Tuesday, March 26, 2013

پولیس سے جج بھی خوف زدہ

یہ حقیقت تو معروف و معلوم ہے کہ ایک عام شہری اگر کسی پولیس والے کی زیادتی کے خلاف تھانے میں شکایت لے جائے تو تھانے والے اُس کی شکایت درج نہیں کرتے اور اسے ڈانٹ کر بھگا دیتے ہیں۔ بعض اوقات اُسی کو بند کردیتے ہیں۔ عام سماج میں بھی یہ چلن عام ہے کہ بہو اپنے سسرال والوں کی شکایت اپنے ماں باپ سے نہیں کرتی‘ اس ڈر سے کہ اس کے بعد اس پر مظالم اور بڑھ جائیں گے۔ دفاتر‘ کارخانوں اور محلے پڑوس میں بھی کمزور افراد کسی طاقتور کی شکایت اپنے افسران یا محلے کے بڑوں سے نہیں کرتے۔ یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے۔ لیکن اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان بھی پولیس والوں کی زیادتیوں کی شکایت تھانوں میں درج کرانے سے اس خیال سے باز رہنے لگیں کہ اس صورت میں پولیس اُن افراد پر مزید زیادتیاں کرے گی جن کے کہنے پر شکایت درج کرائی جائے گی تو اسے کیا کہا جائے گا؟ اسے پولیس اسٹیٹ کہا جائے گا۔ بہت سے اس پر یقین نہیں کریں گے لیکن یہ بہرحال واقعہ ہے۔ ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے ایک سابق چیف جسٹس اور ان کے دو معزز رفقائے کار دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ پولیس کی جنسی زیادتی کی شکایت درج کرانے سے اس خیال سے باز رہے کہ واقعے کے چشم دید معصوم بچوں کو پولیس پریشان کرے گی۔
اس غیر معمولی واقعے کا تعلق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جے ایس ورما اور ان کی کمیٹی سے ہے جو دسمبر میں ایک 23 سالہ طالبہ کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی کے بعد فوجداری قوانین کو مزید سخت اور مؤثر بنانے کے لیے سفارشات پیش کرنے کی غرض سے باقاعدہ سرکاری حکم پر تشکیل دی گئی تھی۔ جسٹس لیلا سیٹھ (سابق چیف جسٹس ہماچل پردیش) اور سابق سولی سیٹر جنرل گوپال سبرامنیم کمیٹی کے ارکان تھے۔ صورت حال کی سنگینی کو زمینی طور پر سمجھنے کے عمل کے دوران تینوں جج صاحبان نے اُن چار کمسن بچوں سے گفتگو کی جنہوں نے دہلی پولیس کے تین اہل کاروں کو ایک لڑکی کو زبردستی اٹھاکر پولیس وین میں ڈالتے اور پھر اس پر جنسی ظلم کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات سرکار کو ایک ماہ قبل پیش کردی تھیں لیکن سرکار نے کوئی خاص کارروائی ابھی تک نہیں کی، سوائے اس کے کہ فوجداری قوانین کو سخت بنانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کردیا۔ کمیٹی نے دہلی پولیس پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، لیکن حکومت اس پر بالکل خاموش ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ خاموش ہی رہنا چاہتی ہے۔
دہلی پولیس کی زیادتی کے چار کم سن عینی شاہدوں کا بیان سن لینے کے بعد بھی ججوں نے تھانے میں شکایت درج کیوں نہیں کرائی؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ اس کا جواب روزنامہ ہندو کے رپورٹر سندیپ جوشی کو مسٹر گوپال سبرامنیم نے کچھ اس طرح دیا ہے:
’’ہم نے اس پہلو پر تفصیل سے غور کیا اور اتفاق رائے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ شکایت درج کرانا مناسب نہیں، کیونکہ اس صورت میں پولیس بچوں کو ہراساں کرے گی۔ ہمارے نزدیک بچوں اور ان کی شناخت کی حفاظت زیادہ اہم تھی۔‘‘ (دی ہندو 20 فروری)
تاہم فاضل ججوں نے 631 صفحات کی اپنی رپورٹ میں بچوں کے بیانات کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے، اور ان کا انٹرویو رپورٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ جسٹس ورما کمیٹی نے دراصل پولیس کے پورے نظام پر سوالات اٹھائے ہیں، اُس کے نزدیک پولیس کے اِس طرزعمل کا تعلق پولیس سسٹم کی خامیوں اور خرابیوں سے ہے، لہٰذا پورے نظام کا جائزہ ازسرنو لیا جانا چاہیے۔ برسبیل تذکرہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پولیس کا یہ کردار فرقہ وارانہ فسادات میں اپنا کیا رنگ دکھاتا ہوگا! دی ہندو کے اسی شمارے میں معروف سماجی کارکن تیستاسیتلواڑ نے دھولیہ فساد کے تناظر میں پولیس کے اسی گھنائونے کردار کی تصویر بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے۔

No comments:

Post a Comment