Wednesday, November 9, 2016

وحید مراد کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔

عظیم اداکار وحید مراد 2اکتوبر1938ءکو کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں ہی تعلیم حاصل کی اور اپنی نوعمری کے زمانے سے ہی اپنے والد نثار مراد کے ساتھ جوکہ فلمی انڈسٹری کے فلمساز و تقسیم کار تھے۔ جنہوں نے اپنے ادارے کے تعاون سے سینکڑوں فلمیں فلم انڈسٹری کو دیں۔ اداکار وحید مراد اپنے والد صاحب کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری کے ماحول میں کھیلتے کودتے جوان ہوگئے اور انہوں نے بحیثیت فلمساز جب سے تمہیں دیکھا ہے اپنی فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ بحیثیت ادکار 1962ءمیں فلمساز و ہدایت کار ایس ایم یوسف کی پہلی فلم اولاد میں خوبصورت کردار ادا کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بہت جلد پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اول کے ہیرومیں شامل ہونے لگے۔ انہوں نے اپنی ذاتی فلم ہیرا اور پتھر میں ہدایت کار پرویز ملک ، سہیل رانا، مسرور انور، اپنی ٹیم کے ساتھ فلم بنائی اور اس فلم نے پورے ملک میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے گولڈن جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا یہ فلم 1964ءمیں ریلیز ہوئی ۔ وحید مراد1964 ءسے لر کر 1974ءتک فلم انڈسٹری کے اکلوتے چاکلیٹی ہیرو کی حیثیت سے راج کرتے رہے۔ کچھ عرصے کے لئے فلمساز و اداکاروں کی طرف سے سازشوں کا شکار رہے جس کے باعث زوال پذیر ہونا پڑا۔ وحید مراد نے اپنے 23 سالہ دور میں پاکستان فلم انڈسٹری کو بحیثیت فلم اسٹار و اداکار کامیاب فلمیں دیں اور ان کی فلموں کی اداکاری کی خاص بات یہ تھی کہ وہ گانوں کی پکچرائزیشن میں اپنا منفرد انداز رکھتے تھے برصغیر میں ان کے اسٹائل کو اپنایا گیا اور آج تک پڑوسی ملک میں ان کی فلمیں دکھاکر اپنے نئے ہیروز کو وحید مراد کا اسٹائل اپنانے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ تاکہ وہاں بھی میوزیکل اورور اسٹائل انداز کی فلمیں پیش کی جاسکیں۔ کاش پاکستان فلم انڈسٹری کے فلم ساز بھی وحید مراد کی فن کی قدر کرتے اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو پروان نہیں چڑھنے دیتے کیوں کہ وحید مراد نے فلم انڈسٹری میں کئی سال تک چند سالوں کے علاوہ عروج میں زندگی گزاری اور بعد از مرگ بھی وہ عرج پر ہی رہے آج وحید مراد کو جدا ہوئے 32 سال گذر چکے ہیں اور اس 32سالوں کے دوران وحید مراد اپنے لاکھوں مداحوں کے دلوں پر حکمرانی کررہے ہیں لیکن فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوچکی ہے وحید مراد کی زندگی میں تقریباً80 فیصد سینما ہال شاپنگ سینٹر یا شادی ہالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کاش اس بے حس فلم انڈسٹری کے ناخداﺅں کی روش کو ترک کردیا ہوتا تو یہ فلم انڈسٹری آخری منزل تک نہ پہنچتی۔ آج فلم انڈسٹری لاوارث انڈسٹری کا ماحول پیش کررہی ہے ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے اداکار، فلم اسٹار و ہدایت کار اپنے گھروں پر آرام فرمارہے ہیں اب فلم انڈسٹری کو وحید مراد جیسا ہیرو نہیں مل سکتا وحید مراد نے بحیثیت اداکار، بحیثیت فلم ساز، بحیثیت مصنف کئی ایسی یاد گار فلمیں پیش کی جو صدیوں تک اس کے فن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کافی ہے وحید مراد زندگی میں بھی عروج پر تھے اور بعد از مرگ بھی عروج پر ہیں کیونکہ ان کے مداح ان کی برسی کے موقع پر ہر سال ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تعزیتی جلسے کا انعقاد کرتے ہیں اور اخبارات و میڈیا اپنے عظیم ہیرو کو ایڈیشن کی صورت میں شائع کرتا ہے ۔ یہ کیسا انسان تھا وحید مراد جیسے 33 برس سے بھلایا نہ جاسکا خاص طور پر لاکھوں مداحوں کا یہ چہیتا فنکار ہر لمحہ اپنی خوبصورت اداکاری کے ذریعے ایسے گہرے نقوش چھوڑ گیا کہ ہر وقت آہ وحید مراد دل سے صدانکلتی ہے اور کیوں نہ نکلے جس کے خاندان کہ اتنے احسانات ہوں فلم انڈسٹری پر یایوں کہیے کہ فلم انڈسٹری سے وابستہ تمام افراد پر اس خاندان کے احسانات اتنے ہیں کہ ذرہ ذرہ احسان بھی اتارنے چاہیں تو تمام فلم انڈسٹری کے ناخدا صدیوں تک وحید مراد کے خاندان کے احسانات کا قرض نہیں چکاسکتے کیوں کہ قیام پاکستان سے قبل وحید مراد کے والد نثار مراد بحیثیت فلم ساز و تقسیم کار اپنے سرمایہ سے فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بناچکے تھے اور بحیثیت فلم سازو تقسیم کارکئی کامیاب فلمیں اس فلم انڈسٹری کو دے چکے تھے ابتدائی زمانہ قیام پاکستان فلم انڈسٹری کو مستحکم کرنے میں نثار مراد کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔ انہیں بانی فلم انڈسٹری کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ اس کردار میں انکے فرزند ارجمند انکے اکلوتے بیٹے جوکہ تعلیمی زمانے میں انکی معاونت میں پیش پیش رہتے تھے اپنے والد نثار مراد کیساتھ کئی کامیاب فلمیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور مستقبل کے وہ ہمارے ملک کے ہی نہیں بلکہ برصغیر کے خوبرور مانس کے شہنشاہ اور ورسائل ہیرو کے روپ میں جلوہ گر ہوئے اور برصغیر کی فلم انڈسٹری میں ہلچل مچادی بحیثیت فلمساز اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنی بے مثل زندگی کا آغاز بحیثیت فلم ساز اور اداکار اولاد فلم سے لیکر ہیرو فلم تک 127 فلموں میں شاندار فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا انکی پہلی فلم کا ہدایت کار وحید مراد کے دیرینہ دوست اقبال یوسف کے والد ایس ۔ ایم۔ یوسف تھے ۔ جنہوں نے وحید مراد کے والد نثار مراد سے بہت بضد ہو کر وحید مراد کو اپنی فلم میں اداکاری کرنے پر راضی کیا یہ فلم اولاد 1962ءمیں پورے ملک میں ریلیز ہوئی جس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے جس نے وحید مراد کو صف اول کے اداکاروں میں لاکھڑا کیا۔ پہلی فلم کی کامیابی سے وحید مراد کے خلاف سازشوں کا آغاز کردیا گیا لیکن وحید مراد نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کی پرواہ کیئے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے بحیثیت فلمساز و اداکار ہیرا اور پتھر جیسی مراد نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کی پرواہ کیئے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے بحیثیت فلمساز و ادکار ہیرا اور پتھر جیسی فلم تخلیق کی جسے ملک بھر میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور ملک کے بڑے نگار ایوارڈ سے اس فلم نوازہ گیا بلکہ اس فلم کے ادکارو حید مراد اور ادکارہ زیبا کو بہترین ادکاروہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس فلم کی کامیابی کی خاص وجہ ٹیم ورک تھا جس میں پرویز ملک جیسے نومولود ہدایتکار، موسیقار سہیل رانا اور شاعر مسرور انور شامل تھے جسکی کاوشوں سے ایک شاندار کامیاب فلم بنی۔ اس فلم کو کامیابی کیوں نہ حاصل تھی جس میں وحید مراد جیسے تعلیم یافتہ جنہوں نے انگریزی میں ڈبل ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور پرویز ملک بھی ہدایتکاری کی تربیت لندن سے حاصل کی تھی اور موسیقار سہیل رانا اور شاعر مسرور انور خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے اس فلم کی کامیابی میں عظیم گلوکار احمد رشدی، سلیم شہزاد کی خوبصورت آواز کا جادو شامل تھا بہر حال یہ ایک کامیاب فلم تھی جس نے پوری ٹیم کو بام عروج پہ پہنچا دیا ابھی اس ٹیم کی کارکردگی فلم بینوں کی ذہنوں پر حکمرانی کررہی تھی کہ دوسری فلم نے عالمی سطح پر شہرت کے جو جھنڈے گاڑ دیئے اور ریکارڈ ساز پاکستان کی پہلی پلا ٹیم جوبلی ہونے کا اعزادز حاصل کیا وہ فلم ارمان تھی جس میں بحیثیت 
بقیہ صفحہ نمبر ۲پر۔
صفحہ نمبر۲۔
فلم ساز و اداکار وحید مراد کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر دشمنوں کو بھی مجبور کردیا۔ فلم ارمان میں تمام شعبوں میں گار اور دیگر ایوارڈ حاصل کرکے ملک کی کامیاب ترین فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم میں بحیثیت فلمساز وحید مراد کو نگار ایوارڈ سے نوازہ کیا جبکہ وہ بہترین ادکار کے نگار ایوارڈ کے بھی مستحق تھے لیکن نگار ایوارڈ کی جیوری کے فیصلے کے مطابق فخر ایشیائ۔ شہنشاہ جذبات عظیم اداکار محمد علی کو فلم کنیز میں بحیثیت اداکار نگار ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا لیکن بحیثیت اداکارہ زیبا کو فلم ارمان میں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ دیا گیا دیگر ٹیم میں شامل پرویز ملک بہترین ہدایتکار۔ بہترین شاعر مسرور انور۔ بہترین گلوکار احمد رشدی اور بہترین گلوکارہ مالا اور دیگر شامل ہیں اس فلم کی کامیابی میں ملک گیر شہرت حاصل کرکے بلند مقام حاصل کیا لیکن وحید مراد کے دشمنوں نے جنہیں یہ عظیم الشان کامیابی ہضم نہیں ہورہی تھی اس ٹیم کے خلاف سازشیں ہوئی گوکہ وحید مراد اس ٹیم کو پھر سے ایک کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے لیکن وحید مراد دوسرے فلمسازوں و ہدایتکاروں کی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے شباب کیرانوی جیسے فلم انڈسٹری کے مستدہدایتکار او فلم ساز کی فلم انسانیت ۔ ایم ۔ اے ۔ رشید کی فلم دل میرا دھڑکن تیری۔ حسن طارق کی فلم کنیز اور دیگر ہدایتکاروں کی فلموں میں فلم جاگ اٹھا انسان ۔ فلم عندلیت جس میں وحید مراد کی بہترین اداکار کار نگار ایوارڈ ملا۔ فلم سالگرہ۔ فلم عید مبارک۔ فلم نصیب اپنا اپنا اور ساٹھ سے ستر کی دھائی میں کامیاب ترین فلم انجمن ۔ دیور بھابھی۔ فلم خلش۔ مستانہ ماہی۔ فلم ناگ منی۔ فلم دولت اور دنیا۔ فلم بہاروپھول برساﺅ۔ فلم جال۔ فلم محبت زندگی ہے۔ فلم پھول میرے گلشن کا۔ فلم جب جب پھول کھلے۔ فلم سہیلی۔ فلم شبانہ( ڈائمنڈ جوبلی) ۔ فلم آواز (ڈائمنڈ جوبلی) فلم خدا اور محبت۔ فلم نذرانہ۔ فلم ترانہ اور کرن کلی جیسی کامیاب فلموںنے اس بے حس فلم انڈسٹری کو اربوں روپے کا بزنس دیا لیکن ہائے اس بے حس فلم انڈسٹری کے کردار کو کیا کہتے کہ جس نے محسن فلم انڈسٹری کو بعد از مرگ فراموش کردیا اس فلم انڈسٹری کو بعد از مرگ فراموش کردیا اس فلم انڈسٹری کے کردار پر جتنا بھی اظہار مذمت کیا جائے کم ہے کیونہک وحید مراد کے ساتھ جو بھی وابستہ ہوا وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا خواہ وہ شبنم ہویا زیبا۔ شمیم آرا ہو یارنی۔ روزینہ ہویا عالیہ۔ اداکار محمد علی، شاہد، ندیم، غلام محی الدین ماضی کے اداکاروں سدھیر، حبیب، اعجاز، کمال جبکہ مزاحیہ اداکاروں میں اداکارلہری، رنگیلا ، ننھا، نرالہ، نذر، منور ظریف، خلیفہ نذیر ودیگر فنکار سفر میں شریک رہے لیکن فلم انڈسٹری میں بحیثیت فنکار احمد رشدی اور وحید مراد نے بڑی شہرت حاصل کی کیونکہ احمد رشدی کے گائے ہوئے خوبصورت نغمے وحید مراد پر خوب جچتے تھے ہر ایک گانا وحید مراد کی فلم کی کامیابی کی ضامنت بنا گلوکار احمد رشدی نے سب سے زیادہ گانے وحید مراد کی فلموں کیلئے ریکارڈ کرائے جو کہ فلم کی کامیابی کی ضمانت بنے وحید مراد اور احمد رشدی کو ایک دوسرے کی لئے لازم و ملزوم بنادیا وحید مراد کی 80 سے زائد فلموں کیلئے اپنی آواز کا جادو جگایا اور وحید مراد کی دو فلموں میں نگار ایوارڈ حاصل کیئے جن میں ارمان اور عندلیب شامل ہیں جبکہ احمد نے دیگر دو فلموں میں بھی نگاہ ایوارڈ حاصل کئے جبکہ مہدی حسن، مسعود رانا، مجیب عالم، خواتین گلوکارواں میں مالا، نورجہاں، ائرین پروین، نسیم بیگم، رونا لیلیٰ، مہہ ناز، ناہید اختر اور دیگر شامل ہیں۔ عظیم اداکار وحید مراد اور فخر ایشیاءمحمد علی کو خراج عقیدت پیش نہ کیا جائے تو دونوں فنکاروں کیساتھ زیاتی ہوگی کیونکہ دونوں فنکاروں 1962ءسے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا جبکہ وحید مراد محمد علی کی مشترکہ فلموں کی تعداد25 سے زائد ہے۔ جن میں خاص طور پر محمد علی اور حید مراد کو بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کی حیثیت سے فلمی کرداروں میں برصغیر میںبہت زیادہ پسند کیا گیا خاص طور پر پڑوسی ملک میں ان دونوں کے کرداروں سے متاثر ہوکر کئی فلمیں بنائی گئیں جو کہ ہمارے ملک کی طرح خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں جبکہ وحید مراد اور محمد علی کے بھائیوں کے کرداروں میں کنیز، تم سلامت رہو، دشمن، پھول میرے گلشن کا، جب جب پھول کھلے، خریدار، آدمی، ننھا اور رفرشتہ، صورت و سیرت قابل ذکر کامیاب فلمیں شامل ہیں ان فلموں نے ملک گیر شہرت حاصل کی جبکہ دیگر کرداروں میں باب کے کردار میں پہلی فلم حقیقت اور آخری فلم آواز تھی جبکہ آخری فلم زلزلہ تھی جو بعد از مرگ 1985ءمیں ریلیز ہوئی اس فلم میں دونوں نے بھائیوں کا کردار ادا کیا تھا جو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی تھی جہاں وحید مراد عروج و زوال کے زمانے میں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں میں الجھے رہے ان سالوں میں وحید مراد پوری فلم انڈسٹری میں عظیم اداکار محمد علی نے سہارا دیا بڑے بھائی ہونے کے ناطے اپنا پورا حق ادا کیا جب وحید مراد کے والد 25 جون 1981ءکو دارفانی سے کوچ کرگئے تو وحید مراد اس صدمے کو برداشت نہ کرسکے اور اکثر و بیشتر دل برداشتہ رہنے لگے وحید مراد کے اس مایوسی کے عالم کو اکثر انکی اہلیہ سلمیٰ مراد برداشت نہیں کرپاتی تھیں اور انکے بڑے بھائی محمد علی سے وحید مراد کے رویہ کی شکایت کرتیں تو ان وجوہات کی بناءپر گھریلو تنازعہ ہوجاتا تھا اور محمد علی اکثر وحید مراد کو تسلی دیتے تھے کہ اپنی آخری فلم ہیرو کو جلداز جلد مکمل کرکے ریلیز کردوتاکہ تمہارے ناقدین کے منہ بند ہوجائیں اور ثابت کردوکہ تم کل بھی ہیرو تھے اور آج بھی ہیرو ہو۔ وحید مراد نے لیکن ڈپریشن کے ماحول سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور وہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی مایوسی کے عالم میں اور مزید ڈپریشن کا شکار ہوگئے اور مزید اپنی آخری فلم ہیرو کو مکمل ہونے کی خواہش پوری نہ کرسکے اور اکتوبر کے پہلے سلمیٰ مراد انکی بیٹی عالیہ مراد تفریح کے غرض سے امریکہ گئی ہویں تھیں خدا ہی جانتا ہے کہ انکے حادثہ کی اطلاع انکی بیوی اور بیٹی کو تھی یا نہ تھی لیکن فلم انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ اور محسن فلم انڈسٹری لاوارثوں کی طرح لاہور کے مقامی ہسپتال میں کئی ہفتہ تک موت اورزندگی کی جنگ لڑتا رہا یایوں کہیے کے لاکھوں مداحوں اور عقید تمندوں میں اپنی آخری سانسیں پوری کررہا تھا۔ لیکن انہیں کیا خبر تھی کے لاکھوں مداحوں کی دعاﺅں نے اللہ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے صحت مند ہو کر ہسپتال سے گھر منتقل ہوئے اور پھر انکے مداحوں نے جو انکی دیکھ بھال کی اور انکے اس رویہ سے دوبارہ ہیرو بنے کا عزم کیا اور اپنے چہرے پر آئے ہوئے زخموں کے نشانات کو پلاسٹک سرجری کرانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں اپنی منہ بولی بہن ممتاز ایوب کے گھر ڈیفنس میں شفٹ ہوگئے انہیں ایام میں وحید مراد صوم و صلاة کے پابند ہوگئے تھے اور علاج معالجے بہت مصروف تھے اور اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ میری صحت کیلئے دعا کریں کہ میں بہت جلد اپنے ناقدین کو ایک مرتبہ پھر ہیروبن کر دکھاﺅں۔ کیا خبر تھی کہ ۳۲نومبر1983ءکو صبح اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائیں اور انکے درجات بلند فرمائیں۔آمین 
تحریر : ایس ایم سبطین نقوی 

No comments:

Post a Comment