۲ اپریل ۹۴۸۱ءسے ۴اگست ۸۲۹۱ءتقریباً ۹۷ سال کی عمر پا نے والے برصغیر کے نا مو ر قا نون دان جسٹس سید امیر علی اکا برین مسلمانا ن ہند میں شامل وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی عمر کا خاصہ عرصہ ہندوستان سے باہر انگلستان میں گزارا لیکن مسلمانان ہند کے لیے ان کی خد مات کسی بھی طرح دیگر اکا برین سے کم نہیں۔ ان کی معرکة الا را ءانگریزی زبان کی تصنیف (Spirit of Islam) جس کا اردو ترجمہ ”روح اسلام“ کے نام سے کیا جا چکا ہے ، آج بھی تفہیم دین اسلام کے حوالے سے مستند ، مقتد ر اور معتبرکتب میں شما ر ہو تی ہے۔ ہمارے ملک میں سول سروس کے امتحانا ت کے لیے ”اسپرٹ آف اسلام “ اور ’A Short History of Sarcens" (تاریخ خلفائے راشدین) نصا ب کا لا زمی حصہ قرار دی گئی ہیں۔سید امیر علی نے ابتدائی تعلیم مغربی بنگال (ہگلی) میں حاصل کی۔ ۷۶۸۱ءمیں اسی کالج سے ایم اے کیا۔ اپنی شاندار تعلیمی کارکر دگی پر وظیفہ پایا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان چلے گئے۔ جنوری ۳۷۸۱ءمیں انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ انگلستان میں قیام کے دوران ۱۷۸۱ءمیں ”نیشنل انڈین ایسو سی ایشن “ قائم کی جو بعد میں سینٹرل نیشل محمڈ ن ایسوسی ایشن کے نام سے ہندوسان بھر میں منظم ہو ئی۔ تقریباً ۵۲ سال اس تنظیم کے جنرل سیکریٹری رہے۔ بیر سٹری کی سندکے ساتھ چار سال بعد واپس آکر بنگال ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ اس وقت وکالت کے پیشے سے وابستہ زیا دہ تر انگریزتھے۔ صرف چند ایک ہی ہندو وکیل تھے ۔ ان حالا ت میں کسی مسلمان وکیل کا عدالت میں کام کر نا ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن محض چند ہی برسوں میں انہوں نے اپنی خد اداد صلاحتیوں کا لو ہا منواتے ہوئے قانون کے ایک ماہر کے طو رپر شہر ت حاصل کر لی۔ ۷۷۸۱ءمیں انہی کا میا بیوں کی بنیا د پر انہیں ”پریذ یڈنسی مجسٹریٹ“ مقرر کر دیا گیا ۔ اپنی پیشہ وار نہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جسٹس سید امیر علی نے مسلمانان ہند کی سیا سی بید اری اور انہیں ان کے حقو ق سے آگہی فراہم کر نے کے لیے اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا اور دیگرحوالوں سے بھی وہ رہنمائی کا فریضہ سنبھالے ہوئے تھے۔ اپنی مصروفیا ت کے باعث۰۸۸۱ءمیں انہوں نے اپنی ملا زمت سے استعفیٰ دے دیا۔اس سے قبل ۷۵۸۱ءکی جدودجہد آزادی کے بعد سر سید احمد خان کی بھر پو ر معاونت کی اور مسلم ایجو کشنل کا نفرنس کی علمی، تعلیمی اور سیا سی سر گرمیوں میں شراکت کے ساتھ ساتھ سینٹرل نیشنل محمڈ ن ایسوسی کے ذریعے بھی اپنی خد ما ت کا سلسلہ جاری رکھا تاہم ۰۹۸۱ءمیں وہ دوبارہ ملا زمت میں آ گئے اور بنگال ہائی کورٹ کے جج مقرر ہو گئے چنا نچہ رہنما ئی کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔اپریل ۴۰۹۱ءمیں انہوں نے بنگالی ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور پھر مستقل طور پر انگلستان میں رہا ئش اختیا ر کر لی۔مسلم لیگ کے با قاعدہ قیام سے قبل جولائی ۶۰۹۱ءمیں جسٹس امر علی نے تجو یز کیا تھا کہ ‘’جب تک مسلمانوں کی کوئی منظم اور اپنی جماعت قائم نہیں ہوجاتی اس وقت تک وہ مسلمانوں کی رائے عامہ کو صحیح سمت کی جا نب نہ تو متوجہ کر سکتی ہے اور نہ اس سے کوئی مو ثر مقصد ہی حاصل کر سکتی ہے۔ اس لیے کسی مسلمہ اور منظم جماعت کی ضرورت نا گز یر ہے۔ ”دسمبر ۶۰۹۱ءمیں جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو جسٹس امیر علی نے مسلم لیگ لند ن شاخ قائم کر نے اہم ترین کام انجام دیا اور غالباً ہند وستان سے باہر مسلمانان ہند کے حقو ق کے حوالے سے یہ پہلی تنظیم سازی تھی۔ لند ن مسلم لیگ کے ذریعے انہوں نے بر طا نوی حکومت کو یہ با ور کر انے کی بھی کوشش کی کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو اقلیتی درجہ تو ہند و اکثریت دیتی ہے۔ ´ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے سیا سی اور اقتصا دی حقو ق و مفا دات کا تحفظ بھی کیا جائے۔ اکا برین تحریک پاکستان کے مصنف محمد علی چراغ نے ”نظر یہ قومیت اور جسٹس امیر علی“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”سید امیر علی اپنے مختلف انگریزی مضامین میں بر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک ”نیشن “ اور ”نیشنلٹی “ کے الفاظ استعمال کر تے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے کا نگریس کے قیام سے پہلے بھی اپنے مضامین میں اس امر کا اظہار کر دیا تھا کہ ”آج کل پانچ کروڑ مسلمان اس حالت میںہیں کہ ان کا ماضی درخشاں لیکن مستقبل غیر محفوظ ہے۔“لند ن میں ۸۰۹۱ءمیں مسلم لیگ کی برانچ کے افتتاح کے وقت تقریب سے خطاب کر تے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہند و مسلم تعلقا ت کو ہمیشہ غلط سمجھا جا تا رہا ہے۔ حالا نکہ ہند و ازم محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک بڑا پیچیدہ سماجی نظام ہے۔ اس میں عہد پا رینہ کی رسوم باقی ہیں۔ اس کے بارے میں یہ تصور کر نا کہ اس مذہب میں جمہوری اقدار مو جو د ہیں سراسر ایک مغالطہ اور وہم ہے لیکن اس کے برعکس اسلا می جمہوری اقدار کا علمبر دار دین اسلام ہے۔ اس میں معاشر تی ضوابط ہیں۔ اس کے دروازے اس میں شامل ہو ے والے تمام افراد کے لیے کھلے رہتے ہیں،۔۹۰۹۱ءمیں سید امیر علی نے وائئسر ائے ہند منٹو مارلے (Minto Morley) کو واضح الفاظ میں بتا یا تھا کہ ”مسلمانوں کو ایک اقلیت کہا جاتا ہے جو ایک صریحاً غلط اصطلاح ہے۔ اس حوالے سے انہیں اقلیت سمجھتے رہنا بھی ایک نا انصا فی اور زیادتی ہے۔ ہم ایک مسلم با لذات قوم ہیں۔ ہماری ایک قومیت ہے۔ یہ قوم اتنی ہی اہم ہے جتنی کوئی اور قوم ہو سکتی ہے۔ ہماری آرزوئیں، ہماری امنگیں ہمارے جذبات و احسا سات اور ہما رے وابستگیاں جو ہیں ہم ان سے آگاہ ہیں۔ اس لیے ہمیں کسی بھی پالیسی کے بنا نے میں ایک اہم اور لا زمی جز و سمجھا جا نا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ انگریزی حکومت اور ہند وﺅں کی یہی خواہش تھی کہ ہندوستان کے تمام لولوں کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں ایک ہی طرح کی تعلیم ہو تا کہ ان تمام قومیتوں کی مغائر ت ختم ہو تی رہے اور وہ ایکتا سے ہمکنار رہیں۔ لیکن سید امیر علی نے بھی دیگر ہم عصر روشن خیال مسلم رہنماﺅں کی طرح محسوس کر لیا تھا کہ تمام ہندوستانی قومیتوں کے لیے ایک ہی طرح کی ا ور ایک ہی نصا ب کی تعلیم ان کی اپنی جداگانہ شناکت اور تشخص کو مجرو ح کر سکتی ہے۔ لہذا انہوں نے مسلم لیگ کے قیام سے پہلے ۵۰۹۱ءمیں فرمایا تھا کہ ”ہندوستان میں موجو د مختلف قومیتوں کے نواجون طالب علموں کو کسی ایک طرح کی تعلیم یا نظام تعلیم کا پا بند کر نا ایک امر محال ہے۔ اس کا م کو مختلف قومیتوں کے افکار وخیالا ت ، مذہبی معیار، سماجی ضروریا ت اور اخلا ق ضوابط یکسر قبول نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں ہندوﺅں ، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے ایک ہی طرح تعلیم رائج کرنا بالکل نا ممکن ہے، بلکہ اس کی بجائے انہیں اپنے اپنے اخلا قی معیار وضوابط کے مطابق حصول تعلیم کے مواقع دیئے جانے چائیئں ۔جسٹس سید امیر علی کی دینی خد ما ت ان کا بہت بڑا تحریری اثاثہ ہیں جو رہتی دنیا تک ہماری رہنمائی کا ذریعہ رہے گا۔ اسلا می قوانین کے حوالے سے ان کی کتا ب ”محمڈ ن لاء“ مشہو ر زما نہ تفہیم دین کے حوالے سے ”اسپر ٹ آف اسلام“ سیر ت نبوی ﷺ کے حوالے سے ”حیا ت و تعلیما ت محمد ﷺ، نبی کریم ﷺ کے دور کی شخصیا ت پر مشتمل ”شارٹ ہسٹری آف سیرا سنیز “ انگزیز ی زبان کی وہ کتب ہیں جن کے ذریعے اسلام سے اہل مغر ب نے واقفیت حاصل کی ہے اور سینکڑوں غیر مسلموں نے اپنی غلط فہمیاں دور کر کے د امن اسلام میں پنا ہ لے لی ۔ ”اسپر ٹ آف اسلام“ کے حوالے سے سید امیر علی کی ذاتی زند گی کا ایک اہم واقعہ ان کے ہم عصر بیان کر تے ہیں جس سے اس کتا ب کی افا دیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ جسٹس صاحب اپنی تحریر گھر ہی میں قائم دفتر کی دراز میں لاک کر کے رکھا کر تے تھے۔ ان کی انگزیز شریک حیا ت ازبیلا (جس سے انہوں نے ۴۸۸۱ءمیں شادی کی تھی) اکثر اس تحریری مو اود کو دیکھنے کا مطالبہ کیا کر تی تھیں لیکن ان کا جواب ہیشہ یہی ہو تا تھا کہ ابھی نہیں مسو د ہ مکمل ہو جائے گا جب دکھائیں گے۔ ایک روز اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے باہر جاتے ہوئے وہ دراز میں تالا لگانا یا د نہ رکھ سکے۔ اتفا قا ٍ اسی روزان کی اہلیہ نے صفائی کر تے ہوئے کتا ب کا وہ مسودہ جوتکیمل کے تقریباً آخری مراحل میں تھا دیکھ لیا اور اس کا سر سر ی مطالعہ شروع کر دیا۔ یہ سر سری مطالعہ نے انہیں اس قدر محو کر دیا کہ وہ سارے کام بالا ئے طاق رکھ کر دن بھر اس کا مطالعہ کرتی رہیں اور شام تک پورے کا پورا مسو دہ پڑھ ڈالا شام کو جب جسٹس صاحب گھر تشریف لائے تو ان کی اہلیہ نے ان سے کہا"I want to embrase Islam" ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کی اخلا قی حیثیت سے تو متاثر تھی ہی لیکن اس تحریر کو پڑھ کر مجھے یہ ادراک ہو گیا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور میں اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہتی ہوں اور پھر بقیہ زند گی انہوں نے بحیثیت مسلم خا تون گزاری۔جسٹس سید امیر علی بلا شبہ اسلا میا ن ہند کی نشاة ثانیہ کے علمبر دار ، بلند پا یہ مورخ روشن خیال مفکر، صاحب طر ز انشاءپر واز ، سچے عاشق رسول ﷺ ، معتبر قانون دان اور حقیقت بین سیا ستدان تھے، وہ عقید ناً اہل تشیع تھے لیکن تمام مسلمانوں کی رہنمائی انہوں نے اس انداز میں کی کہ کبھی اپنے عقائد کے پرچار کی معمولی سے بھی سعی ان کی زیست میں ہمیں نہیں ملتی۔ یہ ان کا وہ امتیازی وصف ہے جو ہمارے موجودہ رہنما ﺅں میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔۴ اگست ۸۲۹۱ءکو انہیں دل کا دورہ پڑ ا جو جان لیو اثابت ہو ا۔

No comments:
Post a Comment