Tuesday, August 30, 2016

ستمبر ....یومِ قراردادِ اقلیت

جب قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردیاگیا
سات ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے ۔یہ دن جب ہر سال ستمبر کے مہینے میں لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ¿ ختم نبوت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا ۔اسی عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے قادیانی نبوت اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا ۔قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا ۔عقیدہ¿ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اصل اور اساس ہے۔ختم نبوت کا منکر بالاتفاق دائرہ ¿ اسلام سے خارج ہے ۔حضور اکرم اپر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ،آپ انبی ¿ آخر الزماں ہیں ۔قرآن پاک اور احادیث میں اس کا واضح اعلان موجود ہے ۔جھوٹے مدعیان نبوت کا سلسلہ حضور اکرم ا کے آخری دور سے شروع ہوتا ہے ۔
اسود عنسی حضور اکرم ا کے آخری لمحات میں حضور اکرم اکے حکم سے جہنم رسید ہوا جبکہ مسیلمہ کذاب حضور اکرم اکے وصال کے بعد ایک بڑا لشکر بنانے میں کامیاب ہوگیا ۔اس نے اپنے اس اعلان سے لوگوں کو گمراہ کیا کہ حضور اکرم انے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق صنے نبی کریم اکے وصال کے بعد اور اپنی خلافت کے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کا اعلان کرکے لشکر کشی فرمائی ،چونکہ دوسری بہت سی جگہوں پر اس وقت اسلامی فوج مصروف تھی اور تمام جوان صحابہ کرامث ان معرکوں میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے ۔اس لئے اس لشکر میں اصحاب بدر مفسر ،محدث ،حفاظ صحابہ کرام ثشامل تھے ۔مسیلمہ کذاب کا لشکر تیس ہزار سے کچھ زائد تھا ۔سخت قسم کا معرکہ ہوا۔ اس موقع پر بارہ سو سے زائد مذکورہ بالا صفات کے حامل صحابہ کرامث نبی کریم اکی ختم نبوت کے تحفظ کےلئے قربان ہوگئے۔ مسیلمہ کذاب اپنے لشکر سمیت جہنم رسید ہوکر گزشتہ زمانے کی ایک کہانی بن گیا ۔اس دجال سے لے کر مرزا قادیان تک بہتر (72)کے قریب سیاہ بختوں نے نبوت کی عظیم دیوار میں نقب لگانے کی کوشش کی ۔ان تمام کو امت مسلمہ نے بالاتفاق مسترد کردیا۔ بعض کے خلاف تو جہاد کیا ،بعض کو دیس نکالا دے ڈالا اور بعض کے خلاف تردیدی مہم چلائی ۔نبی کریم اکے فرمان کے مطابق نبوت کے ہر مدعی کو کذاب اور دجال قرار دے کر اسلام کی مہکتی ہوئی بستی سے کوسوں دور پھینک دیا ۔اسی تناظر میں ہم مرزا غلام قادیانی کے خلاف مسلمانوںکی طرف سے بپا کردہ اس صدی کی عظیم تحریک کا جائزہ لیتے ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی کسی گمنام خاندان کے فرد نہیں ؟بلکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیںجس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے ۔سر لیپل گریفن نے اپنی کتاب ”تاریخ رئیسانِ پنجاب “میں مرزا قادیانی کے خاندان کا قصہ بیان کیا ہے ؟جس کا اردو ترجمہ سید نوازش علی شاہ مترجم دفتر گورنر پنجاب نے1911ءمیں سرکارکی اجازت سے کردیاتھا ۔اس کتاب کی جلد دوئم کے صفحہ44پر مرزا قادیانی کے خاندان کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ خاندان سکھوں کے دور اقتدار میں بھی سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف شمشیر بکف رہا ۔جب انگریز پنجاب میں آئے اور سکھ دور حکومت زوال پذیر ہوا تو مرزا قادیانی کے اسلاف انگریزوں کے ساتھ مل کر ان حریت پسندوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہوگئے جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مصروف جہاد تھے ۔مرزا غلام احمد کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم رہ کر مہاراجہ کی ہر فوجی مہم میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں سید احمد شہید کے حریت پسند وں کا جہاد در اصل اسی سکھ حکومت کے خلاف تھا ،اس لئے کشمیر پشاور اور ہزارہ پر سکھوں نے جتنے بھی حملے کئے وہ صرف مسلمانوں کے خلاف تھے ۔ ان حملوں میں مرزا قادیانی کے والد اور بھائی غلام مرتضیٰ اور مرزا غلام قادر سکھ فوج میں ملازم ہو کر مسلمانوں کے خلاف مصروف پیکار رہے ۔مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی ملازمت میں بسر کیا اور یہ وہی شیر سنگھ ہے جس کی قیادت میں بالا کوٹ کے مقام پر سید احمد شہید کے مجاہدوں کی آخری جھڑپ ہوئی ،جس میں جذبہ¿ جہاد سے سرشار اسلام کی عظیم تحریک اسلام کے نام پر قربان ہوگئی۔
مرزا غلام احمد قادیانی1839ءیا 1840ءمیں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے ۔خاندانی نمک خواری کے اثرات کا اظہار بعد میں اس طرح ہوا کہ مرزاقادیانی نے بدیسی انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے دیا اور انگریز کی حکومت کو اللہ کا سایہ اور خود کو اس کا خود کاشتہ پودا قرار دیا ۔”بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ؟سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے ،کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین واجب ہے ، اس سے جہاد کیسا ؟سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بد کار آدمی کا کام ہے ۔“(شہاد ت القرآن ،ص54)
1929ءتک علماءنے علمی مباحثوں اور مناظروں کے ذریعے قادیانیت کا مقابلہ کیا ،جو علماءاس میدان میں مرزا غلام احمد قادیانی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے ان میں مولانا ثناءاللہ امرتسری ،مولانا لطیف اللہ علی گڑھی ،مولانا احمد حسن دہلوی ،شیخ الہند محمود حسن ،علامہ انور شاہ کشمیری ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا عبداللہ لدھیانوی ،محمد اسماعیل ،مولانا محمد علی مونگیری ،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف رحمہم اللہ تعالیٰ شامل ہیں ۔
1929ءمیں حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ ،چودھری افضل حقؒ ،شیخ حسام الدین ؒ،ماسٹر تاج الدین انصاریؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ نے مجلس احراراسلام کی بنیاد رکھی ۔احرار کے قیام کے چند ہی دنوں بعد تحریک کشمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہاں قادیانیوں نے کشمیریوں سے ہمدردی کے نام پر اپنی کفریہ سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں ۔قادیانیوں کے خلیفہ مرزا بشیر الدین نے کشمیر کمیٹی بنائی اور اس میں حضرت علامہ اقبال ؒ کو بھی شامل کیا۔ پنڈت نہرو کو بھی قادیانیت کے بارے میں دھول جھونکنے کےلئے اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ۔احرار کی تحریک پر علامہ اقبال ؒ نے قادیانیت کا بغور مطالعہ کیا اور پنڈت نہرو کو قادیانیت کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں اپنے ایک خط میں لکھا”قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں ۔“مولانا ظفر علی خان نے صحافت کے ذریعے اس فتنے کا تعاقب کیا ۔ روزنامہ ”زمیندار “اس مقصد کے لئے وقف تھا ۔
احرار کے قیام سے قبل جتنی بھی کوششیں ہوئیں‘ وہ ساری علمی اور انفرادی سطح کی تھیں ۔قادیانیوں کے خلاف منظم تحریک احرار ہی نے اپنے قیام کے بعد چلائی ۔1930ءمیں محدث اعظم حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے انجمن خدام الدین لاہور کے سالانہ جلسے کے موقع پر پانچ سو علماءکی موجودگی میں سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کو” امیر شریعت “کا لقب عطا فرمایا اور قادیانیت کے خلاف جدو جہد کرنے کے لئے امیر شریعت حضرت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ ؒکے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کی اقتداءمیں پانچ سو جید علماءنے اس عظیم الشان اجتماع میں شاہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
اب امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ نے اپنی زندگی کو دو کاموں کے لئے وقف کردیا ایک عقیدہ¿ ختم نبوت کا تحفظ اور دوسرا ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء۔احرار نے قادیانیت کا باقاعدہ اور منظم اندازمیں تعاقب کرنے کے لےے عوامی اجتماعات منعقد کرنے شروع کردیئے ۔قادیان میں جس کو قادیانی امت نے ایک علیحدہ ریاست بنا رکھا تھا ،اپنا ایک دفتر قائم کیا ،مستقل طور پر شعبہ¿ تبلیغ کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی مسجد و مدرسہ قائم کردیا 23,22,21اکتوبر 1934ءکو حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کی صدارت میں قادیان میں عظیم الشان” ختم نبوت کانفرنس“ منعقد کرنے کا اعلان کیاگیا۔ مرزا بشیر الدین کی درخواست پر انگریز حکومت نے قادیان کی میونسپل حدود میں دفعہ144 نافذ کردی ۔احرار نے شہر کی حدود کے باہر یہ کانفرنس منعقد کی۔جس میں کراچی سے راس کماری تک کے دو لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی ۔قیام پاکستان کے بعد مجلس احراراسلام نے اپنی سیاسی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا اور اپنی تمام تر طاقت تبلیغی و اصلاحی امور اور استحکام پاکستان کے لئے وقف کردی ۔احرار نے قیام پاکستان تک کیا کیا قربانیاں دیں اور انگریز کو اپنے اقتدار کا ٹاٹ لپیٹنے پر کیسے مجبور کیا ؟پاکستان کے قیام کے بعد قادیانیوں نے ربوہ (حال چناب نگر )کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور نئے طریقوں سے اپنا جال پھیلانا شروع کردیا ۔پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی کو بنایا گیا ۔اس نے اپنے سرکاری منصب کا اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے بے دریغ استعمال کیا ۔
قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوںکا سد باب کرنے کے لئے امیر شریعت سید عطاءا للہ شاہ بخاری ؒ کے ایماءپر مولانا لعل حسین اختر نے ۳جون ۲۵۹۱ءکو تمام مکاتب فکر کی مجلس مشاورت بلائی ،تاکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اس نئے فتنے کا سد باب کیا جاسکے ۔اس مشترکہ مجلس نے ذیل کے مطالبات مرتب کےے:
(1) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاجائے ۔
(2) ظفر اللہ قادیانی کو وزیر خارجہ کے عہدے سے علیحدہ کیاجائے ۔
(3) تمام کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایاجائے ۔
1952ءکو قادیانیوں نے اپنا سال قراردیا ۔بلوچستا ن کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم قادیانی سٹیٹ بنانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔ 1952ءکی آخری رات امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ نے چنیوٹ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ۲۵۹۱ءگزر چکا ہے اور قادیانیوں کی تمام پیش گوئیاں جھوٹی قرار پاتی ہیں ۔اب میں اعلان کرتا ہوں کہ1953ءتحفظ ختم نبوت کا سال ہے ۔مجلس احرار اسلام کی تحریک پر کراچی میں قائم ہونے والی کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے تحت پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف بھر پور احتجاجی مہم شروع ہوگئی ۔یہ مہم دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان تحریک میں بدل گئی ۔اس تحریک میں مجلس احرار اسلام ،جمعیت علمائے اسلام ،جمعیت علمائے پاکستان ،تنظیم اہل سنت ،جمعیت اہل حدیث ،جماعت اسلامی اور حزب اللہ شامل تھیں ۔خواجہ ناظم الدین نے اس تحریک کو اپنے اور دولتانہ کے خلاف سمجھا اور اس کو کچلنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور لاہور میں جزوی مارشل لاءلگادیا گیا ۔پورے ملک میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کوجیلوں کی نذرکیاگیا۔قائدین جب جیلوں سے رہاہوکر آئے تو فضا بہت تبدیل ہوچکی تھی۔امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کوبڑھاپے نے آن لیا۔عاشقانِ ختم نبوت نے ذراآرام کے بعد تحریک کونئے سرے سے منظم کرنا شروع کردیا۔دھیرے دھیرے پورے ملک میں تبلیغی طرز پر کام چلتا رہا۔آخر کار 1973ءمیں آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردے کر بارش کے پہلے قطرے کاکام کیا۔ملک بھر میں خوشی اور مسرت کے شادیانے بجائے گئے ۔قائد ِ احرار ،جانشین امیر شریعت سید ابومعاویہ ابوذر بخاری ؒ نے آزاد کشمیر اسمبلی کومبارک باددی ۔سردار عبدالقیوم خان صدر آزاد کشمیر ،ان کے رفقاء،اراکین اسمبلی اور کشمیری مسلمانوں کوقلب وجگر کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیہ¿ تحسین وتبریک پیش کیا۔
اس فیصلے نے مسلمانوں کوایک ولولہ ¿ تازہ دیا۔دوسری طرف مئی 1974ءمیں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباءکاایک گروپ سیروتفریح کی غرض سے چناب ایکسپریس سے پشاور جارہاتھا‘جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے اپنے معمول کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کی خرافات پر مبنی لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔نوجوان طلباءاس سے مشتعل ہوگئے ۔طلباءاور قادیانیوں کے مابین توتکار ہوگئی۔طلباءنے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ قادیانیوں نے اس وقت تو اس گروپ کوجانے دیا اور اپنے خفیہ ذرائع سے اس کی واپسی کی تاریخ کاپتا لگوایا۔واپسی پر 29مئی کو طلباءجب ربوہ پہنچے تو قادیانی دیسی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر طلباءپر ٹوٹ پڑے اور جس ڈبے میں یہ گروپ سوار تھا ‘اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔انہوں نے طلباءکو نہایت بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔طلباءلہولہان ہوگئے ۔ان کا سامان لوٹ لیاگیا۔آناً فاناً یہ خبر فیصل آباد پہنچ گئی۔تحفظ ختم نبوت کے مقامی رہنما مولانا تاج محمود ایک بہت بڑا جلوس لے کر فیصل آباد سٹیشن پر پہنچ گئے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی‘اس لیے ہزاروں شہری پہلے ہی سٹیشن پر موجود تھے۔مسلمانوں نے اس کھلی غنڈہ گردی پر زبردست احتجاج کیا اور طلباءکی مرہم پٹی کرائی گئی۔اگلے روز یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر جگہ مظاہروں کاایک طوفان امڈپڑا۔اس واقعہ پر اسلامیانِ پاکستان کے احتجاج نے تحریک ختم نبوت کو نئی جہت دی۔عوام کے اس پرزور احتجاج پر حکومت کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ۔پنجاب اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد نے اس واقعے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے فرمایا:”ختم نبوت کی دینی حیثیت کے متعلق تمام مسالک کے علماءمتفق ہیں کہ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں“۔
9جون 1974ءکولاہور میں مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ کی صدارت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا اجلاس منعقد ہوا ۔اجلاس میں شرکت کرنے والے علماءمیں قائداحرارسید ابو معاویہ ابو ذر بخاریؒ ،مولانا عبید اللہ انور ،ؒ مولانا مفتی محمود ؒ ،مولانا محمد شریف جالندھری ؒ مولانا عبدالستار خان نیازی ؒ ،مولانا شاہ احمد نورانی ؒاور چودھری ثناءاللہ بھٹہ ؒخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔جبکہ نوابزادہ نصر اللہ خان ؒاور آغا شورش کشمیری ؒبھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ اس موقع پر باقاعدہ طور پر مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل دی گئی ۔مولاناسید محمد یوسف بنوری ؒ کو اس کا کنوینر مقرر کیاگیا ۔ مستقل انتخاب کے لےے 17جون کو فیصل آباد میں تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا ۔یہ اجلاس بھی مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی صدارت میں منعقدہوا ۔اس اجلاس میں شرکت کرنے والی جماعتوں میں مجلس احرار اسلام ،مجلس تحفظ ختم نبوت ،جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے پاکستان ،حزب الاحناف ،جماعت اسلامی ،جمعیت اہل حدیث ،مسلم لیگ اور پاکستان جمہوری پارٹی شامل تھیں ۔اس موقع پر جو ایکشن کمیٹی تشکیل پائی ، اس کے کنوینر سید محمد یوسف بنوری ؒ جبکہ سیکرٹری جنرل صاحبزادہ محمود احمد رضوی ؒ کو منتخب کیا گیا ۔اجلاس میں انتخاب کے حوالے سے کئی مشکل مرحلے آئے ،مگر سید ابو معاویہ ابوذر بخاری ؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ کی گہری بصیرت سے استفادہ کیا گیا اور تمام معاملات نہایت خوش اسلوبی سے طے پا گئے ۔
اس کے بعد مجلس عمل کے قائد مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ ،سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری ؒ ،صاحبزادہ محمود احمد رضویؒ ، آغاشورش کاشمیری ؒ ،مولانا شاہ احمد نورانی ؒ اور دیگر درجنوں علمائے نے مجلس عمل کے مطالبات کی راہ ہموار کرنے کے لئے پورے ملک کے دورے کئے ۔قادیانی اس تحریک سے بلبلا اٹھے اور مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے ہراساں کرنے کے لئے کئی جگہ دستی بموں سے حملے کئے ۔حکومت نے ابتدائی طور پر تحریک کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔مرکزی اور مقامی سطح پر قائدین کی گرفتاریاں شروع کردیں ۔جناب آغا شورش کاشمیریؒ کو گرفتار کرلیا گیا ۔ان کے ہفت روزہ” چٹان “کو بند اور پریس کو سیل کیا گیا ۔ حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کے صاحبزادے سید عطاءالمحسن بخاری ؒ کو پابند سلاسل کردیا گیا ۔قائدین کی اکثریت تحفظ ناموس رسالت اکے مطالبے کی پاداش میں جیل کی نذر ہوگئی مگر ان تمام معاملات نے تحریک کو ایک نئی جلا بخشی ۔
طلباءتنظیمیں بھی میدان میں آگئیں ۔جمعیت طلباءاسلام ،تحریک طلباءاسلام ،انجمن طلباءاسلام ،اسلامی جمعیت طلباءنے اس تحریک میں زبردست کردار اداکیا ۔تحریک طلباءاسلام کے مرکزی صدر ملک رب نواز چنیوٹی اپنی پر جوش تقریروں کی وجہ سے حلقے میں بہت زیادہ مشہور تھے ،حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا ،مگر تحریک پھیلتی چلی گئی ۔بالآخر حکومت نے قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اقتدار جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے سانحہ ربوہ اور قادیانی مسئلے پر سفارشات مرتب کرنے کے لئے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قرار دیا ۔جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا ،جس پر اٹھائیس معزز اراکین اسمبلی کے دستخط ثبت تھے اور یہ بل حزب اختلاف کی طرف سے تھا ۔ان دنوں حزب اختلاف کے قائدمولانا مفتی محمود ؒ تھے ۔صاحبزادہ فاروق علی خان کی صدارت میں قادیانی مسئلے پر ایوان میں بحث شروع ہوگئی ۔قادیانی اور لاہوری گروپ نے اپنے اپنے محضر نامے پیش کیے ۔
قادیانی گروپ کے جواب میں ”ملت اسلامیہ کا مو¿قف“نامی محضر نامہ تیار کیا گیا ۔حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کی قیادت میں مولانا محمد شریف جالندھری ؒ ،مولانا محمد حیات ؒ ،مولانا تاج محمود ؒ ،مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے حوالہ جات کی تدوین کا کام کیا ۔مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سمیع الحق نے ان حوالہ جات کو ترتیب دے کر ایک خوبصورت کتاب مرتب کرلی ۔چند دنوں میں یہ محضر نامہ تیار ہوگیا،جس کو مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ نے قومی اسمبلی میں پڑھا ۔لاہوری گروپ کے جواب میں حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ نے مستقل طور پر محضر نامہ تیارکیا ۔قادیانی گروپ کے سربراہ مرزا ناصر کو قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مو¿قف پیش کرنے یا سوالات اور جوابات پر جرح کے لئے بلایا گیا ۔5سے 11 اور20 سے21اگست 1974ءتک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد قادیانی پر جرح ہوئی۔ 27اور28اگست لاہوری گروپ کے صدر الدین، عبدالمنان عمر اور سعود بیگ پر ہرروز جرح ہوئی ۔6,5ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحییٰ خان بختیار نے بحث کو سمیٹا ۔ انہوں نے دو روز تک اراکین قومی اسمبلی کے سامنے اپنا مفصل بیان پیش کیا ۔
7ستمبر 1974ءکو 4 بج کر35 منٹ پر قادیانیوں کے دونوں گروپ مرزا ئی اور لاہوری گروپ کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیااور عبدالحفیظ پیر زادہ نے آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا ۔یہ بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تو حزب ِ اختلاف اور حزب اقتدار کے ارکان فرط مسرت سے آپس میں بغل گیر ہو گئے ۔پورے ملک میں اسلامیان پاکستان نے گھی کے چراغ جلائے ۔یہ دن ہمیں اپنے اسلاف کی بے مثال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے ،جن کی برکت سے قادیانی غیر مسلم اقلیت قرارپائے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت 1974ءکی آئینی ترمیم اور1984ءکے امتناع قادیانیت صدارتی آرڈیننس پر نیک نیتی کے ساتھ مو¿ثر طور پر عملدر آمد کرائے ،مرزائیوں کو اپنی متعینہ حیثیت کے اندر رہنے کا پابند بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کرے ۔اس وقت بر صغیر میں اس مسئلے کی داعی جماعت مجلس احرار اسلام اور اس کے شعبہ¿ تبلیغ تحریک تحفظ ختم نبوت کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ ....عقیدہ¿ ختم نبوت کے تحفظ اور مرزائیت کے استیصال کے لئے کام کر رہی ہے ،جبکہ بعض شخصیات اور علاقائی ادارے بھی اس محاذ پر بڑی محنت کررہے ہیں ۔
محمدعابد مسعودڈوگر
فضل دین ٹریڈرز
جامع مسجد بازار
 چیچہ وطنی ضلع ساہیوال



No comments:

Post a Comment