”ذاکر نائیک آتنک دوت ہے، آتنک وادیوں کا گرو ہے، آتنکی بنانے کا چلتا پھرتا فیکٹری ہے ، وہ نفرت کے بیج بوتا ہے، نوجوانوں کو اکساتا ہے، وہ زہر پھیلاتا ہے، وہ جاہل ہے، وہ نوجوانوں کو آتنک وادی بننے کے لئے کہتا ہے، اسے فوراً گرفتار کیا جانا چاہئے“ یہ سب وہ باتیں ہیں جو عید کے روز ’دیش کے سب سے تیزنیوز چینل‘ آج تک کے ہلّہ بول پروگرام میں انجنا اوم کشیپ نے کہیں ۔یہ ہلہ بول پروگرام ایک مباحثے پر مشتمل تھا اور محترمہ انجنا اس پروگرام کی میزبان تھیں۔ میزبان ہونے کی بناءپر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ مباحثے کو تعمیری رخ دیتے ہوئے اس میں توازن رکھنے کی کوشش کرتیں اور دلائل کی بنیاد پر کوئی منطقی نتیجہ سامنے لاتیں ،کیونکہ یہی ایماندارانہ صحافت کا تقاضا ہے، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ نہ مباحثے کو تعمیری رخ دیا گیا ، نہ دلائل کی بنیاد پر شرکاءکے دعووں کو پرکھا گیا اور نہ ہی کوئی معیاری بات سامنے لائی گئی۔ پورا پروگرام ذاکر نائیک کو مارو ، پکڑو، گرفتار کرو کی چیخ وپکار اور محترمہ انجنا اوم کشیپ کی ان چیخ وپکار کرنے والوں کی کھلی حمایت سے عبارت تھا۔ مذکورہ پروگرام یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ ملک کا فوجداری قانون بھلے ہی ثبوت وشواہ کا متقاضی ہو ،مگر ہماری جمہوریت کے چوتھے ستون کو اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ یہ پروگرام نشر ہونے کے بعد سے لے کر تادمِ تحریر ذاکر نائیک پرنہ کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی جانچ ایجنسی نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے کہ ذاکر نائیک کسی دہشت گردانہ واردات میں ملوث ہےں۔ لیکن ہماری میڈیا نے تفتیشی ایجنسیوں کو مات دیتے ہوئے اور عدالتی کارروائیوں کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے ذاکر نائیک کو وہ سب کچھ ثابت کردیا ہے جو کسی کی گردن زدنی کے لئے کافی ہے۔
ڈھاکہ بم دھماکہ کے بعد میڈیا میں ذاکر نائک کا نام آنے اور مرکزی وریاستی حکومتوں کی جانب سے ان کی تفتیش کا حکم دیئے جانے کے بعدمیں ممبئی کے ڈونگری چارنل پر واقع ذاکر نائیک کے دفتر گیا ،جہاں پولیس کے چند اہلکاروں کی موجودگی اس بات کی شہادت تھی آئی آر ایف کی تفتیش شروع ہوچکی ہے ۔ میں اس سے قبل بھی آئی آر ایف جاچکاہوں ،مگر مجھے وہاں مختلف مذاہب پر کتابیںتو ضرور ملیںلیکن کوئی ایسا ثبوت نہیں ملاجو اس کے تار کسی طور دہشت گردی سے جوڑتے ہوں۔ آج تک کے مذکورہ بالا پروگرام میں اینکر کی جانب سے بار بار یہ جملہ دہرایا جاتا رہا کہ ذاکر نائیک کے ویب سائیٹ پر جماعت الدعوة کا لنک موجود ہے، میں نے فوری طور پر اس کی تصدیق کرنی چاہی مگر مجھے یہاں بھی مایوسی ہوئی۔ دوسری جانب ڈھاکہ میں ہوئے بم دھماکہ کے بعد جس بنگلہ اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ دھماکے میں ملوث دہشت گرد ذاکر نائیک سے متاثر یا ان کے فالور تھے، اس نے اپنے مذکورہ خبر سے برا ¿ت کا اعلان کردیا ہے۔اب ایسے میں ذاکر نائیک کے خلاف صرف مرکزی وریاستی حکومتوں کی تفتیش ہی باقی بچتی ہے ،جس کے نتائج ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارا قومی میڈیا بالکل اسی طرح نائیک کو دہشت گردی کا پرموٹر قرار دینے کی کوشش کررہا ہے جس طرح ہر دہشت گردانہ واردات کے پسِ پشت مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جن دوبنیادوں پر ذاکر نائیک کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش ہورہی ہے اگر ان کا جائزہ لیا جائے توان دونوں کا ربط کسی طور پر ایک دوسرے سے نہیں ملتا ہے۔پہلی بنیاد یہ بتائی جارہی ہے کہ ڈھاکہ بم دھماکے میں ملوث ایک دہشت گرد نے ذاکر نائیک کے کسی Thoughts کو فیس بک پر شیئر کیا تھا۔ یہ خبر بنگلہ دیش کے دی ڈیلی اسٹار نامی اخبار میں شائع ہوئی تھی اور جسے بغیر کسی تفتیش کے ہمارے قومی میڈیا نے اچک لیا اور ذاکر نائیک کوآتنک دوت قرار دیدیا۔ اگر اس کو کلیہ قرار دیدیا جائے تو غالباً فیس بک کا ہر یوزر کسی نہ کسی معاملے میں مجرم قرار پائے گا، کیونکہ ہر یوزر کسی نہ کسی سے متاثر ضرور ہوتا ہے اور وہ جس سے متاثر ہوتا ہے اس کے کسی پوسٹ یا کسی قول کو وہ اپنے حلقے میں شیئر کرتا ہے اور جس کے پوسٹ شیئر یا جسے فالو کیا جارہا ہے ، وہ اس سے بات سے قطعی لاعلم ہوتا ہے کہ اس کا فالور کون ہے۔دوسری بات اسامہ بن لادن کے معاملے میں کہی جارہی ہے کہ ذاکر نائیک ہر مسلمان کو اسامہ کی طرح بننے کی بات کہتے ہیں۔میں نے یہ ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میں وہ امریکہ کی دہشت گردی کا تذکرہ کرنے کے دوران اسامہ بن لادن کی اس معاملے میں ستائش کرتے ہیںکہ وہ امریکہ کو دہشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ لیکن اسی ویڈیو میں وہ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اسامہ اگر حق پر ہوگا تو جنت میں جائے گا اور اگر حق پر نہیں ہوگا تو جہنم میں، نیزآگے وہ واللہ اعلم بھی کہتے ہیں۔یہ ویڈیو اس وقت کا ہے جب جب اسامہ بن لادن زندہ تھا اورایک سوال کے جواب میںذاکر نائیک نے یہ بات کہی تھی ۔اس کو بھی دہشت گردی کو پرموٹ کرنے کے زمرے میں نہیں لیا جاسکتا ۔اگر ایسا ہوتا توجولوگ حافظ سعید سے پاکستان جاکر ملاقات کرتے ہیں اور بم دھماکوں کے الزام میں قید سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر یا سوامی اسیمانند کی حمایت کرتے ہیںاور ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں، وہ بھی صریح طور پر دہشت گردی کے پرموٹر قرار پائیں گے۔یوںبھی ملک میں دہشت گردی کا سب سے بڑا فائدہ اسی ٹولے کا ہوا ہے جو دہشت گردی کو ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتا ہے۔
میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سخت مخالف رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ ممبئی کے بیشترقارئین اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ چند سال قبل جب سائین کے سومیا گراو ¿نڈ میں ذاکر نائیک کا اجلاس جاری تھا، اس موقع پر چند واقعات کی بناءپرذاکر نائیک اور ان کے طریقہ ¿ کار پر شدید تنقید کی تھی۔ لیکن میری یہ مخالفت حقائق کی بنیاد پر تھینہ کہ مسلکی بنیاد پر۔لیکن اس مخالفت کے باوجود میںان لوگوں کا طرفدار ہرگز نہیں ہوں جو مذکورہ بالا معاملے میں ذاکر نائیک کی مخالفت کررہے ہیں۔جو مسلمان آج ذاکر نائیک کی مخالفت کررہے ہیںانہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر آج ذاکر نائیک کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے تو کل انہیں بھی نشانے پر لیا جاسکتا ہے۔چاہے وہ کسی بھی مسلک سے وابستہ ہوں۔ کیونکہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے منصوبے پر نہایت تیزی سے عمل جاری ہے او
ر یہ منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک یہاں کی سب سے بڑی اقلیت یعنی کہ مسلمان ان کی راہ میں حائل رہے گی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی کمر توڑ دی جائے۔اتفاق سے یہ منصوبہ بنانے اور اس پرعمل کرنے والے تمام مسلمانوں کو ایک ہی امت کا فرد سمجھتے ہیں چاہے وہ جس فرقے یا مسلک کا پیروکار ہو۔اس لئے ہمیں اس نازک موقع پرملی اتحاد کا ثبوت دینا چاہئے نہ کہ مسلکی اختلاف کا۔
اسی کے ساتھ میں ان کے خلاف ہورہے میڈیا ٹرائل کی بھی سخت مخالف ہوں۔ ذاکر نائیک کی تفتیش جاری ہے، اگر وہ کسی معاملے میں مجرم ہےں تو انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہئے۔ کیونکہ ملک میں نفرت پھیلانے والے اور خاص طور سے دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک اور قوم دونوں کے دشمن ہیں۔لیکن کسی تفتیش سے قبل انہیں ہی کیا کسی کو بھی مجرم قرار دینے کا حق نہ حکومت ہے اور ہی میڈیا کو۔ اسی کے ساتھ انصاف کا یہ بھی تقاضا ہے کہ پورے ملک میں اپنی زہر افشانی سے نفرت اور دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے سنگھی لیڈران کی بھی جانچ ہونی چاہئے، چاہے وہ گری راج سنگھ ہوں، سادھوی پراچی ہوں، یوگی ادتیہ ناتھ ہوں، پروین توگاڑیا ہوں یا پھر امیت شاہ ہوں۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آج پورے ملک میں جس طرح ذاکر نائیک کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور جس طرح بغیر کسی تفتیش کے اس کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے وہ صرف اور صرف اس کے مسلمان ہونے کی بنیاد پر ہورہی ہے۔یہ صرف مسلم دشمنی نہیں بلکہ صریح ظلم اور ناانصافی بھی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارا قومی میڈیا تفتیشی رپورٹ آنے سے قبل اسے آتنک وادیوں کا گرو یا آتنک دوت نہیں قرار دیتی۔ میڈیا کے رویے پر ایک عام آدمی بھی اس منصوبے کو بھانپ سکتا ہے کہ یہ ذاکر نائیک کے حوالے سے پورے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش ہے اور مرکزی حکومت کی پینتالیس ہزار کروڑ روزپئے کی بدعنوانی اور ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ایکحربہ ہے
اعظم شہاب


No comments:
Post a Comment