Sunday, September 18, 2016

عالمی سفارتی حلقوں میں اب یہ راز ہر اعتبار سے اور ہر سطح پر فاش ہوچکا ہے کہ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کا تہیہ کرچکا ہے ۔ اس ضمن میں اس کو جنوبی ایشیا سمیت کرئہ ارض کے امن کی کوئی پروانہیں اور وہ خطے کے دیگر ممالک کی خود مختاری ،آزادی اور سلامتی کے حوالے سے بھی تسلیم شدہ عالمی و سفارتی قوانین کا احترام کرنے کےلئے ہر گز تیار نہیں ۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے وہ بڑے ممالک کو فریب اور چھوٹے ممالک کو دھونس، دھمکی اور لالچ دینے کی پالیسی اختیار کیئے ہوئے ہے ۔ اس کا ایک مظاہرہ حال ہی میں یوں ہوا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے بھارت کے دوروزہ دورے کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان دہلی میں تین معاہدوں پر ستخط کئے گئے جس میں بھارت اور افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں کےلئے ایک بلین ڈالر کی مالی امداد کا وعدہ کرتے ہوئے طے پایا کہ دونوں ممالک کو ایسے عناصر تک رسائی حاصل ہوگی جو جرائم اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بظاہر گر مجوشی اور قربت کا جو مظاہرہ کیا گیا اس کے پیچھے کار فرما بھارتی سفارتی فریب کاری کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نئی دہلی آئے تھے تو بھارتی قیادت کی طرف سے انتہائی سرد مہری اور بے اعتنائی سے کام لیا گیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ تب افغان صدر اپنے اثر ورسوخ استعمال کرکے ان کو مذاکررات کی میز پر لانے میں کا میاب ہوگئے تھے۔ بعد ازاں کا بل اور نئی دہلی کے درمیان رابطے میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور مبصرین کے مطابق اس سلسلے میں امریکا نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم نریندرا مودی کے درمیان اب تک 8مرتبہ ملاقاتیں ہوچکی ہیں جبکہ ٹیلی فون اور ویڈیو کانفرنس سے ہونے والے روابط اس کے علاوہ ہیں۔ بھارتی قیادت نے جنوبی ایشیا میں اپنی سیاسی اور عسکری بالادستی قائم کرنے کےلئے اپنی جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھانا شروع کررکھا ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہی بھارت نے روس، امریکا اور جاپان کے ساتھ دفاعی اور عسکری شعبوں میں ایسے معاہدے طے کئے ہیں جن کی تفصیلات کا مطالعہ اور تجزیہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا ” تھانیدار“ بننے کےلئے بے قرار ہے ۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی نے ٹوکیو کے ساتھ ایک فوجی معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت جاپان نے بھارت کو 1.6بلین امریکی ڈالر مالیت کے شن میواطیارے نہایت ارزاں دام پر فروخت کرنے کا وعدہ کیا جسے چین کی طرف سے انتہائی شرمناک اور افسوسناک عمل قرار دیا گیا۔ قبل ازیں 29اگست کو بھارت اور امریکا اس وقت لاجسٹک اتحادی بن گئے جب دونوں ممالک نے اس ملٹری لاجسٹک معاہدے پر دستخط کردیے جس کے تحت بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے زمینی ، فضائی اور بحری فوجی اڈے استعمال کریں گے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے ساتھ پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی گہری فوجی شراکت داری ، دفاعی ٹیکنالوجی اور جدت میں تعاون تک دونوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکا نے بھارت کو دفاع ، تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں قریبی شراکت داروں میں شامل کرلیا ہے اور ان معاملات پر بھارت کے ساتھ اشتراک پر بھی اتفاق رائے ہوگیا ۔ جولائی میں دہلی میں ہونے والی ملاقات میں پانچ نئے مشترکہ گروپوں کی تشکیل کی بات کی گئی ان میں نیول سسٹم ، ہوائی سسٹم ، انٹیلی جنس ، نگہداشت اور دشمن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے والے گروپ ، کیمیائی اور حیاتیاتی تحفظ اور دیگر سسٹم شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک امریکی جریدے ”فوربز“ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ بھارت اور امریکا بڑے جنگی معاہدے پر دستخط سے چین اور پاکستان چوکنا ہیں، امریکا عنقریب انڈین پیسفک میں اپنے 60فیصد سے زائد بحری جنگی جہازوں کو تعینات کرے گا۔ امریکا بھارت کو ”بحرجنوبی چین “ کے تناظر میں چین کے خلاف لاجسٹک اتحادی بنائے گا۔ حالیہ دنوں میں بھارت اور روس کے درمیان بھی عسکری شعبے میں متعدد منصوبوں میں تعاون کےلئے پیشرفت ہوئی ہے ۔ روس کی ایک جہاز ساز کمپنی نے بھارت میں اپنی مینوفیکچرنگ بیس قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور دوسری طرف یہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر کا موو (KAMOVE)ہیلی کاپٹر تیار کرنے کے سلسلے میں مذاکرات شروع کررہے ہیں۔ ماہ رواں کے آغاز میں روس نے بھارت کو چار سٹیلتھ فریگیٹ فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ بھارت کی طرف سے کئی بار کروز میزائل خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی گئی ۔ واضح رہے کہ روس نے 1960ءسے اب تک بھارت کو 65بلین ڈالر مالیت کی فوجی گاڑیاں فروخت کررکھی ہیں۔ ان حقائق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت اپنے توسیع پسند انہ عزائم کےلئے عسکری سطح پر جنونی انداز میں سرگرم عمل ہے ۔ اس مقصد کےلئے وہ دنیا کی کسی بھی بڑی طاقت کا مرغ دست آموز بننے کےلئے ہمہ وقت تیار ہے ۔ اس تناظر میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور بحیرئہ جنوبی چین کے معاملے میں چین کی درپردہ مخالفت کرتے ہوئے امریکا کا راستہ ہموار کرنے ایسی کوششیں نہایت قابل غور ہیں۔ نئی دہلی کی پالیسی ساز شخصیات اور ادارے اس حقیقت سے یکسر بے خبر اور بے پروا ہوچکے ہیں کہ وقت اور مورخ کی نگاہوں میں موجودہ بھارتی قیادت کا کیا مقام اور حیثیت متعین ہورہی ہے ۔ 
تحریر: شازیہ فاطمہ 

No comments:

Post a Comment