Monday, August 1, 2016

لیاقت علی خان کے قاتل ملک کا اعتراف اورہمارے حکمرانوں کی خاموشی

یوم آزادی کا مہینہ اگست شروع ہوتے ہی پاکستانیوں میں جوش و خروش پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے ۔قیام پاکستان کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل کسے یاد نہیں آتا ہوگا۔ جو افراد اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے ۔انہیں بعدمیں اپنے عظیم لی

ڈر کے قتل کا علم ہوا, ،وہ بھی اس واقعہ کو سن کر افسوس کرتے ہیں ۔ہم سب کے لیے یہ بہت دردناک اور نہ بھلائے جانے والاقصہ ہے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل کے واقعہ کو ممتاز رائٹرڈاکٹر شبیر احمد کی چھ سال پرانی یعنی 27ستمبر 2010کی ویڈیو جو ان دنوں سوشل میڈیا پر عام ہے، میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔اس ویڈیو کو تیار کرنے اور لیاقت علی خان کے واقعہ کے بارے میں قوم کو آگاہ کرنے کے لیے ہم سب کو ڈاکٹر شبیر احمد کا ہمیشہ شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ ڈاکٹر شبیر نے جو انکشافات کیے ہیں وہ امریکی وزرات خارجہ کی جانب سے ستمبر 2010میں ہی Decalssify)) غیر مخفی کی جانے والی دستاویزات کی بنیاد پر ہیں۔ڈاکٹر شبیران دنوں امریکا کی ریاست فلوریڈا میں مقیم ہیں۔وہ بھارت کے شہر دہلی میں اس روز پیدا ہوئے جب پاکستان کو آزادی ملی ۔ پاکستان آزاد ہونے کی خوشی کو ان کے والدین نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی سے زیادہ محسوس کیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پیدائش کے دوسرے دن ہی ان کے والدین ڈاکٹر شبیر اور دیگر بچوں کو لیکر پاکستان کے شہر کراچی پہنچ گئے ۔ ڈاکٹر شبیر میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ان کی وجہ شہرت بھی ان کی تحقیقی کتابیں ہی ہیں۔انہوں نے لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں اپنی زبانی جو انکشافات کیے ہیں اس کی ویڈیو یوٹیوب پر اس لنک ( https://www.youtube.com/watch?v=wupnD4nhUH0) پر موجود ہیں ۔
”بادنما “ میں اس موضوع پر لکھنے کا مقصد یوم آزادی کے ماہ میں قوم کو یہ یاددلانا ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکا کی سازش “ چند سال پرانی نہیں بلکہ یہ قیام پاکستان کے محض چار سال بعد ہی شروع کردی گئی تھی ۔ اس وقت جب امریکا کو اپنی سازشوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے کوئی قاتل بھی ملنا مشکل تھا مگرپھر بھی امریکا نے اپنے دوست ممالک کی مدد سے یہ کام کرنا شروع کردیے تھے۔
پاکستان میں اہم شخصیات کے قتل کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ان واقعات کے سراغ نہیں لگ پاتے جس میں امریکا براہ راست یا بذریعہ ملوث ہوتا ہے۔ ہم شبہ کرسکتے ہیں کہ امریکا نے لیاقت علی خان کے بعد جنرل ضیاءالحق،اور پھر بے نظیر بھٹو کو بھی اپنے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بننے پر سازش کے تحت قتل کراچکا ہے ۔ بلکہ شبہ تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ملک کا پہلا آئین دینے والے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی ایک سازش تھی ، شائد اس سازش کا پردہ فاش ہونے سے بچنے کے لیے جنرل ضیاءالحق کو 17اگست 1988 کوطیارے کے حادثے کے ذریعے شہید کرادیا گیا ہو۔ اس توقع کا بھی اظہار کیا جاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کے واقعہ کی طرح بھٹو کی پھانسی ، ضیاءالحق اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے اپنے گھناﺅنے اسکرپٹڈکے راز بھی 49 سال بعد افشاءکردیے جائیں ۔فی الحال بات شہید ملت لیاقت علی خان کی کرتے ہیں۔
یہ 16 اکتوبر1951 کا دن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ موسم سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ یہ بھی اتفاق تھا یا سازش کا حصہ کہ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنماو ¿ں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح 
دستے نے انہیں سلامی پیش کی تھی۔ جلسہ گاہ میں چالیس پچاس ہزار لوگ ہونگے ۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔وزیر اعظم نے ابھی ‘برادران ملت’ کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وزیرِ اعظم گر پڑے۔ پھر تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا ‘دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔’ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ ‘گولی کس نے چلائی؟ ماردواسے!’۔9 سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے۔ اگلے پندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اسکا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔لیاقت علی خان کو شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لایا گیا ۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے تھے ۔
ملک کے پہلے وزیراعظم کا یہ قتل دراصل امریکا کی جانب سے ایک پیغام ہی ہوگا کہ ” کوئی اس کی بات نہیں مانے گا تو اس کا حشر ایسا ہی کیا جائے گا “۔لگتا ہے کہ امریکا کا یہ خوف اب تک ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں پر غالب ہے ، تب ہی تو یہ امریکی نوازشخصیات سے ڈرتے ہیں یا پھر ان کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں حالانکہ وہ ملک میں کچھ بھی کراتے رہیںاور قوم کے ساتھ کچھ بھی کرتے رہیں۔
ڈاکٹر شبیر امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ” امریکا ، ایران کے تیل کے چشموں پر نظر رکھتا تھا ، وہ جانتا تھا کہ پاکستان اور ایران کی دوستی بہت زبردست ہے ۔ ان دنوں یعنی 1950 میں افغانستان ، پاکستان کا دشمن تھا اور واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔اس صورتحال میں امریکا کے صدر ہیلی ٹرومن نے لیاقت علی خان کو فون کیا اور کہا کہ اپنے ایرانی حکمرانوںسے کہہ کر تیل کے چشموں کا ٹھیکا اور انتظام کسی اور ملک کے بجائے امریکا کو دلو ادیں۔جواب میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ”میں اپنی دوستی کا ناجائز فائدہ اٹھاکر ان کے داخلی اور خارجی معاملات میں دخل نہیں دے سکتا “۔ اس دو ٹوک موقف پر امریکی صدر نے لیاقت علی خان کو دھمکی دی ، جس کے جواب میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں نہ تو قابل خرید ہوں اور نہ ہی کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں ۔یہ کہکر وزیراعظم نے فون بند کیا اور ملک میں کھڑے تمام امریکی طیاروں کو حکم دیا کہ وہ 24 گھنٹے کے اندراپنے ملک واپس چلے جائیں ۔لیاقت علی خان کے جواب کے بعد واشنگٹن میں ایک ہنگامی میٹنگ کی جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ نوابزادہ لیاقت ، ہمارے کسی کام کا آدمی نہیں ہے ، اس لیے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ،۔اس فیصلے کے ساتھ امریکا نے پاکستان میں کرائے کے قاتل کی تلاش شروع کردی ۔ اس زمانے میں امریکا جیسے ملک کو پاکستان میں کوئی کرائے کا قاتل نہیں ملا کرتا تھا۔ جس پر امریکا نے اپنے سفارتخانے کے ذریعے حکم دیا کہ اس کام کے لیے قاتل افغانستان میں تلاش کیا جائے ۔کابل کے امریکی سفارتخانے نے یہ کام کیا اور افعانستان کے شاہ ظاہر شاہ کو پیشکش کی کہ اگر تم لیاقت علی خان کے قتل پر عمل کرادو توامریکا صوبہ پختونستان کو آزاد کرادے گا ۔ اس پیشکش پر افغانستان فوراََتیار ہوگیا اور لیاقت علی خان کے قتل کے لیے افغانستان نے تین آدمی امریکا کو دیے جن میں ایک سید اکبر تھا جسے گولی چلانی تھی اس کے علاوہ دو اور آدمی تھے جنہیں سازش کے تحت سید اکبر کو فوری ختم کردینا تھا تاکہ کوئی نشان باقی نہ رہے اور یہ سازش دب کر رہ جائے ۔ سازش کے منصوبے کے تحت تینوں افراد 15 اکتوبر کو راولپنڈی پہنچے اور دوسرے روز یعنی 16 اکتوبر کو یہ تینوں راولپنڈی میں واقع کمپنی باغ میں پہنچ گئے ۔ سید اکبر نے لمبے کوٹ میں اپنی دو نالی رائفل چھپائی ہوئی تھی ۔ لیاقت علی خان نے اسٹج پر آکر جیسے ہی کہا کہ ” برادران ملت “ سید اکبر نے رائفل نکال کر وزیراعظم لیاقت پر گولی چلادی ، گولیاں لگتے ہی لیاقت علی خان اسٹیج پر یہ کہتے ہوئے گرے کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے ۔یہی ان کے آخری الفاظ تھے ۔ واقعے بعد لیاقت علی خان کو اسپتال لے جایا گیا اور ان کے جسم سے گولیاں بھی نکال لی گئیں ۔یہ دونوں گولیاں وہی تھیں جو امریکی فوج کے افسران کو دی جاتی تھیں جبکہ ان گولیوں کے کارٹیج پر امریکی مہر واضح تھی۔ ادھر موقعہ پر اسکرپٹ کے تحت سید اکبر کو اس کے ہی دوساتھی گولیاں مارکر ختم کردیتے ہیں لیکن مشتعل ہجوم ان دونوں افراد کو بھی زندہ نہیں چھوڑتا ۔ جس کے باعث اس واقعہ کے تمام شواہد ضائع ہوجاتے ہیں اور ملزمان کا سراغ نہیں لگتا۔اس وقت تک جب تک امریکا خود رپورٹ افشاءنہیں کرتا۔
یہ تو وہ باتیں ہیں جو ڈاکٹر شبیر احمد نے اپنی ویڈیو میں بیان کی ۔لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا چھ سال قبل امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی اس اعتراف جرم کی رپورٹ کے بعد بھی پاکستان کے حکمران اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ احتجاج کرتے ، اس واقع پر امریکا کے خلاف مقدمہ درج کراتے ؟ شائد نہیں کیوں کہ اس وقت تو امریکا سے دوستی کا مثالی سلسلہ چل رہا تھا اس وقت جنرل مشرف صدر تھے جو امریکا کو مطلوب افراد پوری وفاداری کے ساتھ اس کے حوالے کرتے اور بدلے میں ڈالر لیا کرتے تھے ۔مگر کیا اب بھی ہم اپنے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کا مقدمہ اپنے ملک اور عالمی عدالت میں نہیں چلاسکتے ؟ اب تو ڈرون حملے پر بھی پشاور میں امریکا کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاچکا ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف قوم فی الحال ، لیاقت علی خان کے قتل کے ملزمان کو بھی سامنے لائے جانے کی صرف آپ سے ہی توقع رکھتی ہے ۔” قدم اٹھائیں راحیل شریف قوم آپ کے ساتھ ہے “۔

No comments:

Post a Comment