ملک میں جاری سےاسی گرما گرمی کا محور کرپشن کے گرد گھومتا نظر آتا ہے جہاں تقریبا تمام جماعتیں ایک دوسرے کو یہ الزام دے رہی ہیں کہ دوسرا سب سے بڑا کرپٹ ہے اس الزام میں کتنی سچائی ہے اس بارے میں تو کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگریہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہی ہے جس نے پاکستان کو زوال پذیر کیا ہواہے ماضی میں بھی پانامہ لیکس جیسے کئی بڑے کیسز سامنے آئے مگر ان پرکیا پیشرفت ہوئی ہے فائےلےں کےوں اور کس کے کہنے پر بند ہوئی ےہ ساری قوم بخوبی جانتی ہے ملک کے وہ ادارے جنھوں نے اس کرپشن کو ختم کرنا ہوتاہے وہ خود سےاست کا شکار ہو کر غےر فعال ہو گئے جس کی وجہ سے وہ نظام قائم نہےں ہو سکا جس سے اس لعنت سے چھٹکارا مل سکتا پاکستانی عوام اس کرپشن ،کرپشن کی رٹ سے اس قدر اکتا چکے ہیں کہ وہ اسے اپنی ناکامی سے تعبیر کرتے نظر آتے ہے جو حقیقت بھی ہے سوال یہ ہی کہ کےاا س کرپشن کا سد بابب ہو سکتا ہے ےہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی پوچھتا نظر آتا ہے اس کا بڑا سادہ اور واضح سا جواب ہے کہ ہاں اس کا علاج ممکن ہے اور اس کے لئے شفافیت اور احتساب ہی سب سے معتبر علاج ہے اور ساتھ ہی دوسرا سوال پےدا ہوجا تا ہے کہ اختساب کرئے گا کون ؟اس سوال کے بارے میں کافی ابہام ہے کیونکہ وہ ادارے جو اس احتساب کے لئے بنائے گے تھے وہ اس طرح کا کردار ادا نہیں کر رہے جیسا ان کو کرنا چاہے کرپشن بذات خود ناصرف اےک بےماری ہے بلکہ ٓئہ کئی بےمارےوں کی جڑ ہے ےہ لعنت اقتصادی ترقی اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری، سماجی ، معاشرتی ترقی یا ادارہ جاتی بہتری ان میں شفافیت اور احتساب کے موثر نظام کے بغیر کامیابیوں کی توقع نہیں کی جاسکتی'بدعنوانی کا نظام جب جڑ پکڑتا ہے تو شہریوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے جائز کاموں کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ نظام گہری جڑیں رکھتا ہے پٹواری اور پولیس اہلکار سے لے کر اعلیٰ بیورو کریسی تک بدعنوانی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ وفاقی محتسب سے لے کر نیب تک متعدد ادارے ہمارے ہاں موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی قوم کی توقعات کے مطابق نہیں ہے یہ بدعنوانی کی جڑوں کو نہیں ہلا سکے انہیں کمزور نہیں کر سکے بدعنوانی بھی دہشت گردی کی طرح معاشرے کی ترقی کی دشمن ہے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے اس لئے اس کے خلاف عملی طور پر جنگ کرنے کی ضرورت ہے پوری پاکستانی قوم پانامہ پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میںکارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتی ہے پانامہ پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے مگر کےا ہی اچھا ہوتا اگر اس معاملے کو اس وقت عدالت مےں پےش کر دےا جاتا جس وقت ےہ اےشو اٹھا تھا لےکن شاےد حکومت اس وقت ےہ نہےں جانتی تھی کہ ےہ اس کے لئے اےسی وباءبن جائے گا جس سے وہ انتہائی کمزور پوزےشن پر چلی جائے گی کےونکہ اب وہ ماضی والا دور نہےں رہا اب اگر کسی نے اےک روپے کی بھی ہےرا پھےری کی ہو گی تو اس کو جواب دہ ہونا پڑے گا اس لئے جس پر الزام لگتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ وضاحت پےش کرئے اگر وہ پاک ہے تو اس کو ڈرنے کی ضرورت ہر گز نہےں ہے
پاکستانی قوم آئین کی پاسداری قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر یقین رکھنے والی قوم ہے اس لئے بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار کیا جاتا اب چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں جا چکا ہے اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اس تناظر میں کسی احتجاجی تحریک یا دھرنے کاکوئی جواز نہیں رہتا ہنگامہ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا البتہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے شفاف احتساب کی جانب قوم کی رہنمائی کر سکتا ہے فیصلے کبھی سڑکوں پر نہیں ہوتے بلکہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہوتے ہیں سڑکوں کی سیاست اور محاذ ذرائی نے کبھی جمہوریت کو استحکام دیا نہ مملکت کے لئے مفید ثابت ہوئی البتہ اس نے ہمیشہ ملک کے مفادات اور جمہوریت کو نقصان ضرور پہنچایا ہے جمہوریت میں فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ کو ہوتا ہے یا آئینی اداروں کو کسی فرد واحد کسی پارٹی یا دھرنوں کے ذریعے کوئی فیصلہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سےاسی جماعتےں ملک کی مجموعی سےکےورٹی کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام فےصلوں پر نظر ثانی کرےں اور اےک اےسے وقت مےں جب سرحدوں پر ہمارے دشمن نے جنگ کی صورت حال پےدا کی ہوئی ہے ہمےں اپنے اندر اتفاق اور اتحاد قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی اتحاد کی بدولت ہم اےک اےسی قوم بن سکتے ہےں جو دنےا کی ناقابل تسخےر قوم ہو سکتی ہے ساتھ ساتھ تمام سےاسی جماعتےں چاہئے وہ ن لےگ ہو پی ٹی آئی ہو ےا پی پی پی سب کو ملکر کر اس کرپشن کے بارے مےں کوئی متفقہ لائحہ عمل بنانا پڑئے گا اور اس کے مکمل سد باب کے لئے اےسی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہو گی جس سے اس لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارا مل سکے اور ان اداروں کو سےاست سے پاک کر کے فری ہےنڈ دےنا ہوگا جو اس وباءپر قابو پانے کے ذمہ دار ہےں اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سےاست دان مل کر واضح پالےسی مرتب کرےں تاکہ ہماری آنے والی نسلےں اےک مضبوط اور منظم پاکستان دےکھ سکےں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجہ طاہر محمود
No comments:
Post a Comment