Tuesday, November 22, 2016

لا ئسنس ٹو کل ۔۔۔ قاتل مشینیں یا انسان

جب سے سموگ کا سلسلہ شروع ہوا فضا میں عجیب سی سوگواری ہے لیکن پچھلا ہفتہ اےک اُداسی بھری کیفیت میں گزری اُس کی وجہ ہمارے علاقے میں ہونے والا ایک پچاس سالہ خاتون کی ہلاکت کا واقعہ تھا جو اپنے سولہ سال کے بےٹے کے ساتھ نظر کی عینک بنوانے گئی مگر گھر زندہ واپس نہ آسکی ۔ 
شیخوپورہ روڈ سے لاہور روڈ پر چوبیس گھنٹے ہیوی ٹریفک چلتی ہے۔ٹرالے ،بڑی بسیں ،ٹرالر،ٹرےکٹر،وغیرہ کا عام روٹ ہی یہی ہے ۔سڑک کے اطراف چھوٹی چھوٹی بستیاں مدتوں سے آباد ہیں جن کے لیے اےسے حادثات اب ایک عام سی بات ہے۔مگر ہم جےسے پُر امن علاقے سے حالیہ شفٹ ہوئے لوگوں کے لیے اےسی باتوں کو سن لینا یا برداشت کرنا بہت مشکل ہے خصوصا مجھے اس حادثے سے اُبھرنے میں ایک ہفتہ لگا ۔
بات ہو رہی تھی حادثے کی،دور سے آتے ٹرالر کو دیکھ کر بچے سے بائیک بے قابو ہوکر گر گئی اتنی دےر میں ٹرالے کو پاس آتا دیکھ ماں نے بیٹے کو دھکا مار کر دور کر دیا اور ٹرالر ماں کو کچلتا ہوا گزر گےا ،وہ جب زندہ تھی تو جس سے خفا ہوتی بیٹی سے کہتی میں مر جاﺅں تو اسے میرا منہ نہ دےکھانا وہی بات سچ ہو گئی اُس کا چہرہ کوئی بھی نہ دےکھ سکا کیونکہ چہرہ بچا ہی نہیں ۔اس پر مستزاد کہ وہی ٹرالر آگے جا کر اُسی خاندان کے ایک اور فرد کی ٹانگ کچل گیا اٹھائیس سالہ جوان کی جان تو بخشی گئی مگر ٹانگ ٹوٹ گئی ۔
شاید فرشتہ اجل کی آنکھیں بھی ایک ماں کی قربانی و ایثار دیکھ کر اُسکی جان لینے کے بعد بھر آئی ہوں گی تبھی تو اُس نے حادثے کے اگلے شکار کی روح قبض نہیں کی مگر مجھے حیرت ہے اُس بے حس ڈرائیور پر جس کے ہاتھوں یہ دونوں سانحات رونما ہوئے اور اُس کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔اپنی ڈرائیوری پر نازاں وہ مطلوبہ مقام پر پہنچا ہو گا ہاتھ منہ دھو کر پیٹ بھر کھانا کھاےا ہو گا پھر چرس والے سگریٹ کو کش لگاتے ہوئے سوچ رہا ہو گا مال پہنچانے میں آدھ گھنٹا بھی لیٹ ہو جاتا تو دوسرے ڈرائیور سے ہار جاتا۔گویا اُس کے خیال میں زندگی ہارنے کی کوئی قیمت ہی نہیں ۔یا اڈے پر پہنچ کر ساتھی ہیلپر اور کنڈےکٹر کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہا ہو گا شکر ہوا پولیس یا عوام کے ہتھے چڑھنے سے بچ گئے۔اُسے یہ احساس بھی نہیں ہوگا کہ وہ ایک قاتل ہے کیونکہ اختیار و اقتدار کے نشی نے اُس کے ہوش و حواس خبط کر رکھے ہیں ۔بائیس وہےلر ٹرالر کے ڈرائیورہونے کا اختےار ،مالکان کی طرف سے ہر طرح کے تحفظ و تعاون کی یقین دہانی کا اختےار۔
یہ بڑے بڑے ٹرالر عام طور پر بڑی کمپنی کے لیے ٹرانسپورٹ کا کام سر انجام دےتے ہیں قانونی و غےر قانونی طور پر پشاور ،افغان بارڈر جیسے علاقوں تک مال کی رسائی بہم پہنچائی جاتی ہے ،اگر کوئی ٹریفک اہلکار اسے روک بھی لے تو یہ چالان نہیں ہونے دیتے اور پانچ سے دس ہزار کی رشوت دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں انسانی کھوپڑی پچکا کر ٹائر پر اگر خون لگ بھی جائے تو جتنی گندی سڑکیں ہیں اگلے پانچ منٹ میں وہ نشان بچتے بھی نہیں ۔یہ وہ قاتل ہیں جو ایک مشین کو قاتل بنا رہے ہیں اب میرا سوال ہے ارباب اختےار سے کہ مظلوموں کی داد رسی کےلئے ہے کوئی ؟ میرا سوال ہے دھرنے والوں سے، کیا ان کے خلاف دھرنا ےا احتسابی احتجاج نہیں بنتا ۔ملکی سا لمےت کی فکر کرنے والو قومیں فرد سے بنتی ہیں ایک ایک کر کے جب ہر فرد کچلا جائے گاتو کس قوم کو بچاﺅ گے ؟کس قوم کی ترقی کےلئے دھرنے دو گے؟کبھی ماوﺅں کی گودیں اُجڑتی ہیں کبھی سہاگنیں بیوہ اور بچے یتیم  ہو جاتے ہیں اس طرف کب دھیان دوگے؟میں نہیں جانتی یہ ٹرالر کس کا مال لےکر جاتے ہیں ،میں بس اتنا جانتی ہوں کہ ایک ماں نے اپنے جواں سال بیٹے کو بچا کر خود کو قربان کر دیا وہ جانتی تھی کہ یہ بے حس انسان رُکے گا تو نہیں اور اپنے بھاری بھر کم وجود کوتےزی سے سڑک سے ہٹا بھی نہیں سکوں گی تو چلو بچے کو ہی بچا لوں ۔مگر اُس بچے کی اشکبار آنکھےں اور نڈھال وجود ،نوحہ کناں رہیں کہ ماں نے اےک بار تو بچا لےا اب آگے زمانے کے سرد و گرم سے اور ایسے ٹرالر والوں سے کون بچائے گا ؟
خالی الذہنی کی کیفیت میں مبتلا وہ لڑکا ہر ٹرالر کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاےا کرے گا ہر ماںکا چہرہ دیکھ کر اُسے اپنی ماں کا وہ پچکا ہوا چہرہ ےاد آجائے گا جسے چند لوگ کھرچ کر سڑک سے الگ کر رہے تھے ۔اُسےاد آیگا کہ اُس کی ماں کا وجود ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا ۔پھر سفید کفن میں اور اُسکا آخری دیدار وہ ہی لمحہ تھا جب ماں نے اُسے دھکا دے کر گرایا تھا ،ماں کے انتظار میں کھانا بنا کر انتظار کرنے والی بےٹی نے بھی ماں کو تب ہی دیکھا ہو گا جب ماں نے کہا ہوگا تو کھانا بنا میں عینک بنوا کے آئی ۔
میں خاموش ہوں کیونکہ میری زبان ،میرا ذہن ساتھ ہی نہیں ،کچھ سوچ ہی نہیں پا رہے بس اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اُس دکھ کا جواُن بچوں نے اتنی سی عمر میں دےکھا اور اب تا عمر اُسی دکھ میں زندہ رہنا ہے۔اُس مشفق ماں کو ہنستے ہی دےکھا تھا ۔ مگر جاتے وقت کی وہ بے بس سی مسکراہٹ بےٹے کو کبھی نہیں بھولنے والی جب ماں نے اُسے آخری بار حسرت سے دیکھا ہو گا ، لب مسکرائے ہوں گے کہ میں نے زندگی موت سے لڑ کر جسے پےدا کیا آج اُسے پھر سے زندگی دے کر جا رہی ہوں واہ ماں تےری عظمت تےری قربانی کا کوئی نعم البدل نہیں ۔میں سوال کرتی ہوں آج اُن بےٹوں سے جنھوں نے ٹرالر کو قاتل بنا دیا کہ تمھارے گھر ماں نہیں ؟اُس ماں کے چہرے کو جب چرس کا نشہ اُترتا ہے تب دیکھتے ہو تو اُس ماں کاخیال نہیں آتا ؟جب بیوی بچوں کو دےکھتے ہو تو افسوس نہیں ہوتا ؟تم سے اچھے تو وہ چور ڈکےت اور قاتل ہیں جو جیلوں کی سزا کاٹ رہے ہیں ےاد رکھو وہ تو کبھی نہ کبھی باہر آ جائیں گے مگر اےک بار اگر تمھارے ضمیر نے تمہیں قید دی تو کبھی رہائی نہ پا سکو گے ۔
میں درخواست کرتی ہوں لائسنسگ اتھارٹیز سے کہ چند سکوں کے لیے کسی بھی بدحواس نشئی قسم کے ڈرائیور کو لائسنس نہ دیں ۔میری التجا ہے ٹریفک اہلکاران سے خدارا پانچ دس ہزار کے لیے قاتلو ں کا آلہ کار نہ بنیں،ان کا ڈوپ ٹیسٹ لیا جائے نشے میں ہوں تو گرفتار کیا جائے آبادی کے پاس سے گزرنے کی حدِرفتا ر کم کی جائے ،میری التجا ہے کمپنی مالکان سے کہ خدا کے لےے اِن کو لائسنس ٹو کِل کی اتھارٹی نہ دیں ۔کسی کے نام پر اےشو لائسنس کسی اور کو ےا چھوٹے موٹے گھپلے کر کے جسے کام چلاﺅ کا نام دےا جاتا ہے نہ کریں ۔تا کہ جانی نقصان نہ ہو یا کم تو ہو جائے۔انسانی زندگی کی قیمت سمجھیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے آج کسی کی ماں تھی کل تمھاری ماں بھی ہو سکتی ہے ،انسان کے ہاتھوں نہیں پکڑے گئے تو کم ازکم خدا کی پکڑ سے ڈرو کسی کو روڈ کراس کرنے کے لیے ایک منٹ رُکنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔میں نے اکثر دیکھا ہے ہیوی وہیکل چلانے والے ڈرائیور ،ٹریکٹر ٹرالی والے جان بوجھ کر کر اوچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں گوےا کچلنے والے ہوں پھر اپنی مشاقی سے خواتین کو ڈرتے دیکھ کر اوباشانہ انداز میں قہقہے لگاتے ہیں گویا کوئی بہت نیک کام کیا ہو۔
متعلقہ حکام سے میری گزارش ہے کہ سنجےدگی سے نوٹس لیں اےسی شرارت کا نتیجہ موت بھی ہو سکتا ہے ،اور زندگی کھلونا نہیں ۔
 (عمارہ کنول)

No comments:

Post a Comment