دیگر قرض دہندہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر عالمی سامراجی مفادات کا تحفظ، امیر کا بڑھتا ہوا فرق، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم وغیرہ شامل ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) دو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں مختلف ادوار میں شریک اقتدار رہی ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پہلے پرویز مشرف اور پھر زرداری دور حکومت میں بھی اقتدار کی لذت سے آشنا رہ چکی ہے۔ اس لیے وہ جماعتیں جو برسراقتدار رہی ہیں ان کے منشور کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کو میڈیا میں بہت ہی موثر حمایت حاصل ہے اور متعدد کالم نگار مسلم لیگ کی لابنگ اور اس کے حق میں رہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن کو جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مفاہمت، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سہولت بھی حاصل ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے وقت وقتی، جذباتی نعروں کا بہت شور سننے میں آتا ہے۔ برداری سٹم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے، جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار اپنا پورا اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنے طبقات کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے آشیانوں پر بسیرا کرلیتے ہیں، گزشتہ 63 سالوں سے چند خاندان اور گھرانے پاکستانی سیاست پر قابض ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں موروثی قیادت اور طبقۂ اشرافیہ کے مفادات کی نگہبان سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک سیاسی جماعتوں کے معاشی، اقتصادی پروگرام، لیڈروں کی لیاقت، قابلیت، صلاحیت، دیانت کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کا رواج نہیں ہے نہ ہی میڈیا یہاں اس قسم کے مباحث کو رواج دیتا ہے۔ میڈیا کو بھی بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑے اشتہارات ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کو ایک مہذب قوم کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو منشور، ان کے تعلیمی اور اقتصادی پروگرام کا جائزہ لینا چاہیے۔ امیدواروں کے کردار، اخلاق، ساکھ، حب الوطنی اور اخلاص کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ جو جماعتیں برسر اقتدار ہیں یا ماضی میں برسراقتدار رہی ہیں ان کی ماضی کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے۔ ملک کو اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لیے میڈیا، تعلیمی اداروں، ایوان ہائے صنعت وتجارت، تجارتی انجمنوں، دانشوروں کو ان مباحث کا آغاز کرنا چاہیے جس کے تحت ریاستی جماعتوں کے معاشی، تعلیمی اور سیاسی تبدیلی کے پروگرام کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ ان میں شعور پیدا کیا جائے تاکہ آنے والے انتخابات میں انہیں بہتر نمائندے منتخب کرنے کا موقع مل سکے۔ سوشل میڈیا کو بھی اس غرض کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو بھی اس کام کے لیے متحرک کرکے آگہی مہم چلائی جاسکتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے منشور اور پروگرام کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس دفعہ بھی روایتی انداز میں الیکشن لڑرہی ہیں اور ان کے پاس ملک میں تبدیلی کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی نہیں ہے۔ مناسب ہوم ورک اور غوروفکر کی کمی ہے۔ کچھ جماعتوں نے البتہ اپنے پروگرام میں کچھ معاشی نکات ضرور پیش کیے ہیں۔ پاکستان کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں ان میں توانائی کا بحران، ٹیکس اور قومی آمدنی کا پست ترین تناسب، حکومت کا قرضوں اور امداد پر انحصار، پست برآمدات، درآمدات پر بڑھتا ہوا انحصار اور لگثرری درآمدی اشیاء کو کلچر کا حصہ بنانا، اس پر فخر کرنا، برتری کا باعث سمجھنا، محنت کے کلچر کا فقدان، ہڑتالوں اور مارکیٹوں کی جبری بندش کا بڑھتا ہوا رحجان، تعلیم کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے قومی آمدنی کی کم ترین شرح کا خرچ کیاجانا، جاگیردار، وڈیروں، سرمایہ داروں اور اشرافیہ طبقات کے مفادات کا تحفظ، آئی ایم اپف، ورلڈ بینک اور دیگر قرض دہندہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر عالمی سامراجی مفادات کا تحفظ، امیر کا بڑھتا ہوا فرق، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم وغیرہ شامل ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) دو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں مختلف ادوار میں شریک اقتدار رہی ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پہلے پرویز مشرف اور پھر زرداری دور حکومت میں بھی اقتدار کی لذت سے آشنا رہ چکی ہے۔ اس لیے وہ جماعتیں جو برسراقتدار رہی ہیں ان کے منشور کے ساتھ ساتھ ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کو میڈیا میں بہت ہی موثر حمایت حاصل ہے اور متعدد کالم نگار مسلم لیگ کی لابنگ اور اس کے حق میں رہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن کو جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مفاہمت، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سہولت بھی حاصل ہے۔
No comments:
Post a Comment