Monday, June 20, 2016

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

17 رمضان المبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یوم ِ وفات کی مناسبت سے مختصر تعارف 
نام و نسب:۔ نام عائشہ ،لقب، صدیقہ،ام المو ¿ منین، حمیرا،آپ ﷺ آپؓ کو بنت الصدیق سے یاد فرماتے تھے۔
والدین کا نام ونسب:۔ حضرت عائشہ بنت ابو بکربن ابو قحافہ عثمان بن عامر۔ 
حضرت عائشہؓ بنت ام رمان زینب بن عامر بن عویمر۔
حضرت عائشہؓ باپ کی طرف سے قریشہ تیمیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ تھیں ۔ آٹھویں پشت میں آپ ؓ کا نسب آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے ۔
ولادت:۔ آپ ؓ کی والدہ زینب ام رمان کا پہلا نکاح عبد اللہ یزدی سے ہوا تھا ان کے انتقال کے بعد آپ حضرت ابوبکرؓ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت ابوبکر ؓ سے دو بچے حضرت عبدالرحمٰنؓاور حضرت عائشہؓ پیدا ہوئے۔ آپ ؓ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کی ابتداءمیں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن:۔ حضرت عائشہ ؓ بچپن ہی سے نہایت ذہین وفطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ لڑکپن میں آپ ؓ کھیل کود کی بہت شوقین تھیں۔ محلہ کی لڑکیاں ہر وقت ان کے پاس رہتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ لڑکپن کی ایک ایک بات کو یاد رکھتی تھیں۔ ان کو روایت کرتیں اور ان سے احکام کو مستنبط کرتی تھیں۔ ہجرت کے وقت آپ ؓ کی عمر آٹھ برس تھی لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں بھی آپ ؓ کو یاد تھیں۔
شادی:۔ حضرت سیدہ عائشہ ؓ کا آنحضرت ﷺ سے نکاح ارادہ مشیت الٰہی سے مقدر ہو چکا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کر کوئی چیز آپ ﷺ کے سامنے پیش کر رہا ہے پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا آپ ﷺ کی بیوی ہے۔ آپ ﷺ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا جناب نبی کریم ﷺ سے 6 برس کی عمر میں نکاح ابوبکر ؓ نے پڑھایا اور نو برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی:۔ حضرت عائشہؓ نکاح کے بعد تین برس تک اپنے والدین کے گھر میں رہیں۔ دو برس تین ماہ مکہ میں اور ہجرت کے بعد سات ماہ تک والدین کے گھر میں رہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی اور شادی شوال میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت : ۔ حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصلی زمانہ رخصتی کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے اسی زمانہ میں پڑھنا لکھنا سیکھا ۔ قرآن ناظرہ اسی زمانے میں آپ ؓنے پڑھا ۔ آپ ؓ کا گھر دنیا کے سب سے بڑے معلم شریعت سے آراستہ تھا ۔ یہی درسگاہ اور تعلیم گاہ حضرت عائشہ ؓ کے علم و فضل کا سب سے بڑا ذریعہ تھا ۔
گھریلو زندگی: ۔ مسجد نبوی کے چاروں اطراف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں سے ایک حجرہ حضرت عائشہ ؓکا مسکن تھا ۔یہ حجرہ مسجد کی مشرقی جانب تھا ۔ اس کا ایک دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا ۔ حجرہ کے وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی ۔ دیواریں مٹی کی تھی ۔ چھت کو کھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر سے کمبل ڈال دیا تھا ۔ تاکہ بارش کی زد سے محفوظ رہے ۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا ۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی ، ایک چٹائی ، ایک بستر ، آٹا اور کھجور رکھنے کیلئے دو برتن تھے ۔ پانی کیلئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لیے ایک پیالہ تھا۔ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا ۔
اخلاق و عادات :۔ حضرت عائشہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ سے نہ صرف محبت تھی بلکہ مشغف و عشق تھا ۔ آپ ؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس ﷺ کی محبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کےلئے آئی تھی ۔ اس تربیت گاہ روحانی نے آپؓ کو اخلاق کی اوج ثریا پر پہنچا دیا تھا ۔ آپ ؓ نہایت سنجیدہ ، فیاض ،قانع ، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ آپ ؓ نہایت شجاع اور دلیر تھیں۔راتوں کو تنہا قبرستان چلی جاتی تھیں۔ میدان جنگ میں آکر کھڑی ہوجاتی تھیں۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں میں افراءتفری برپا تھی،اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر بے خطر قلعہ سے نکل کر مسلمانوں کا نقشہ جنگ معائنہ کرتیں۔ جناب نبی کریم ﷺ سے لڑائیوں میں شرکت کی اجازت چاہی مگر نہ ملی۔ جنگ جمل میں وہ جس شان سے فوجوں کو لائیں وہ بھی ان کی طبعی شجاعت کا ثبوت ہے۔
 فضل وکمال:۔ علمی حیثیت سے حضرت عائشہ ؓ کو نہ صرف عام عورتوں پر،نہ صرف امہات المﺅمنین پر،نہ صرف خاص خاص صحابہ پر بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہؓ پر فوقیت حاصل تھی۔
عطاءبن ابی رباح تابعی ؒ فرماتے ہیں حضرت عائشہؓ سب سے زیادہ فقیہ،سب سے زیادہ صاحب علم اور عوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں۔
حضرت عروہ بن زبیرؒ فرماتے ہیں میں نے حلال وحرام،علم وشاعری اور طب میں ام المﺅمنین حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ بعض محدثین نے حضرت عائشہ ؓ کے فضائل میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اپنے مذہب کا ایک حصہ اس گوری عورت سے سیکھو۔
(خذوا شطرہ دینکم عن حمیرائ)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے:۔ایک دن حضرت امیر معاویہؓ نے ایک درباری سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے۔ اس نے کہا امیر المﺅ منین آپؓ ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں،میں قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاﺅ۔ اس نے کہا اگر یہ ہے تو حضرت عائشہ ؓہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ جس کو ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔
وفات:۔ امیر معاویہ ؓکی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہؓ کی زندگی کا اخیر زمانہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر67برس کی تھی۔ 57 ہجری دور میں رمضان کے مہینے میں بیمار پڑیں۔ چند روز علیل رہیں۔ مرض موت میں وصیت کی کہ اس حجرہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ مجھے دفن نہ کرنا مجھے دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنا اور رات کو ہی دفن کر دی جاﺅں صبح کاانتظار نہ کیا جائے۔
 17 رمضان المبارک57ہجری بمطابق13جون678ءنماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ گورنر مدینہ نے آپ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
قاسم بن محمد بن ابی بکر،عبداللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر، عبد اللہ بن عتیق،عروہ بن زبیر اور عبد اللہ بن زبیر بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا۔ حسب وصیت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بعد کچھ متروکات چھوڑے جن میں ایک جنگل تھا، امیر معاویہؓ نے تبرکا اس کو ایک لاکھ درہم میں خریدا ، اس کثیر رقم کوحضرت اسماءؓ 
نے عزیزوں میں تقسیم کردیا۔


No comments:

Post a Comment