اسلام کے نام پر برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی جس کے نتیجے میں انہیں لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور کروڑوں روپوں کی جائیداد اور تجارت کا نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ سے قوم کو جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، لیڈران قوم پر نوکر شاہی نے غلبہ پالیا اور محلاتی سازشیں روزمرہ کا معمول بن گئیں یہ حالات تحریک پاکستان کے رہنماو ¿ں، علمائے اہلسنت کے لئے تشویش کا باعث تھے لہٰذا قیامِ پاکستان کے اصل مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جمعیت علمائے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جو دراصل نظریہ پاکستان کے تحفظ اور نفاذ نظام مصطفی ﷺ کے لئے تھا اور اس پلیٹ فارم کے تحت علماءومشائخ اور عوام اہل سنت کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لئے تحریک کا آغاز ہوا۔ شروع شروع میں یہ کوشش کی گئی کہ صاحبان اقتدار کو راہِ راست پر لایا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے لئے حقیقی معنوں میں ایک مثالی وفلاحی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائیں لیکن سعیءلا حاصل کے سوا کچھ نہ ہوسکا۔ جب اس ملک میں اسلام کے علاوہ سوشلزم اور کمیونزم کے نعرے لگے اور جلاو ¿ اور گھیراو ¿ کی سیاست کا آغاز ہوا تو 1970ئ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کل پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ہزاروں علماءاور مشائخ سمیت لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی اور ایک نئے عزم کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کا عہد کیا گیا۔ اسی وقت جمعیت نے اپنا یہ اصول مرتب کیا۔
مقام مصطفی کا تحفظ .... نظام مصطفی کا نفاذ
جمعیت اس ملک کا مقدر نظام مصطفی سے وابستہ سمجھتی ہے وہ پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، روحانی ریاست بنانا چاہتی ہے معاشرہ کو استحصالی قوتوں سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ دین مصطفی ﷺ کا ہر شعبہءزندگی میں عملی نفاذ چاہتی ہے مختلف طبقات اور گروپوں اور وفاق پاکستان کے مختلف صوبوں کو ان کے جائز حقوق دلانا چاہتی ہے۔
عصبیت، فرقہ واریت، گروہی اور لسانی اختلافات کو مسلمانوں کے لئے سم قاتل تصور کرتی ہے۔
جمعیت، پاکستان کے عوام اہل سنت کو جو اس ملک کی عظیم اکثریت ہیں حکومت کرنے کا اخلاقی اور مسلمہ جمہوری بنیادوں پر حقدار تصور کرتی ہے۔
جمعیت، مسلمانوں کے درمیانی، لسانی، گروہی، صوبائی اور ثقافتی بنیادوں پر قومیتوں کے نعروں کے انتشار اور اختلافات کا سرچشمہ تصور کرتی ہے اور اسے اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک سازش تصور کرتی ہے۔
جمعیت علامہ اقبال کے قول کے مطابق اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
پاکستان میں لسانی، صوبائی اور گروہی عصبیتوں نے جو گل کھلایا ہے اس نے پاکستان کے مسلمانون کی گردنیں شرم سے جھکادی ہیں۔
.... انہی عصبیتوں نے پاکستان کو دو ٹکڑے کیا۔
.... یہی عصبیتیں سندھ میں پروان چڑھائی گئیں۔
.... مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا بن چکا ہے۔
جمعیت قومیتوں کے نام پر سیاسی دکان چمکانے والوں سے یہ سوال کرتی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو کیا دیا؟ کس قوم کو کیا حقوق ملے؟ کتنے مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں، کتنے بچے یتیم ہوئے۔ کتنے خاندانوں کے کفیل دنیا سے رخصت ہوئے، کتنی ماو ¿ں کے لعل ان سے چھینے گئے، کتنے سہاگ لٹ گئے....؟
جمعیت، عامة المسلمین سے بالعموم اور عوام اہل سنت سے بالخصوص یہ سوال کرتی ہے کہ آپ نے قومیت کے نعرے سے مسحور ہوکر دین اور معاشرہ کی کیا خدمت کی ہے۔؟
قومیت کا نعرہ لگانے والوں نے اسلام کا مذاق اُڑایا، علماءکی توہین کی، پاکستان کے نظریہ کو متزلزل کیا، مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں تفریق پیدا کرکے نفرت کا بیج بویا، اسلحہ کی نمائش کرکے فسطائیت کو فروغ دیا، غنڈہ گردی کرکے شرفاءکی پگڑی اُچھالی، جوانوں پر ملازمت کے دروازے بند کئے گئے کروڑوں روپوں کی جائیداد اور تجارتی مال کا نقصان کرایا، پولیس اور فوج کو من مانی کرنے کی اجازت دی۔ بالواسطہ طور پر پاکستان میں غیر جمہوری حکومت کی پشت پناہی کی، عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کرکے مارشل لاءکو تقویت پہنچائی۔
قوم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کو ان کے جائز حقوق تب ملیں گے
۱۔ جب منصفانہ طور پر آئین کے تحت منتخب ہونے والے عوام کا اقتدار ہوگا۔
۲۔ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا قانون عملی طور پر نافذ ہوگا۔
۳۔ جب حکمران اور عوام دونوں احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
۴۔ جب کہ حقوق کے معاملہ میں سب کو مساوی تصور کیا جائے گا۔
۵۔ جب کہ اسلامی حکومت ہر شہری کے جان ومال اور مکان کا تحفظ کی ذمہ دار ہوگی۔
۶۔ جب کہ ہر شہری کی کفالت کا بندوبست لازمی طور پر کیا جائے گا۔
۷۔ جب کہ سستے اور جلد انصاف کا مساوی انتظام کیا جائے گا۔
۸۔ جب کہ بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور بلاتفریق ہر ایک کو روزگار مہیا ہوگا۔
”جمعیت کا اعلان ہے“
ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں۔
پھر ہم سب پاکستانی ہیں۔
ہر صوبہ میں ہماری رہائش ایک وفاق میں رہتے ہوئے صرف ہماری شناخت ہے نہ کہ کوئی قومیت۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ
.... آپ امن وآشتی کی زندگی گزاریں۔
.... آپ کا معاشرہ استحصال اور بدعنوانیوں سے پاک ہو۔
.... آپ کے جائز حقوق نہ صرف دیے جائیں بلکہ اس کا عدالتی تحفظ بھی ہو۔
.... آپ کی تعلیم وتربیت کا صحیح بندوبست ہو۔
.... آپ کی معاشی ضروریات پوری ہوں۔
.... عدالتی انصاف میں غریب وامیر، حاکم اور محکوم کا فرق مٹ جائے۔
.... پولیس اور نوکر شاہی کے ظلم سے آپ کو نجات ملے۔
.... معاشرہ میں آپ کو جائز مقام ملے۔
.... دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔
تاکہ
آمدنی کے تفاوت کو کم سے کم کیا جائے۔
اور
آپ کے عقیدہ اور مسلک کا تحفظ ہو
تو
آئیے جمعیت علمائے پاکستان کے منشور کا مطالعہ کرکے جمعیت میں شامل ہوجائیے اور اس ملک کو بچانے اور اسے حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، فلاحی اور روحانی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے تاکہ اس جہاں میں بھی اور پھر دوسرے جہان میں بھی آپ کو سرخروئی حاصل ہو۔
دیکھئے اپنے پیارے نبی ﷺ کے ان پیارے اقوال کو اپنے ذہن میں رکھیئے، مرنے کے بعد قومیت کا سوال نہیں ہوگا بلکہ عقیدہ اور مذہب اور نبی سے قربت کا سوال ہوگا۔
”جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم سے نہیں
جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں
جس نے عصبیت پر جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں“ (حدیث متفق علیہ)
حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
”مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک میں مبتلا ہوجاو ¿ گے بلکہ پریشانی یہ ہے کہ تم آپس میں لڑ کر ہلاک ہوجاو ¿ گے“
جمعیت علماءپاکستان کے منشور کے بنیادی نکات
٭ اسلامی، پارلیمانی اور فلاحی حکومت کا متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت قیام۔
٭ نظامِ مصطفی ﷺ کا ہر شعبہءزندگی میں مکمل نفاذ اور مقام مصطفی ﷺ کا تحفظ۔
٭ ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور عدالتی ضمانت۔
٭ ہر شہری کی بنیادی ضرورتوں، غذا، لباس، مکان، تعلیم اور صحت کی مکمل ضمانت۔
٭ تمام غیر اسلامی اور غیر جمہوری قوانین کا خاتمہ۔
٭ بے روزگاری کا انسداد، افرادی قوت کی مناسب تنظیم اور منافع میں مزدوروں کی شراکت۔
٭ عام لوگوں کی قوت خرید اور اشیائے ضرورت کی قیمت فروخت میں توازن پیدا کرنے کے لئے ایک مستقل جائزہ کمیٹی کا قیام۔
٭ جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ، ملک کی لاکھوں ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنا کر بے زمین یا گزارہ یونٹ سے کم زمین رکھنے والوں میں تقسیم کرنا، ہاریوں اور کسانوں کے حقوق کا مکمل تحفظ۔
٭ دیہی علاقوں کے بے گھر افراد کو کم از کم سات مرلے پلاٹ کی فراہمی اور مکان کی تعمیر کے لئے قرض حسنہ جاری کرنا کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا۔
٭ شہروں میں زیادہ سے زیادہ 600 مربع گز پر مکان کی تعمیر کی اجازت دینا۔
٭ دیہاتوں کو اس طریقے پر ترقی دینا کہ آبادی کا شہروں میں منتقل ہونے کا رجحان کم سے کم ہوجائے۔
٭ مزدوروں کو انجمن سازی اور سودا کاری کا غیر مشروط حق اور ان کے تمام بنیادی حقوق کا تحفظ۔
٭ پریس اینڈ پبلی کیشن سے متعلق تمام غیر جمہوری قوانین کا خاتمہ۔
٭ پورے ملک میں ایک ہی سطح کا تعلیمی نظام، ثانوی درجے تک تعلیم مفت اور پرائمری سطح تک تعلیم لازمی۔
٭ ہر نوجوان کے لئے لازمی فوجی تربیت اور فوج میں صوبائی کوٹے کا قیام۔
٭ عالم اسلام کے اتحاد کی کوشش، مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے قابل عمل اقدام۔
٭ بالکلیہ آزاد عدلیہ کا قیام جو بلاروک ٹوک انصاف کے تقاضے پورے کرسکے۔
٭ خواتین کے جائز حقوق کا تحفظ
٭ سقوط مشرقی پاکستان کی ازسرنوتحقیقات
٭ نوکر شاہی اور پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلی
٭ ہر سطح پر احتساب کا مو ¿ثر نظام
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر منشور کسی جماعت کے پاس نہیں قوم پاکستان میں سیاستدانوں کے پرفریب نعروں سیکولر ازم، سوشل ازم، لبرل ازم اور دیگر نظاموں کو آزما چکی ہے لہٰذا اب قوم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ان کی تقدیر سنور سکتی ہے تو اس کا واحد ذریعہ صرف اور صرف نظامِ مصطفی ﷺ کا نفاذ ہے۔ جس کے لئے جمعیت علماءپاکستان اول روز سے جدوجہد کررہی ہے۔ آئیے اس کا دست وبازو بنئے تاکہ قیام پاکستان کا اصل مقصد حاصل ہو اور ملک میں اسلامی فلاحی مملکت کا قیام ممکن ہوسکے۔
از : محمد شکیل قاسمی

No comments:
Post a Comment