نگران حکومتوں کی تشکیل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ملک میں انتخابی عمل
بھی شروع ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 128، قومی اور 292 صوبائی
اسمبلیوں کی حد بندیاں تبدیل کرنے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے
منظور کردہ کاغذات نامزدگی پر امیدواران اپنی درخواست دے رہے ہیں۔ اس سے
قبل رخصت ہونے والی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ صدر کی منظوری کے
بغیر الیکشن کمیشن کاغذات نامزدگی تبدیل نہیں کرسکتا، لیکن عدالت عظمیٰ نے
الیکشن کمیشن کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ امیدواروں سے تمام تفصیلات مانگ
سکتی ہے۔ انتخابی عمل شروع ہوتے ہی سابق صدر پرویز مشرف بھی واپس آگئے ہیں
اور انہوں نے بھی انتخابات میں کراچی اور چترال سے حصہ لینے کا اعلان کردیا
ہے۔ اسی کے ساتھ عدالت عظمیٰ میں ان کے خلاف مزید نئی درخواستیں بھی داخل
کردی گئی ہیں۔ ان میں سب سے اہم درخواست پیپلز پارٹی کے سابق اور بزرگ
رہنما ڈاکٹر مبشر حسن کی درخواست ہے جس میں شفاف انتخابات اور امیدواروں کی
اہلیت اور نااہلیت کے بارے میں دستور کی دفعہ 62 اور 63 پر عملدرآمد کا
مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر مبشر حسن ایک اور اہم مقدمے کے درخواست
گزاروں میں شامل تھے جو این آر او کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ
کی جانب سے این آر او کے خاتمے کے فیصلے نے پاکستان کی سیاسی حرکیات اور اس
کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ این آر او کے
خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا، لیکن
اس فیصلے نے پاکستان کی روایتی سیاست اور نظام حکومت کی خرابیوں اور تضادات
کو نمایاں کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے نظام
انتخابات کی اصلاحات کی اہمیت کو ہر سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ایک وقت
تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر دفعہ 62 اور 63 کے اطلاق
کی ہنسی اڑائی جاتی تھی لیکن اب یہ انتخابات کا مرکزی موضوع بن گیا ہے۔
2008ء کے انتخابات پر بے شمار اعتراضات کیے گئے لیکن سیاسی اور جمہوری عمل
کے تسلسل کے لیے انتخابات کے نتائج کو قبول کرلیا گیا تھا حالانکہ 45 فیصد
رائے دہندگان جعلی قرار پاچکے ہیںاور عدالت عظمیٰ اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔
جو انتخابات 45 فیصد جعلی ووٹروں کی بنیاد پر ہوں ان کے جواز کی کیا بنیاد
ہے، لیکن اسے قبول کرلیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ پارلیمنٹ میں کئی افراد ایسے
تھے جنہوں نے جعلی ڈگریاں جمع کرائی تھیں۔ اب انتخابات میں حصہ لینے کے لیے
ڈگری کی شرط ختم ہوچکی ہے، لیکن ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی امیدوار ہیں جو
دھوکا دہی اور فریب کاری کے مجرم بن چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان درخواستوں
کی سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ دفعہ 63,62 پر عمل درآمد الیکشن
کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اسی کے ساتھ یہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی ذمہ داری
بھی ہے کہ وہ امیدواران کا انتخاب کرتے ہوئے ایسے ہوگ نامزد کریں جو دفعہ
62 اور 63 پر پورے اترتے ہوں، ابھی تو منظر نامہ یہی نظر آرہا ہے کہ وہی
پرانے چہرے جماعتوں کی تبدیلی کے ساتھ سامنے آئیں گے، ہوسکتا ہے کہ کچھ
افراد علامتی طور پر ماضی کی طرح قربانی کا بکرا بنا دیے جائیں، لیکن طرز
سیاست اور حکمرانی میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہ ہو۔ اس اعتبار سے اس وقت
سارا بوجھ الیکشن کمیشن کے اوپر آگیا ہے، اس کے بعد کچھ معاملات کے فیصلے
عدالت عظمیٰ کرے گی۔ اب کم از کم یہ نہیں ہوسکے گا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی
کے نام پر حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر علمدرآمد نہ کرے، یہ بات واضح
ہے کہ اگر ان انتخابات کے بعد بھی وہی چہرے جماعتیں اور پارٹیاں بدل کر
دوبارہ منتخب ہوگئے تو انتخابات بھی ملک کی قسمت بدلنے میں کوئی کردار ادا
نہیں کرسکیں گے۔ اس اعتبار سے اصل امتحان الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ
پارلیمنٹ میں دیانتدار افراد کے لیے جانچ پڑتال کی جو چھلنی لگاتی ہے وہ
کتنی موثر ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment