یادِ ماضی عذاب ہے یارب!
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
انسان کا ماضی عذاب ہو تو ماضی ایک سفاک ڈاکو کی طرح انسان اور اقوام کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور افراد و اقوام کو شرمندہ کرتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ انگریز پورے برعظیم پر قابض تھے‘ ان کا اقتدار تہذیب کی علامت تھا اور ان کا ظلم بھی انصاف کہلاتا تھا۔ انگریز خیال کرتے تھے کہ ان کا اقتدار لازوال ہے اور وہ جو کچھ کررہے ہیں اس پر نہ آج کوئی سوال اٹھ سکتا ہے نہ آنے والے کل میں کوئی سوال اٹھے گا۔ لیکن وقت بدل جاتا ہے اور ظلم و انصاف کو واضح طور پر دیکھنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برطانیہ آج بھی دنیا کے پانچ بڑوں میں سے ایک ہے۔ وہ ’’مہذب یورپ‘‘ کا حصہ ہے۔ مگر اس کا وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھارت کے دورے پر پہنچتا ہے تو جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس کے تعاقب میں ہوتا ہے اور یہ واقعہ اس کے شعور کو اتنا ہراساں کرتا ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم کو بھارت پہنچتے ہی جلیانوالہ باغ کے سانحے پر ’’معذرت‘‘ کرنی پڑ جاتی ہے۔ لیکن یہ معذرت بھی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس معذرت کے حوالے سے برطانوی سامراج کے کئی اور تضادات نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کتنی عجیب بات ہے کہ برطانیہ کا وزیرعظم جلیانوالہ باغ میں مارے جانے والے چند سو افراد کے قتل پر تو معذرت کررہا ہے مگر 1857ء کی جنگ آزادی میں مارے جانے والے لاکھوں عام شہریوں کی ہلاکت پر اس نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہیں کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈیوڈ کیمرون سے کسی نے بھارت میں یہ بھی پوچھ لیا کہ آپ کوہ نور ہیرا ہمیں کب لوٹا رہے ہیں اس لیے کہ انگریز یہ ہیرا بھارت سے لوٹ کر لے گئے تھے۔ اس سوال کے جواب میں ڈیوڈ کیمرون نے فرمایا کہ وہ ’’واپس کرو‘‘ کے فلسفے یا ان کے الفاظ میں Returnism پر یقین نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ نے جلیانوالہ باغ کے واقعہ پر معذرت کا اظہار کیوں کیا؟ کیا یہ معذرت بھی Returnism ہی کی ایک صورت نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر کوہ نور ہیرا بھارت کو واپس کرنے سے انکار کا کیا جواز ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم کو جلیانوالہ باغ کے سانحے پر ’’معذرت‘‘ کا خیال اس لیے آیا کہ اب برطانیہ کو بھارت سے بڑے پیمانے پر تجارت کرنی ہے ورنہ برطانیہ اور بھارت کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور برطانیہ کے کئی وزرائے اعظم اس سے قبل بھارت کا دورہ کرچکے ہیں مگر انہوں نے کبھی جلیانوالہ باغ کے سانحے پر معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ خیال سو فیصد درست ہے۔ چنانچہ جلیانوالہ کے واقعہ پر برطانیہ کی معذرت دراصل ’’اخلاقی معذرت‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’تجارتی معذرت‘‘ ہے اور تجارتی معذرت کی معذرت تسلیم کرنا دشوار ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔
آسٹریلیا ملک نہیں ہے پورا براعظم ہے اور کبھی یہ براعظم سفید فام لوگوں کا براعظم نہیں تھا بلکہ ایب اوریجنلز کا ملک تھا مگر سفید فاموں نے ایب اوریجنلز کے ملک پر قبضہ کرکے ایب اوریجنلز کو غلام بنالیا اور یہ سلسلہ ڈیڑھ صدی تک چلا لیکن پھر اچانک ’’مہذب‘‘ سفید فام لوگوں کو خیال آیا کہ ان سے زیادتی ہوگئی چنانچہ انہوں نے چند سال پہلے اعلان کیا کہ آسٹریلیا کا علاقہ تسمانیہ ایب اوریجنلز کا صوبہ ہوگا اور ریب اوریجنلز اس صوبے میں اپنی زبان اور ثقافت کے فروغ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ ماضی کے ظلم کا ازالہ ہے؟ ایک سفید فام صحافی نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایب اوریجنلز پر ظلم کے ازالے کی صورت یہ ہے کہ آسٹریلیا کی سفید فام آبادی آسٹریلیا کے سب سے بڑے دریا کے پُل پر کھڑے ہو کر دریا میں چھلانگ لگادے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہٹلر اپنے تمام ظلم اور جبر کے باوجود جرمن قوم کا ہیرو تھا بلکہ اس کے لیے اس وقت ہیرو کی اصطلاح بھی کفایت نہیں کرتی تھی۔ جرمن قوم ہٹلر کو ’’دیوتا‘‘ سمجھتی تھی اور تقریباً اس کو پوجتی تھی۔ ہٹلر کا ہر لفظ جرمن قوم کے لیے ایک ندائے غیبی یعنی ’’آکاش وانی‘‘ تھا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہٹلر اور اس کی پرستش جرمن قوم کے لیے ماضی کا سب سے بڑا بوجھ بن جائے گی۔ آج جرمن قوم کی اکثریت ہٹلر کو ولن سمجھتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہٹلر کے جرمن ہونے پر شرمندہ ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں امریکا کی تاریخ پر نگاہ ڈال لینا بھی مفید مطلب ہے۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے‘ امریکا کی سیاست اور سفارت دنیا کی سیاسی اور سفارتی معنویت کا تعین کرتی ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی امریکا کی صدی تھی۔ امریکا کے سرکاری دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ 21 ویں صدی بھی امریکا کی صدی ہوگی لیکن امریکا کے باضمیر دانشور امریکا کے ماضی اور حال کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ امریکا کے بے باک دانشور سوسن سونٹیگ نے لکھا ہے کہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے اور سوسن سونٹیگ نے جب گارجین میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یہ بات لکھی تو ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ امریکا کے سفید فاموں نے دو کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کرکے امریکا کو ’’اپنا‘‘ بنایا۔ امریکا جب عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کررہا تھا تو امریکا کے ممتاز دانشور نوم چومسکی کہہ رہے تھے کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی روگ یا بدمعاش ریاست ہے۔
ماضی کے سلسلے میں پاکستانی قوم کا تجربہ بھی کم ہولناک نہیں۔ پاکستان کے
جرنیل جس وقت مشرقی پاکستان کے خلاف سازش کررہے تھے اور اس سے جان چھڑا رہے
تھے تو ان کا خیال تھا کہ اب انہیں مڑ کر مشرقی پاکستان کی جانب دیکھنے کی
ضرورت نہ ہوگی۔ لیکن سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا نفسیاتی
زلزلہ بن گیا۔ 1971ء کے بعد پاکستان میں جب بھی سیاسی حالات خراب ہوئے
لوگوں کو مشرقی پاکستان کا سانحہ یادآگیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیہی
سندھ کے حالات خراب ہوئے تو سیاست دانوں نے کہنا شروع کردیا کہ سندھ کے
حالات مشرقی پاکستان کے حالات کے مماثل ہوگئے ہیں یعنی سندھ کی علیحدگی کا
خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی کے حالات خراب ہوئے تو
لوگ کہنے لگے کہ کراچی مشرقی پاکستان کی راہ پر چل نکلا ہے۔ آج بلوچستان
میں آگ لگی ہوئی ہے تو خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ بلوچستان مشرقی پاکستان
کا منظر پیش کررہا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کہنے کو ایک دن تھامگر وہ تاریخ کا
داروغہ بن کر مسلسل ہمارے تعاقب میں ہے۔
No comments:
Post a Comment