پاکستان کی طرح امریکا میں بھی جگہ جگہ نو گو ایریاز پائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ وہ کس علاقے میں کہاں تک اور کس وقت تک جا اور آ سکتے ہیں۔ امریکی پولیس اپنے شہریوں کو خود ہدایت کرتی ہے کہ جب آپ گھر سے نکلیں تو آپ کی جیب میں کم از کم دس ڈالر ضرور ہونے چاہئیں تاکہ لٹیرا کچھ نہ کچھ حاصل کرکے مطمئن ہوجائے، ورنہ دوسری صورت میں ممکن ہے کہ اشتعال میں آکر آپ کو نقصان پہنچادے۔
امریکی اسکولوں اور چوراہوں پر روزانہ بے گناہوں کو بندوق سے اجتماعی شوٹ کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اگر ان واقعات میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو اس کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جاتا ہے، ورنہ ملزم کو نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکا میں ہر برس سمندری طوفان آتے رہتے ہیں۔ امریکا سے باہر تو کیا خود امریکا کے اندر لوگوں کو اس امر کا یقین ہے کہ اس کے دوران سب کچھ ٹھیک رہا۔ بس بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا تھا جو امریکی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر درست کردیا۔ یہ سب وہاں کے میڈیا کا کمال ہے جو سنسنی نہیں پھیلاتا۔ ذرا گوگل پر حالیہ سینڈی طوفان کے دوران لوٹ مار کی خبروں کو سرچ کرکے تو دیکھیں۔ سوشل میڈیا آپ کو بتائے گا کہ اس دوران لوٹ مار کے واقعات کی شرح کیا تھی۔ اس طوفان کے متاثرہ لوگوں کو کس طرح منظم طریقے سے لوٹا گیا اور پولیس کس طرح منظر سے مکمل طور پر غائب تھی۔
بند دروازوں کو توڑ کر لوٹ مار تو ایک طرف رہی، لوگوں کو یرغمال بناکر لوٹنے کے واقعات بھی کم نہیں رہے۔ ایک خاتون نے رپورٹ کیا کہ اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے سے پیشتر اس نے جھانک کردیکھا تو بجلی کی کمپنی کی وردی میں ایک صاحب باہر کھڑے تھے۔ اس خاتون نے بند دروازے کے اندر سے ہی دریافت کیا تو ان صاحب نے کہا کہ ”علاقے میں بجلی بحال کردی گئی ہے، کیا آپ کے فلیٹ میں بجلی آرہی ہے؟“ نفی میں جواب پاکر انہوں نے کہا”ایسا لگتا ہے کہ فلیٹ میں اندرونی خرابی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے مجھے اندر آنے کی اجازت دی جائے“۔ خاتون نے ان صاحب کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ ان صاحب نے اندر آتے ہی خاتون کو یرغمال بنا کر اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی اندر بلا لیا اور اطمینان کے ساتھ پورے فلیٹ کو صاف کرکے رخصت ہوگئے۔ دیگر واقعات کی طرح یہ مجرم بھی پکڑے نہیں جاسکے۔ یہ تو مثال کے لیے محض ایک واقعہ بتا رہا ہوں۔ اس طرح کے درجنوں واقعات گوگل پر موجود ہیں۔
مگر پورا امریکی میڈیا محض امریکی حکومت کی کاوشوں کو رپورٹ کررہا تھا کہ کس طرح اس صورت حال کو قابو کرنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں اور اب تک کتنے اقدامات کیے جاچکے ہیں۔ کسی ایک نے بھی نہ تو سیکورٹی کے بارے میں سوالات اٹھائے اور نہ ہی یہ دریافت کیا کہ پولیس کا محکمہ کیا کررہا ہے۔ نہ اس طوفان کے درمیان اور نہ ہی بعد میں۔ اس طرح پورے امریکا میں سب کو شانتی نظر آرہی ہے۔ صرف متاثرہ افراد ہی جانتے ہیں کہ ان پر کیا گزر گئی۔ اگر کراچی میں بھی لمحہ بہ لمحہ فسادات اور فائرنگ کی کمنٹری نہ کی جائے تو نہ صرف بیرون کراچی کو کچھ پتا نہیں چلے گا بلکہ اہلِ علاقہ کی اکثریت بھی اس سے بے خبر ہی رہے گی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ امریکا کی طرح پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کیا جائے۔ میں صرف یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ امریکا میں جو ہمیں امن و امان کی خوبصورت تصویر نظر آتی ہے، ایسا ہے نہیں۔
امریکا میں لوٹا ماری بھی ہے، اغوا بھی ہیں اور چوری چکاری بھی… لسانی فسادات بھی اور گروہی جھگڑے بھی۔ امریکا میں ہتھیاروں پر پابندی کی مہم کے دوران ایک صاحب کا بالکل درست تبصرہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں گن پر قابو پانے کی نہیں بلکہ گینگ پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور پاکستان میں بس فرق اتنا ہے کہ وہاں پر قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے ابھی تک قانون توڑنے والوں میں اس طرح شامل نہیں ہوئے جس طرح پاکستان میں۔ پاکستان کا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں پر قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے ہی لاقانونیت کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ امریکا میں بھی قانون کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ گوانتاناموبے اس کی بہترین مثال ہے کہ وہاں پر ابھی تک کسی پرکسی آزاد عدالت میں فردِ جرم بھی عائد نہیں کی جاسکی۔ مگر یہ سب بہت محدود ہے اور انتہائی بالائی سطح پر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پر بھی کرپشن سے پاک نہیں ہیں، مگر پاکستان کی طرح یہ سب کچھ کھلے عام نہیں ہوتا۔ قانون بنانے والوں (ارکان پارلیمنٹ) نے تو امریکا کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے مگر وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے لیے جواز ڈھونڈ کر رکھتے ہیں کہ یہ امریکا اور امریکی عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔
تاہم یہ بات واضح ہے کہ امریکا میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہاں پر بھی سب کچھ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ بس ابھی تک لوگ لاعلم ہیں۔ یہ ناسور وہاں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے داعیوں کا یہی تو منشائ ہے کہ دنیا مجرموں کے چنگل میں پھنسی رہے۔ اسی طرح وہ عام افراد کو ان کے روزمرہ کے مسائل میں مصروف رکھتے ہیں۔ اگر عوام کو سوچنے کا موقع مل گیا تو پھر ان کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ امریکا کی کہانی ابھی جاری ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی کوششوں سے خود بھی خبردار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی ہشیار رکھیے۔ ہشیار باش۔
No comments:
Post a Comment