Monday, July 25, 2016

ترکی میں امریکی ساختہ بغاوت روس نے ناکام بنائی


  امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر نے ترکی میں ایک الگ پیغام محفوظ رکھا تھا۔
        مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال است
      (ہم کس خیال میں ہیں اور آسمان کیا سوچ رہا ہے۔)
  پاکستان میں طرح طرح کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جسے ترکی کی حکومت سے اس لیے کو ئی محبت نہیں کیونکہ وہ اسلامی شناخت کی حامل جماعت کی حکومت ہے۔ پھر چاہے وہ منتخب ہی کیوں نہ ہو؟ مگر وہ نوازشریف کی حکومت سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں بغاوت کی ناکامی پر جمہوریت کی کامیابی کے گیت گانے پڑے۔ اُن کے الفاظ میں مگر یہ احتیاط پنہاں تھی کہ مبادا جمہوریت کا ڈھول پیٹتے پیٹتے کہیں اسلامی سُر نہ نکل پڑیں۔ ایک دوسرا طبقہ وہ بھی تھا جو نوازشریف حکومت کا شدید مخالف ہے اور وہ زبان سے اُس کے خاتمے کے غیر جمہوری اُسلوب کو اختیار کرنے کا اعلان تو کرنے کو تیار نہیں مگر دل میں اس خواہش کو پال پوس کر بیٹھا ہے۔ اس ضمن میں اُن کے دلائل نواز حکومت کے خلاف کالموں کی زینت بنتے رہتے ہیں جس میں بنیادی حقوق کا ذرا سا احساس اور آئینی تقاضوں کا کوئی ادنیٰ گمان بھی نہیں گزرتا۔ مگر اُن میں اچانک ترکی کے اندر اردوان حکومت کی طرف سے ناکام بغاوت کے بعد باغیوں کے حامیوں کے لیے بنیادی حقوق کا خیال اُٹھا ہے۔یہ طبقات مغربی ذرائع ابلاغ اور گولن کے متاثرہ افراد کے زیراثر ذرائع ابلاغ کے پیش کردہ غلط اعدادوشمار کی گوٹاکناری کرکے باغیوں کے حق میں ایک فضا استوار کرنے میں لگے ہیں، اور اردوان کو ایک ظالمانہ ( اور وہ بھی بنگلہ دیشی حکومت کی مانند )اور جابرانہ طرزِ حکومت شعار کرنے پر مطعون کررہے ہیں۔شاہ جی کب یاد آئے! حرم پاک میں خون بہانا جائز نہیں۔ مگر ایک واقعہ پیش آیا، ایک بدو نے سلطان عبدالعزیز ابن سعود کو بیت اللہ میں خنجر مار کر قتل کرنا چاہا۔محافظ دستے نے آڑے آکر جان بچائی۔ برصغیر میں واقعے کا چرچا ہواتو لوگوں نے قرآن پاک سے نور پانے والے برصغیر کے بے مثل خطیب عطاءاللہ شاہ بخاری کو شرمندہ کرنا چاہا۔
 شاہ جی!کیا حرم میں گولی چلانا جائز ہے؟
 شاہ جی نے مختصر جواب دیا: نہیں بھائی خنجر چلانا جائز ہے۔
  برصغیر کی یہ ذہنیت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ عام آدمی تو دور کی بات ہے ، انتہائی قابل قدر دانشور بھی واقعات کو پورے بہاو ¿ اور تاریخ کے جدلیاتی جبر میں دیکھنے کے بجائے بس ایک جزوی حصے کو لے کر مکمل نتائج پیدا کرنے کی علت میں مبتلا ہیں۔ان مختلف ذہنوں اور طبقوں کی بھانت بھانت کی بولیوںکو سنا جائے تو لگتا ہے کہ ترکی میں خود اُس بغاوت کو سمجھنے والے اتنے موجود نہیں جتنے یہ علامہ فہامہ ہیں۔ چند دن ترکی میں گزارنے والے اور بغاوت کے روح رواں کے پاکستانی حامیوں کے ساتھ سفر کی لذتیں کشید کرنے والے اب یہ سمجھا رہے ہیں کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی حقیقت کیا تھی اور کیانہیں اور فتح اللہ گولن کودراصل سمجھا غلط گیا۔ ان قابل رحم طبقات کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہوئے ترکی کو پاکستان کے تناظر سے مکمل نکال کر اُس کے اپنے داخلی حالات سے جڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
  اگر کسی کو شک ہے تو وہ دور کرلیں ! ترکی بغاوت مکمل طور پر امریکا کی حمایت یافتہ تھی۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ بغاوت کے فوری بعدرجب طیب اردوان کے پاس مختلف شعبوں کے لوگوں کی فہرستیں اور معلومات کیسے میسر آگئیں۔ اس قدر قلیل مدت میں تو خفیہ اداروں سے بھی معلومات اکٹھی نہیں کی جاسکتیں۔ اس طرز فکر کے حامی دراصل ترکی کے حالات کو بغاوت کے بعد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ وہ بغاوت سے پہلے کے حالات سے خود کو مربوط نہیں کر پارہے۔ یعنی اُنہوں نے حرم میں گولی چلنے کا قصہ یاد رکھا ہے، قبل ازیں خنجر چلنے کا واقعہ طاقِ نسیاں پر دھر دیاہے۔ کیوں نہ شوقِ خنجر آزمائی کی پوری حقیقت کو جان لیں، جسے دانستہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ 
  ترکی میں فوجی بغاوت دراصل جولائی میں نہیں بلکہ ماہِ اگست میں ہونی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب یونانی حکومت ایک نیے بحران میں داخل ہونے والی تھی۔ ترکی میں بغاوت اور یونان میں بحران کا مقصد پورے بلقان کو ایک نیے خطرناک دور کی طرف دھکیلنا تھا۔ جس کے تحت یہاں امریکا کی حاشیہ بردار حکومتوں کو قائم کرکے اس پورے خطے کو امریکا کے زیر قابو یورپ کی حفاظت کے لیے روس کے خلاف ایک آہنی پردے میں تبدیل کرنا تھا۔(یہاں ایک بات حاشیہ خیال میں محفوظ رکھنے کے لیے ہے کہ روس اور امریکا میں سرد جنگ ہی شروع نہیں ہو چکی۔ بلکہ مغربی ماہرین کے مطابق ایک تیسری عالمگیر جنگ بھی جاری ہے۔ جس کے مظاہر گزشتہ دو عالمگیر جنگوں سے ذرا مختلف ہیں۔)الغرض ترکی میں بغاوت کوئی ہوائی منصوبہ نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پوری طرح روس، ایران اور شام واقف تھے۔ 
  روس نے اس بغاوت کے پس پردہ محرکات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ترکی سے حالیہ دنوں میں ہونے والی کشیدگی کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اور نہایت خاموشی سے اپنا ایک نمائندہ ”Aleksandar Dugin“ کو ترکی روانہ کیا۔ پیوٹن کے اس قابل اعتبار نمائندے کے ترکی میں خفیہ دورے سے صرف تہران اور دمشق ہی بے خبر نہیں تھے بلکہ خود ماسکو بھی بے خبر تھا۔الیکسنڈر ڈیوگِن کے پاس ترک صدر کو آگاہ کرنے کے لیے بغاوت کا منصوبہ ہی نہیں تھا بلکہ اُن باغیوں کی فہرست بھی تھی جو بغاوت کی حمایت کررہے تھے۔ دراصل امریکا کو یہ بغاوت اس لئے ایک ماہ قبل بعجلت شروع کرانی پڑی ، کیونکہ روس کی طرف سے مہیا کردہ فہرست کو جب ترک حکومت نے جانچنا شروع کیا تو حقائق نے تصدیق کی کہ واقعتا ترکی میں بغاوت کا ایک امریکی ساختہ منصوبہ زیر گردش ہے۔ ترکی کی طرف سے بغاوت کے کھلاڑیوں کو تیزی سے دریافت کرنے کے عمل نے اس بغاوت کو ایک ماہ قبل جولائی میں ہی انجام دینے پر امریکا اور اُس کے حامیوں کو مجبور کردیا۔ اردوان ہی نہیں شاید پیوٹن بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ قبل از وقت باغیوں کو کچلے جانے کے خوف سے یہ منصوبہ ایک ماہ قبل بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ 
   قبل ازوقت بغاوت کی پہلی علامت ہی یہ تھی کہ سی این این کی نمائندہ کرسٹینا امان پور بغاوت سے دو دن قبل ترکی پہنچ گئی تھیں ۔اور اُس نے انقرہ اور استنبول میں آکر خود غیر معمولی انتظامات قائم کیے تھے، جو کسی بھی ذی ہوش شخص کو چونکا سکتے تھے۔ یہاں ایک لمحے کو ٹہر کر اپنے ذہنوں میں سی این این اور امریکی حکومت کے مابین اُس رشتے کو ٹٹول لیجئے جو پوری دنیا میں امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ ادارہ پینٹاگون کے مقاصد سے خود کو وابستہ رکھ کر سرانجام دیتا ہے۔
  عراق پر پہلے امریکی حملے نے امریکا اور سی این این کے اس رشتے کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا۔ ترکی میں قبل ازوقت بغاوت کے لیے کرسٹینا امان پور دودن قبل ترکی بھیجی گئی تھیں۔ یہی ماجرا عراق جنگ میں بھی پیش آیا تھا۔ عراق پر فضائی بمباری سے تین دن قبل سی این این کے تل ابیب کے لیے نامہ نگار کو بغداد بھیج دیا گیا تھا، جہاں پہلے سے دو نامہ نگار جان ہولیمن اور برنارڈ شا اُن کا انتظار کررہے تھے۔ سی این این نے بغداد پر 17جنوری 1991 کے حملوں کی وقائع نگاری ان تینوں نامہ نگاروں کی مدد سے صحافیانہ انداز میں نہیں بلکہ عسکری مقاصد کے تحت پینٹاگون کی مرضی سے کی۔ جس کااعتراف امریکی صدر بش نے اس طرح کیا تھا کہ ہمیں سی آئی اے سے زیادہ بہتر معلومات سی این این سے مل رہی تھیں۔سی آئی اے نے خود یہ تسلیم کیا تھا کہ سی این این اور پینٹاگون کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور تعاون تھا۔یہاں تک کہ امریکی حکومت نے جنگ کے بعد جان ہولیمن اور برنارڈ شا کو پینٹاگون میں اعلیٰ مناصب بھی دے دیئے۔ کرسٹینا امان پور بھی امریکا کے اسی نوع کے مقاصد کے تحت دودن قبل ترکی میں بھیجی گئی تھیں۔ 
  ترک بغاوت کے اسباب اور محرکات کو تاریخی تناظر میں جانچے اور پرکھے بغیر اور بغاوت سے قبل ترکی میں جو پس پردہ حالات رونما ہوئے ،اُسے پوری طرح تولے اور ٹٹولے بغیر جو تجزیہ کار اور قلم کار ترکی کی حکومت کے بعدازبغاوت اقدامات پر تبصرے کررہے ہیں ، وہ شاید معتدل تو کہلالیں مگر تیزفہم اور اور حقیقت پسند کبھی نہ کہلا سکیں گے۔ ترکی میں قبل ازبغاوت حالات کے کچھ رخ ابھی باقی ہیں جسے اگلی تحریر میں زیر بحث لائیں گے۔ 

No comments:

Post a Comment