جی ہاں 7 ستمبر1974 ئکی جیت اُن کی جیت ہے جنہوں نے فتنہ ¿ مرزائیت کے خلاف قربانیاں دیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے کوئی چند لوگوں کی جانیں نہیں جنہیں فراموش کردیاجائے یہاں ہزار وںلوگوں کی قربانیاں ہیں جنہوں نے صرف ”ختم نبوت زندہ باد“کے نعرے پہ جان وار دی،لفظوں کی حد تک کتنی آسان بات لگتی ہے لیکن عملی زندگی میں کتنا مشکل مقام ہوتا ہے کہ صرف ایک نعرے سے منع کیا گیا تھا رُک جاتے عقیدہ تو تبدیل نہیں کیا جارہا تھا لیکن عقیدہ پہ زد ضرور تھی جو اہل ایمان کو برداشت نہیں ہزاروں لوگ قتل کردئیے گئے اور وہ خوشی خوشی جانیں جانِ آفریں کے سپرد کرتے گئے لیکن سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ”عقیدہ ختم نبوت زندہ باد“لاہور کی سڑکیں خون آلودہ ہوچکی تھیں لیکن فضائے آسمانی ایک ہی نعرہ سے گونج رہی تھی ”ختم نبوت زندہ باد “سلام ہوشہدائے ختم نبوت پربقول علامہ طالوت ؒ
سلام اُن پر جنہوں نے سنت سجاد زندہ کی
سلام اُن پر جنہوں نے کربلا کی یاد تازہ کی
سلام اُن پر کہ جو ختم نبوت کے تھے شیدائی
سلام اُن پر کہ جن کی جرا ¿ت رندانہ کام آئی
سلام اُن پر جنہوں نے مشعلیں حق کی جلائی ہیں
سلام اُن پر جنہوں نے گولیاں سینوں پہ کھائی ہیں
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے یہی عقیدہ مسلمان کا ایمان ہے اور یہی عقیدہ مسلمان کی نجات کے لیے کافی ہے اس عقیدہ پر جان نچھاور کرنا باعث فخر ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو اصحاب رسول ؓ کی سنت پر عمل ہے ہر دور میں علمائے امت نے دجالوں کذابوں کے بیخ کنی کے لیے تگ ودو کی ہے ،اسی طرح برصغیر میں بھی جب منکرین ختم نبوت اٹھے تو علمائے امت نے اس فتنہ کا علمی تحقیقی تقریری سطح پر کامیاب تعاقب کیا ۔
منکرین ختم نبوت کی تاریخ کچھ یوں یہ ہے کہ ۹۳۸۱ ئ یا ۰۴۸۱ئ کو قادیان کے قصبہ ¿ میں مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ”مرزا غلام احمد “رکھا گیا
مرزا غلام احمد خود کہتا ہے کہ ”ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمر قند سے آئے ہیں“۔(کتاب البریہ ،خلاصہ حاشیہ:۴۳۱ )
ایک دوسرے مقام پر مرزا قادیانی خود کو فارسی”ایرانی النسل“لکھتے ہیں(کتاب البریہ،حاشیہ :۵۳۱) یہ تضاد بیانی آپ ملاحظہ فرمالیں کہ مجدد،مہدی،مسیح اور ظلی وبروزی نبوت کا دعویٰ دار اپنے نسب کے بارے میں مطمئن نہیں بلکہ متضاد رائے رکھتا ہے ۔
مرزا غلام احمد کی تعلیم کے لیے گھر پر ہی اساتذہ مقرر کیے گئے جن میں مولوی فضل الہٰی ،مولوی فضل احمداور مولوی گل علی شاہ سے مرزا غلام احمد نے نحو ومنطق کی کتب پڑھیں اور طب کی کتابیں انہی کے بقول اپنے والد سے پڑھیں جو کہ ایک حاذق حکیم تھے ۔(ایضاً)یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کبھی بھی کسی انسان کے شاگر د نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہی علم حاصل کرتے ہیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:”میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۷۵۸۱ئ میں پچا س گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر پچاس جوان جنگ جو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی“۔(تحفہ قیصریہ :۶۱)
مرزا قادیانی لکھتا ہے :”میں سچ سچ کہتاہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے سومیرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہ ہی ہے کہ اسلام کے دوحصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرےںدوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہواورجس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو سووہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں “۔(شہادت القرآن،مندرج روحانی خزائن :۶۱۸۳،۰۸۳)
درج بالا دوحوالہ جات یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کے غلام ابن غلام اور سچے وفا دار تھے ۔
مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:”والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا “۔(کتاب البریہ :۱۵۱)جو شخص اپنے والد کو ناراض کرتا ہے اُس کے بارے میں یہ خیال کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتا ہے عبث ہے ۔
”مرزا صاحب نے سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازمت کرلی وہ ۴۶۸۱ ئ سے ۸۶۸۱ئ تک چار سال اس ملازمت میں رہے ،دورانِ ،ملازمت میں انہوں نے انگریزی کی بھی ایک دوکتابیں پڑھیں “۔ (سیرت المہدی ،حصہ اول ،صفحہ:۴۴،۵۵۱،قادیانیت مطالعہ وجائزہ:۴۲)
یہاں تک مرزا صاحب کی زندگی ایک ظاہری مسلمان کی طرح بسر ہورہی تھی اس کے بعد اُن کی زندگی میںالحاد ،دجل وفریب داخل ہوا اُن واقعات کو پڑھنے سے قبل یہ رپورٹ پڑھ لیں تاکہ مرزائیت کے مسموم عزائم کو آپ جان سکیں:۔
”۹۶۸۱ئ کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں ،بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلیڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا ،وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتہ چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفا دار ی کیونکر پیدا کی جاسکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ¿ جہاد کو سلب کرکے انہیں کس طرح رام کیا جاسکتا ہے اس وفد نے واپس جاکر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نے THE ARRIVAL OF BRITISH EMPIRE INDIA”ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد “ کے عنوان سے رپورٹ لکھی انہوں نے لکھا کہ:”ھندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماﺅں کی اندھا دھند پیروکار ہے اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹ (حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے “(تلخیصات)میرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ (پنجاب)کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۴۶۸۱ئ تا ۸۶۸۱ئ) ملازم تھا آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ کیا وہ آپ کے پاس عموماً آتا تھا اور دونوں اندر خانہ بات چیت کرتے بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا ادھر میرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے اس کے تھوڑے عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں ان رپورٹیں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کردیا ،برطانوی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا ان میں سے میرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے “۔(تحریک ختم نبوت:۳۲،۲۲)
سیرت المہدی جلد:۲ صفحہ:۱۵۱ کے بیان کے مطابق مرزا قادیانی کی پہلی تصنیف :”براہین احمدیہ کی تصنیف ۹۷۸۱ئ سے شروع ہوتی ہے “۔مصنف نے ذمہ داری لی کہ وہ اس کتاب میں صداقت اسلام کی تین سو دلیلیں پیش کرے گا مرزا صاحب نے ملک کے دوسرے اہل علم اور اہل نظر حضرات اور مصنفین سے بھی کتاب کے موضوع کے سلسلہ میں خط وکتابت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات اور مضامین بھیجیں جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی جائے جن لوگوں نے ان کی اس دعوت کو قبول کیا ان میں مولوی چراغ علی صاحب بھی تھے جو سرسید کی بزم علمی کے ایک اہم رکن تھے مرزا صاحب نے ان کے مضامین وتحقیقات کو بھی کتاب میں شامل کیا “۔(لیکن اس کا کہیں کتاب میں حوالہ نہیں دیا ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے اپنی کتاب ”چند ہم عصر “ صفحہ۳۵،۵۵میں اور ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنے ایک مضمون میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔) (حرف اقبال صفحہ:۱۳۱۔قادیانیت مطالعہ وجائزہ :۷۴،۶۴)
اس کتاب کے ساتھ ہی مرزا قادیانی کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ:”یہ عاجز (مو ¿لف براہین احمدیہ ) حضرت قادر ِ مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح ) کے طرز پر کمال مسکینی وفروتنی وغربت وتذلّل وتواضع سے اصلاحِ خلق کے لیے کوشش کرے “۔(براہین احمدیہ ،شامل حصہ اول :۲۸)
شورش کاشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :”میرزا صاحب کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ (صفحات۲۶۵) چار حصوں میں شائع ہوئی ۰۸۸۱ئ میں پہلے دو حصے میں شائع ہوئے ۲۸۸۱ئ میں تیسرا اور ۴۸۸۱ئ میں چوتھا آپ کے دوسرے بیٹے میرزا بشیر احمد ایم اے کی تالیف سلسلہ احمدیہ کے مطابق آپ کو ماموریت کا تاریخی الہام مارچ ۲۸۸۱ئ میں ہوا اس سے پہلے آپ نے ۰۸۸۱ئ میں ملہم من اللہ ہونے کا اعلان کیا اور اپنے مجدد ہونے کا ناد پھونکا ،دسمبر ۸۸۸۱ئ میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے ۱۹۸۱ئ میں اپنے مسیح موعود ہونے کی خبر دی اور ظلّی نبی ہونے کی اصطلاح ایجاد فرمائی ،پھر ۱۰۹۱ئ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور نومبر ۴۰۹۱ئ میں کرشن ہونے کا اعلان فرمایا یہی وہ سال تھے جب انگریزی سیاست اپنے استعماری عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کا شکار کررہی تھی اور اس کے سامنے بیرون ہندوستان کی مسلمان ریاستوں کو اپنے دام میں لانے کا منصوبہ بھی تھا میرزا غلام احمد ان چاروں نکات کے جامع ہوکر سامنے آئے جو انگریزوں کے ذہن میں تھے انہوں نے انگریزی سلطنت کے استحکام وطاعت کی بنیاد ہی اپنے الہام پر رکھی اور ایک نبی کا روپ دھار کر انگریزی سلطنت کی وفا داری سے انحراف کو جہنم کی سزا کا مستحق قرار دیا اپنی ربانی سند کے مفروضہ پر جہاد کو منسوخ کرڈالا اور ان لوگوں کو حرامی قرار دیا جو اس کے بعد جہاد کانام لیتے تھے یا اس کی تلقین کرتے تھے ہندوﺅں میں آریہ سماج ایک پروگریسو فرقہ اُٹھ رہا تھا سوامی دیانند اس کے بانی تھے میرزا صاحب نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر رکیک حملے کیے نتیجةً آریہ سماج نے رسول اکرم ﷺ اور قرآن اور اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا اسی طرح میرزا صاحب نے عیسائی مشنریوں کے خلاف یدھ رچایا حضرت مسیح سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرکے محمد عربی(فداہ امی وابی) کے خلاف مشنریوں کی زبان کھلوائی ،نتیجةً پنجاب کے مسلمان جہاد سے روگردان ہوکر ہندودھرم اور عیسائی مذہب سے نبرد آزما ہوگئے محاذ کا رخ پلٹ گیا مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے خود مسلمانوں میں ایک ایسا محاذ کھل گیا کہ علماءکے لیے ختم نبوت کا مسئلہ حفظِ ایمان کے لیے ضروری ہو گیا میرزا صاحب نے مسلمانوں کے حصارِ وحدت کو منہدم کرنے کے لیے ایک ایسی کُدال اٹھائی کہ وہ انگریزوں کے خنجر کو بھول کر اس کُدال ے پیچھے پڑگئے گو مسلمانوں کے ہردائرہ میں انگریزوں کی ہرخواہش پورا کرنے کے لیے مختلف افراد پیدا ہوچکے تھے “۔(تحریک ختم نبوت:۴۲،۳۲)
مرزا قا دیانی کے اس تاریخی کردار کو سامنے رکھیے تاکہ آپ جان سکیں کہ مرزا قادیانی استعماری قوت کے آلہ کار تھے اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی غرض سے انگریزوں نے اسے استعمال کیا اس نے جہاں ظلی وبروزی نبوت کا دعویٰ کیا وہیں اپنے مخالفین کے بارے میں انتہائی درشت زبان استعمال کی جس کی وجہ سے انتشار کی فضاءتیز ہوتی چلی گئی اور مسلمانوں کی توجہ خاص اس فتنہ کو رفع کرنے کی طرف زیادہ ہوگئی لیکن علمائے امت نے انگریزی چال کو سمجھتے ہوئے دائرہ کا ر متعین کرلیے اور ایک جماعت خاص (مجلس احرار اسلام )فتنہ مرزائیت کے رد کے لیے تشکیل دی گئی مجلس احرار اسلام نے جہاں استعماری سیاست سے مسلمانانِ برصغیر کو آگاہ کیا وہیں قادیانی دجل کو طشت از بام کیا مجلس احرار اسلام نے مستقل شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کیا احرار نے جولائی ۵۳۹۱ئ میں مولانا عنایت اللہ چشتی ؒ جو مجلس احرار اسلام کے مرکزی مبلغ تھے انہیں قادیان میں بٹھایا تاکہ قادیان میں رہنے والے مسلمانوں کے ایمان کو بچایا جاسکے اورانہیں تقویت بہم پہنچایا جاسکے کیونکہ قادیان میں جو مسلمان قادیانی ہونے سے انکار کرتے تھے انہیں قادیانی زبردستی قادیان سے نکال دیا کرتے تھے تو اُن مسلمانوں کی مدد اور ایمان کے تحفظ کی خاطر مولانا عنایت اللہ چشتی ؒ کو قادیان میں بٹھایا گیا اور دفتر قائم کیا گیا درج بالا مقصد میں مجلس احرار اسلام کامیاب بھی ہوئی۔
برصغیر میں مجلس احرار اسلام نے ہر مقام پر فتنہ ¿ قادیان کے کفریہ عقائد کو عوام الناس کے سامنے بیان کرکے اس فتنہ سے آگاہ کیا پاکستان بننے کے بعد مجلس احرار اسلام نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اپنی ساری توانائیاں فتنہ مرزائیت کے تعاقب میں صَرف کردی پاکستان میں کئی بار مجلس احرار اسلام کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن تحفظ ختم نبوت کا کام نہ رکنا تھا اور نہ ہی رُکا مجلس احرار اسلام کے رہنماﺅں نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جماعت بنائی اور عقیدہ تحفظ ختم نبوت کا کام جاری رہا مرزائیت کے سر پنچوں کو پاکستان میں بھی سرکاری آشیر باد حاصل تھی اوریہاں بھی قادیان کی طرح ربوہ پر مرازئی لابی قابض تھی اور ربوہ کو ملک پاکستان میں ایک الگ اسٹیٹ کی حیثیت تھی جہاں مرزا غلام احمد قادیانی کا نام نہاد خلیفہ ہی کار مختار تھا مرزا بشیر الدین محمود نے ۲۵۹۱ئ کو مرزائیت کا سال قرار دیا جس کے جواب میں امیرشریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے ۳۵۹۱ئ کو مسلمانوں کا سال قرار دیا اس سال ختم نبوت کی تحریک ایک نئے جذبہ سے اٹھی لیکن برا ہو تعصب وعناد کا یہ اس تحریک کو طاقت سے کچلا گیا اور ہزاروں لوگ عقیدہ ختم نبوت کے فلک شگاف نعرے لگاتے حکومتی جبر وتشدد کا نشانہ بنے اور گولیوں سے چھلنی کردئیے گئے لاہور کے باسیوں نے کمال کردیا کہ اپنے معصوم بچوں کو ساتھ لے آئے نوجوان گھروں سے نکلے تو ماﺅں نے روکا نہیں بہنوں نے ٹوکا نہیں اور بیویاں جانتی تھیں کہ ابھی چند گھڑیوں بعد سہاگ اجڑ جائے گا روئی نہیں بلکہ سب کے سب عقیدہ ختم نبوت کے لیے جان قربان کرنے کو باعث ِ فخر ونجات سمجھتے تھے اور دل سے کہہ رہے تھے”یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں “ اورجان تو ایک ہی ہے کاش ہزار جانیں ہوتیں جو حضور نبی کریم فداہ امی وابی ﷺ کی ذات والاصفات پر قربان کرتے ۔
بقول شورش کاشمیر یؒ :”( سکندر) مرزا صاحب نے فرمایا یہ کابینہ کی غلطی ہے کہ اس نے ان ملاﺅں کو پھانسی نہیں دی ہمارے مشورہ کے مطابق پندرہ بیس علماءکو وار پر کھنچوا دیا جاتا یا گولی سے اڑا دیا جاتا تو اس قسم کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات ہوجاتی جس صبح دولتانہ وزارت برخاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ہاﺅس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا ”مجھے یہ نہ بتاﺅ فلاں جگہ ہنگامہ فرو ہوگیا ہے یا فلاں جگہ مظاہر ہ ختم کردیا گیا مجھے یہ بتاﺅ وہاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی ؟“ (تحریک ختم نبوت:۲۴۱)
امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ نے لاہور کے ایک جلسہ ¿ عام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاںشہید ہوئے ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں وہ عشق رسالت میں مارے گے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں جذبہ شہادت میں نے پھونکا تھا جولوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ رہ کر اب کنی کترارہے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار ہوں وہ عشق نبوت میں اسلامی سلطنت کے ہلاکو خانوں کی بھینٹ ہوگئے لیکن ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی سات ہزار حافظِ قرآن اس مسئلہ کی خاطر شہید کردئیے تھے “۔
ایک لمحہ کو دشمنان ختم نبوت یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے میدان مار لیا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت الہٰیہ کی طرف سے مستقبل میں کیا فیصلہ ہونے والا ہے اور سرکاری مشنر ی جو آپ کو سپورٹ کررہی ہے مستقبل میں عوام کے دیرنیہ جذبات کی قدر کرتے ہوئے شرعی فیصلہ نافذ کردے گی مسٹرذوالفقار علی بھٹو مرحوم جب وزیر اعظم بنے تو قادیانیوں نے ربوہ شہر میں چراغاں کیا اور خوشی منائی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہی مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ان کے بارے میں وہ تاریخی فیصلہ کرجائے گا جس پر قیامت تک مسلمان انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہےں گے اور یہی فیصلہ ان کے نام کو دوام بخشے گا ۔
ہوا ایسے کہ ۲۲ مئی ۴۷۹۱ئ کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباءسیاحتی ٹور پر پشاور جارہے تھے جب ٹرین ربوہ اسٹیشن پہ پہنچی تو قادیانی مبلغین نے طلباءکو احمدیت کی تبلیغ کی اور لٹریچر دینا چاہا جواب میں طلباءنے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کردئیے جس سے قادیانی مبلغین کے سینے چھلنی ہوگئے ٹرین چل پڑی لیکن زخمی سانپ کی طرح قادیانی بل کھاتے رہے مرزا ناصر جو اس وقت خود ساختہ قادیانی نبوت کا خلیفہ تھا اُس کے حکم پر طلباءکی واپسی کا پتہ چلایا گیا جب طلباءواپس آرہے تھے تو ربوہ سے پہلے آنے والے اسٹیشن پر قادیانی العقیدہ اسٹیشن ماسٹر نے طلباءکی بوگی پر نشان لگا دیا اور ربوہ اسٹیشن پر کم وبیش پانچ ہزار افراد مسلح طلباءکا انتظار کررہے تھے جیسے ہی ٹرین ربوہ رکی سب کے سب نہتے طلبا پر ٹوٹ پڑے طلباءکولہولہان کردیا یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے ملک میں پھیل گئی یہ ٹرین جیسے ہی فیصل آباد پہنچی مولانا تاج محمود ؒ اور سارا شہر طلباءکے لیے اسٹیشن پر امنڈ آیا زخمی طلباءکی مرہم پٹی کروائی گئی اور ایک بار دبی چنگاری پھر سے بھڑک اٹھی اور شیخ الاسلام علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ کے شاگرد رشید محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری ؒ کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے علماءکرام جمع ہوئے ،تحریک ختم نبوت کے دوسرے دور کا آغاز ہوا اور تمام مذہبی جماعتوں کی قیادتیں پھر سے ایک ہوگئی بلکہ پاکستان کے تمام مسلمان یک زبان ہوکر ایک ہی مطالبہ کرتے نظر آرہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے۔
30جون کو مولانا شاہ احمد نورانی ؒنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کا بل 28اراکین اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ پیش کیا سرکاری طور پر بل عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کیا اور پارلیمنٹ میں تحریک ختم نبوت کی قیادت کا سہرا قائد حزب اختلاف مفتی محمودؒ فرمارہے تھے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے دو ماہ میں کل 28 اجلاس کیے اور 96 نشستیں کیں کل گیارہ روز مرزا ناصر پر جرح کی گئی اور ۲ روز قادیانیوں کے لاہوری گروپ پر جرح کی گئی اس بحث میں قادیانی ولاہوری اپنے عقائد کی روشنی میں کافر ثابت ہوئے تو 7 ستمبر 1974ئ کو تقریباً ساڑھے چار بجے منظور ہوا اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائدایوان کی حیثیت سے کم وبیش آدھا گھنٹہ وضاحتی تقریر کی اور اس طرح یہ دن ایک تاریخی دن بن گیا اس میں شک نہیں کہ ظاہری طور پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباءکے واقعہ سے دوبارہ ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی لیکن جب آپ پس منظر میں جھانکے گے تو پتہ چلتا ہے کہ
یہ جیت اُن کی ہے ،جو خون میں نہائے تھے
جو جراتوں کے نشاں ،عظمتوں کے سائے تھے
صداقتوں کے افق پر جو جگمگائے تھے
جنہوں نے ختم رسل کے علم اٹھائے تھے
مختلف نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کے سربراہ مولانا خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ کی قیادت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے 1984ءمیں مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو اسلامی شعائر اور مسلمانوں کی مذہبی ودینی اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روکاجائے تب اس وقت کے صدر پاکستان محمد ضیاءالحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ 26 اپریل 1984 ءکو جاری کیا جو بعد میں تعزیرات پاکستان حصہ بنا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈھیل اور غفلت کی وجہ سے قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ،اپنے کفر کو اسلام کے نام پر پھیلا کر عملاً ارتداد کی تبلیغ کے مرتکب ہورہے ہیں اکابر احرار وختم نبوت اور تمام مکاتب فکر کا مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان آئینی وقانونی تعاقب وسد باب جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ضرورت ہے کہ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی طرز پر تحریک ختم نبوت کو از سر نو جدید بنیادوں پر منظم کیا جائے اور قادیانیوں کے مذہبی تعاقب کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشرتی تعاقب بھی انٹرنیشنل لابنگ اور میڈیا کے ذریعے دنیا کو باور کرانے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے کہ قادیانی اسلام اور مسلمانوں کا ٹائیٹل استعمال کرکے دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔
عبدالمنان معاویہ :دفتر مجلس احرار اسلام, جامع مسجد ،چیچہ وطنی
سلام اُن پر جنہوں نے سنت سجاد زندہ کی
سلام اُن پر جنہوں نے کربلا کی یاد تازہ کی
سلام اُن پر کہ جو ختم نبوت کے تھے شیدائی
سلام اُن پر کہ جن کی جرا ¿ت رندانہ کام آئی
سلام اُن پر جنہوں نے مشعلیں حق کی جلائی ہیں
سلام اُن پر جنہوں نے گولیاں سینوں پہ کھائی ہیں
عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے یہی عقیدہ مسلمان کا ایمان ہے اور یہی عقیدہ مسلمان کی نجات کے لیے کافی ہے اس عقیدہ پر جان نچھاور کرنا باعث فخر ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو اصحاب رسول ؓ کی سنت پر عمل ہے ہر دور میں علمائے امت نے دجالوں کذابوں کے بیخ کنی کے لیے تگ ودو کی ہے ،اسی طرح برصغیر میں بھی جب منکرین ختم نبوت اٹھے تو علمائے امت نے اس فتنہ کا علمی تحقیقی تقریری سطح پر کامیاب تعاقب کیا ۔
منکرین ختم نبوت کی تاریخ کچھ یوں یہ ہے کہ ۹۳۸۱ ئ یا ۰۴۸۱ئ کو قادیان کے قصبہ ¿ میں مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ”مرزا غلام احمد “رکھا گیا
مرزا غلام احمد خود کہتا ہے کہ ”ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمر قند سے آئے ہیں“۔(کتاب البریہ ،خلاصہ حاشیہ:۴۳۱ )
ایک دوسرے مقام پر مرزا قادیانی خود کو فارسی”ایرانی النسل“لکھتے ہیں(کتاب البریہ،حاشیہ :۵۳۱) یہ تضاد بیانی آپ ملاحظہ فرمالیں کہ مجدد،مہدی،مسیح اور ظلی وبروزی نبوت کا دعویٰ دار اپنے نسب کے بارے میں مطمئن نہیں بلکہ متضاد رائے رکھتا ہے ۔
مرزا غلام احمد کی تعلیم کے لیے گھر پر ہی اساتذہ مقرر کیے گئے جن میں مولوی فضل الہٰی ،مولوی فضل احمداور مولوی گل علی شاہ سے مرزا غلام احمد نے نحو ومنطق کی کتب پڑھیں اور طب کی کتابیں انہی کے بقول اپنے والد سے پڑھیں جو کہ ایک حاذق حکیم تھے ۔(ایضاً)یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کبھی بھی کسی انسان کے شاگر د نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہی علم حاصل کرتے ہیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ:”میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۷۵۸۱ئ میں پچا س گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر پچاس جوان جنگ جو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی“۔(تحفہ قیصریہ :۶۱)
مرزا قادیانی لکھتا ہے :”میں سچ سچ کہتاہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے سومیرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہ ہی ہے کہ اسلام کے دوحصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرےںدوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہواورجس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو سووہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں “۔(شہادت القرآن،مندرج روحانی خزائن :۶۱۸۳،۰۸۳)
درج بالا دوحوالہ جات یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کے غلام ابن غلام اور سچے وفا دار تھے ۔
مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:”والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا “۔(کتاب البریہ :۱۵۱)جو شخص اپنے والد کو ناراض کرتا ہے اُس کے بارے میں یہ خیال کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتا ہے عبث ہے ۔
”مرزا صاحب نے سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازمت کرلی وہ ۴۶۸۱ ئ سے ۸۶۸۱ئ تک چار سال اس ملازمت میں رہے ،دورانِ ،ملازمت میں انہوں نے انگریزی کی بھی ایک دوکتابیں پڑھیں “۔ (سیرت المہدی ،حصہ اول ،صفحہ:۴۴،۵۵۱،قادیانیت مطالعہ وجائزہ:۴۲)
یہاں تک مرزا صاحب کی زندگی ایک ظاہری مسلمان کی طرح بسر ہورہی تھی اس کے بعد اُن کی زندگی میںالحاد ،دجل وفریب داخل ہوا اُن واقعات کو پڑھنے سے قبل یہ رپورٹ پڑھ لیں تاکہ مرزائیت کے مسموم عزائم کو آپ جان سکیں:۔
”۹۶۸۱ئ کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں ،بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلیڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا ،وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتہ چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفا دار ی کیونکر پیدا کی جاسکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ¿ جہاد کو سلب کرکے انہیں کس طرح رام کیا جاسکتا ہے اس وفد نے واپس جاکر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نے THE ARRIVAL OF BRITISH EMPIRE INDIA”ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد “ کے عنوان سے رپورٹ لکھی انہوں نے لکھا کہ:”ھندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماﺅں کی اندھا دھند پیروکار ہے اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹ (حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے “(تلخیصات)میرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ (پنجاب)کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (۴۶۸۱ئ تا ۸۶۸۱ئ) ملازم تھا آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ کیا وہ آپ کے پاس عموماً آتا تھا اور دونوں اندر خانہ بات چیت کرتے بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا ادھر میرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے اس کے تھوڑے عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں ان رپورٹیں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کردیا ،برطانوی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا ان میں سے میرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے “۔(تحریک ختم نبوت:۳۲،۲۲)
سیرت المہدی جلد:۲ صفحہ:۱۵۱ کے بیان کے مطابق مرزا قادیانی کی پہلی تصنیف :”براہین احمدیہ کی تصنیف ۹۷۸۱ئ سے شروع ہوتی ہے “۔مصنف نے ذمہ داری لی کہ وہ اس کتاب میں صداقت اسلام کی تین سو دلیلیں پیش کرے گا مرزا صاحب نے ملک کے دوسرے اہل علم اور اہل نظر حضرات اور مصنفین سے بھی کتاب کے موضوع کے سلسلہ میں خط وکتابت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات اور مضامین بھیجیں جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی جائے جن لوگوں نے ان کی اس دعوت کو قبول کیا ان میں مولوی چراغ علی صاحب بھی تھے جو سرسید کی بزم علمی کے ایک اہم رکن تھے مرزا صاحب نے ان کے مضامین وتحقیقات کو بھی کتاب میں شامل کیا “۔(لیکن اس کا کہیں کتاب میں حوالہ نہیں دیا ڈاکٹر عبدالحق صاحب نے اپنی کتاب ”چند ہم عصر “ صفحہ۳۵،۵۵میں اور ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنے ایک مضمون میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔) (حرف اقبال صفحہ:۱۳۱۔قادیانیت مطالعہ وجائزہ :۷۴،۶۴)
اس کتاب کے ساتھ ہی مرزا قادیانی کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ:”یہ عاجز (مو ¿لف براہین احمدیہ ) حضرت قادر ِ مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح ) کے طرز پر کمال مسکینی وفروتنی وغربت وتذلّل وتواضع سے اصلاحِ خلق کے لیے کوشش کرے “۔(براہین احمدیہ ،شامل حصہ اول :۲۸)
شورش کاشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :”میرزا صاحب کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ (صفحات۲۶۵) چار حصوں میں شائع ہوئی ۰۸۸۱ئ میں پہلے دو حصے میں شائع ہوئے ۲۸۸۱ئ میں تیسرا اور ۴۸۸۱ئ میں چوتھا آپ کے دوسرے بیٹے میرزا بشیر احمد ایم اے کی تالیف سلسلہ احمدیہ کے مطابق آپ کو ماموریت کا تاریخی الہام مارچ ۲۸۸۱ئ میں ہوا اس سے پہلے آپ نے ۰۸۸۱ئ میں ملہم من اللہ ہونے کا اعلان کیا اور اپنے مجدد ہونے کا ناد پھونکا ،دسمبر ۸۸۸۱ئ میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے ۱۹۸۱ئ میں اپنے مسیح موعود ہونے کی خبر دی اور ظلّی نبی ہونے کی اصطلاح ایجاد فرمائی ،پھر ۱۰۹۱ئ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور نومبر ۴۰۹۱ئ میں کرشن ہونے کا اعلان فرمایا یہی وہ سال تھے جب انگریزی سیاست اپنے استعماری عزائم کو پروان چڑھانے کے لیے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کا شکار کررہی تھی اور اس کے سامنے بیرون ہندوستان کی مسلمان ریاستوں کو اپنے دام میں لانے کا منصوبہ بھی تھا میرزا غلام احمد ان چاروں نکات کے جامع ہوکر سامنے آئے جو انگریزوں کے ذہن میں تھے انہوں نے انگریزی سلطنت کے استحکام وطاعت کی بنیاد ہی اپنے الہام پر رکھی اور ایک نبی کا روپ دھار کر انگریزی سلطنت کی وفا داری سے انحراف کو جہنم کی سزا کا مستحق قرار دیا اپنی ربانی سند کے مفروضہ پر جہاد کو منسوخ کرڈالا اور ان لوگوں کو حرامی قرار دیا جو اس کے بعد جہاد کانام لیتے تھے یا اس کی تلقین کرتے تھے ہندوﺅں میں آریہ سماج ایک پروگریسو فرقہ اُٹھ رہا تھا سوامی دیانند اس کے بانی تھے میرزا صاحب نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر رکیک حملے کیے نتیجةً آریہ سماج نے رسول اکرم ﷺ اور قرآن اور اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا اسی طرح میرزا صاحب نے عیسائی مشنریوں کے خلاف یدھ رچایا حضرت مسیح سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرکے محمد عربی(فداہ امی وابی) کے خلاف مشنریوں کی زبان کھلوائی ،نتیجةً پنجاب کے مسلمان جہاد سے روگردان ہوکر ہندودھرم اور عیسائی مذہب سے نبرد آزما ہوگئے محاذ کا رخ پلٹ گیا مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے خود مسلمانوں میں ایک ایسا محاذ کھل گیا کہ علماءکے لیے ختم نبوت کا مسئلہ حفظِ ایمان کے لیے ضروری ہو گیا میرزا صاحب نے مسلمانوں کے حصارِ وحدت کو منہدم کرنے کے لیے ایک ایسی کُدال اٹھائی کہ وہ انگریزوں کے خنجر کو بھول کر اس کُدال ے پیچھے پڑگئے گو مسلمانوں کے ہردائرہ میں انگریزوں کی ہرخواہش پورا کرنے کے لیے مختلف افراد پیدا ہوچکے تھے “۔(تحریک ختم نبوت:۴۲،۳۲)
مرزا قا دیانی کے اس تاریخی کردار کو سامنے رکھیے تاکہ آپ جان سکیں کہ مرزا قادیانی استعماری قوت کے آلہ کار تھے اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی غرض سے انگریزوں نے اسے استعمال کیا اس نے جہاں ظلی وبروزی نبوت کا دعویٰ کیا وہیں اپنے مخالفین کے بارے میں انتہائی درشت زبان استعمال کی جس کی وجہ سے انتشار کی فضاءتیز ہوتی چلی گئی اور مسلمانوں کی توجہ خاص اس فتنہ کو رفع کرنے کی طرف زیادہ ہوگئی لیکن علمائے امت نے انگریزی چال کو سمجھتے ہوئے دائرہ کا ر متعین کرلیے اور ایک جماعت خاص (مجلس احرار اسلام )فتنہ مرزائیت کے رد کے لیے تشکیل دی گئی مجلس احرار اسلام نے جہاں استعماری سیاست سے مسلمانانِ برصغیر کو آگاہ کیا وہیں قادیانی دجل کو طشت از بام کیا مجلس احرار اسلام نے مستقل شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کیا احرار نے جولائی ۵۳۹۱ئ میں مولانا عنایت اللہ چشتی ؒ جو مجلس احرار اسلام کے مرکزی مبلغ تھے انہیں قادیان میں بٹھایا تاکہ قادیان میں رہنے والے مسلمانوں کے ایمان کو بچایا جاسکے اورانہیں تقویت بہم پہنچایا جاسکے کیونکہ قادیان میں جو مسلمان قادیانی ہونے سے انکار کرتے تھے انہیں قادیانی زبردستی قادیان سے نکال دیا کرتے تھے تو اُن مسلمانوں کی مدد اور ایمان کے تحفظ کی خاطر مولانا عنایت اللہ چشتی ؒ کو قادیان میں بٹھایا گیا اور دفتر قائم کیا گیا درج بالا مقصد میں مجلس احرار اسلام کامیاب بھی ہوئی۔
برصغیر میں مجلس احرار اسلام نے ہر مقام پر فتنہ ¿ قادیان کے کفریہ عقائد کو عوام الناس کے سامنے بیان کرکے اس فتنہ سے آگاہ کیا پاکستان بننے کے بعد مجلس احرار اسلام نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اپنی ساری توانائیاں فتنہ مرزائیت کے تعاقب میں صَرف کردی پاکستان میں کئی بار مجلس احرار اسلام کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن تحفظ ختم نبوت کا کام نہ رکنا تھا اور نہ ہی رُکا مجلس احرار اسلام کے رہنماﺅں نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جماعت بنائی اور عقیدہ تحفظ ختم نبوت کا کام جاری رہا مرزائیت کے سر پنچوں کو پاکستان میں بھی سرکاری آشیر باد حاصل تھی اوریہاں بھی قادیان کی طرح ربوہ پر مرازئی لابی قابض تھی اور ربوہ کو ملک پاکستان میں ایک الگ اسٹیٹ کی حیثیت تھی جہاں مرزا غلام احمد قادیانی کا نام نہاد خلیفہ ہی کار مختار تھا مرزا بشیر الدین محمود نے ۲۵۹۱ئ کو مرزائیت کا سال قرار دیا جس کے جواب میں امیرشریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے ۳۵۹۱ئ کو مسلمانوں کا سال قرار دیا اس سال ختم نبوت کی تحریک ایک نئے جذبہ سے اٹھی لیکن برا ہو تعصب وعناد کا یہ اس تحریک کو طاقت سے کچلا گیا اور ہزاروں لوگ عقیدہ ختم نبوت کے فلک شگاف نعرے لگاتے حکومتی جبر وتشدد کا نشانہ بنے اور گولیوں سے چھلنی کردئیے گئے لاہور کے باسیوں نے کمال کردیا کہ اپنے معصوم بچوں کو ساتھ لے آئے نوجوان گھروں سے نکلے تو ماﺅں نے روکا نہیں بہنوں نے ٹوکا نہیں اور بیویاں جانتی تھیں کہ ابھی چند گھڑیوں بعد سہاگ اجڑ جائے گا روئی نہیں بلکہ سب کے سب عقیدہ ختم نبوت کے لیے جان قربان کرنے کو باعث ِ فخر ونجات سمجھتے تھے اور دل سے کہہ رہے تھے”یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں “ اورجان تو ایک ہی ہے کاش ہزار جانیں ہوتیں جو حضور نبی کریم فداہ امی وابی ﷺ کی ذات والاصفات پر قربان کرتے ۔
بقول شورش کاشمیر یؒ :”( سکندر) مرزا صاحب نے فرمایا یہ کابینہ کی غلطی ہے کہ اس نے ان ملاﺅں کو پھانسی نہیں دی ہمارے مشورہ کے مطابق پندرہ بیس علماءکو وار پر کھنچوا دیا جاتا یا گولی سے اڑا دیا جاتا تو اس قسم کے جھمیلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات ہوجاتی جس صبح دولتانہ وزارت برخاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ہاﺅس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا ”مجھے یہ نہ بتاﺅ فلاں جگہ ہنگامہ فرو ہوگیا ہے یا فلاں جگہ مظاہر ہ ختم کردیا گیا مجھے یہ بتاﺅ وہاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی ؟“ (تحریک ختم نبوت:۲۴۱)
امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ نے لاہور کے ایک جلسہ ¿ عام میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاںشہید ہوئے ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں وہ عشق رسالت میں مارے گے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں جذبہ شہادت میں نے پھونکا تھا جولوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ رہ کر اب کنی کترارہے ہیں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار ہوں وہ عشق نبوت میں اسلامی سلطنت کے ہلاکو خانوں کی بھینٹ ہوگئے لیکن ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی سات ہزار حافظِ قرآن اس مسئلہ کی خاطر شہید کردئیے تھے “۔
ایک لمحہ کو دشمنان ختم نبوت یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے میدان مار لیا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت الہٰیہ کی طرف سے مستقبل میں کیا فیصلہ ہونے والا ہے اور سرکاری مشنر ی جو آپ کو سپورٹ کررہی ہے مستقبل میں عوام کے دیرنیہ جذبات کی قدر کرتے ہوئے شرعی فیصلہ نافذ کردے گی مسٹرذوالفقار علی بھٹو مرحوم جب وزیر اعظم بنے تو قادیانیوں نے ربوہ شہر میں چراغاں کیا اور خوشی منائی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہی مسٹر ذوالفقار علی بھٹو ان کے بارے میں وہ تاریخی فیصلہ کرجائے گا جس پر قیامت تک مسلمان انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہےں گے اور یہی فیصلہ ان کے نام کو دوام بخشے گا ۔
ہوا ایسے کہ ۲۲ مئی ۴۷۹۱ئ کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباءسیاحتی ٹور پر پشاور جارہے تھے جب ٹرین ربوہ اسٹیشن پہ پہنچی تو قادیانی مبلغین نے طلباءکو احمدیت کی تبلیغ کی اور لٹریچر دینا چاہا جواب میں طلباءنے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے بلند کردئیے جس سے قادیانی مبلغین کے سینے چھلنی ہوگئے ٹرین چل پڑی لیکن زخمی سانپ کی طرح قادیانی بل کھاتے رہے مرزا ناصر جو اس وقت خود ساختہ قادیانی نبوت کا خلیفہ تھا اُس کے حکم پر طلباءکی واپسی کا پتہ چلایا گیا جب طلباءواپس آرہے تھے تو ربوہ سے پہلے آنے والے اسٹیشن پر قادیانی العقیدہ اسٹیشن ماسٹر نے طلباءکی بوگی پر نشان لگا دیا اور ربوہ اسٹیشن پر کم وبیش پانچ ہزار افراد مسلح طلباءکا انتظار کررہے تھے جیسے ہی ٹرین ربوہ رکی سب کے سب نہتے طلبا پر ٹوٹ پڑے طلباءکولہولہان کردیا یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے ملک میں پھیل گئی یہ ٹرین جیسے ہی فیصل آباد پہنچی مولانا تاج محمود ؒ اور سارا شہر طلباءکے لیے اسٹیشن پر امنڈ آیا زخمی طلباءکی مرہم پٹی کروائی گئی اور ایک بار دبی چنگاری پھر سے بھڑک اٹھی اور شیخ الاسلام علامہ انور شاہ کاشمیری ؒ کے شاگرد رشید محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری ؒ کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے علماءکرام جمع ہوئے ،تحریک ختم نبوت کے دوسرے دور کا آغاز ہوا اور تمام مذہبی جماعتوں کی قیادتیں پھر سے ایک ہوگئی بلکہ پاکستان کے تمام مسلمان یک زبان ہوکر ایک ہی مطالبہ کرتے نظر آرہے تھے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے۔
30جون کو مولانا شاہ احمد نورانی ؒنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کا بل 28اراکین اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ پیش کیا سرکاری طور پر بل عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کیا اور پارلیمنٹ میں تحریک ختم نبوت کی قیادت کا سہرا قائد حزب اختلاف مفتی محمودؒ فرمارہے تھے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے دو ماہ میں کل 28 اجلاس کیے اور 96 نشستیں کیں کل گیارہ روز مرزا ناصر پر جرح کی گئی اور ۲ روز قادیانیوں کے لاہوری گروپ پر جرح کی گئی اس بحث میں قادیانی ولاہوری اپنے عقائد کی روشنی میں کافر ثابت ہوئے تو 7 ستمبر 1974ئ کو تقریباً ساڑھے چار بجے منظور ہوا اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائدایوان کی حیثیت سے کم وبیش آدھا گھنٹہ وضاحتی تقریر کی اور اس طرح یہ دن ایک تاریخی دن بن گیا اس میں شک نہیں کہ ظاہری طور پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباءکے واقعہ سے دوبارہ ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی لیکن جب آپ پس منظر میں جھانکے گے تو پتہ چلتا ہے کہ
یہ جیت اُن کی ہے ،جو خون میں نہائے تھے
جو جراتوں کے نشاں ،عظمتوں کے سائے تھے
صداقتوں کے افق پر جو جگمگائے تھے
جنہوں نے ختم رسل کے علم اٹھائے تھے
مختلف نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کے سربراہ مولانا خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ کی قیادت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے 1984ءمیں مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو اسلامی شعائر اور مسلمانوں کی مذہبی ودینی اصطلاحات کے استعمال سے قانوناً روکاجائے تب اس وقت کے صدر پاکستان محمد ضیاءالحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ 26 اپریل 1984 ءکو جاری کیا جو بعد میں تعزیرات پاکستان حصہ بنا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ڈھیل اور غفلت کی وجہ سے قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ،اپنے کفر کو اسلام کے نام پر پھیلا کر عملاً ارتداد کی تبلیغ کے مرتکب ہورہے ہیں اکابر احرار وختم نبوت اور تمام مکاتب فکر کا مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان آئینی وقانونی تعاقب وسد باب جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ضرورت ہے کہ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی طرز پر تحریک ختم نبوت کو از سر نو جدید بنیادوں پر منظم کیا جائے اور قادیانیوں کے مذہبی تعاقب کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشرتی تعاقب بھی انٹرنیشنل لابنگ اور میڈیا کے ذریعے دنیا کو باور کرانے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے کہ قادیانی اسلام اور مسلمانوں کا ٹائیٹل استعمال کرکے دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔
عبدالمنان معاویہ :دفتر مجلس احرار اسلام, جامع مسجد ،چیچہ وطنی

No comments:
Post a Comment