پاکستان سیاست میں جس اندازسے گرداڑائی جاتی ہے ایسے حالات میں سیاسی تجزیہ نگارصرف تجزیہ ہی کرتے رہ جاتے ہیں اورسیاستدان ان کی رائے کے برعکس اس تیزی سے قلابازیاں کھاتے ہیں کہ بڑ ے بڑے دانشورپریشان ہوجاتے ہیں ،لیکن ایک چیزواضح ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاست ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس میں وہی کامیاب ہے جوارب پتی نہ سہی لیکن کروڑوں روپے کا بنک بیلنس لازمی رکھتا ہو،عوام کی نیچربھی ایسی بن چکی ہے کہ وہ گاڑیوں کی لمبی قطاروں اوردرباریوں کی ہٹوبچوکی صداﺅں میں گھرے شخص کو ہی حقیقی سیاستدان مانتی ہے، چاہے یہ سب ان کے حقوق غصب کرکے ہی کیوں نہ حاصل کیا گیا ہو۔
ایک وقت تھاکہ ملکی سیاست کے نامورسیاستدان مولانا فضل الرحمن دینی جماعتوں کے اتحاد متحد ہ مجلس عمل کوبحال کرنے کےلئے انتہائی بے چین تھے اوراس بات کو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا ،لیکن گزشتہ چنددنوں میں نہ جانے انھیں کیا پیغام ملاکہ وہ اپنے قول وفعل سے دینی جماعتوں کوخود سے فاصلہ رکھنے پر مجبورکرنے لگے،ایم ایم اے دورمیں اپنی سابقہ اتحادی جماعت اسلامی کے خلاف ان کے تواترسے بیانات بہت کچھ آشکارکررہے ہیں کہ اب ان کی ترجیحات میں دینی جماعتوں کاالائنس نہیں ،بلکہ کچھ اورلوگ ہیں جن کااتحادبننے جارہا ہے۔
شنید یہ ہے کہ آئندہ قومی الیکشن میں مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جمعیت علمائے اسلام (ف)،عوامی نیشنل پارٹی ،ایم کیوایم پاکستان اورقوم پرست بلوچوں کا اتحادبنے گا جس میں ”مولانا“کوخیبرپختونخواہ کا تاج سونپ کر ان کے ساتھ اے این پی اورن لیگ کی اتحادی حکومت ،بلوچستان میں قوم پرست،ن لیگ ودیگرکی اتحادی حکومت ،سندھ اورپنجاب میں حسب سابق پی پی پی اورن لیگ کی حکومت قائم ہواور ایم کیوایم کوکراچی کے ساتھ سندھ اوروفاق میں اتحادی ہونے کا شرف حاصل ہوسکتا ہے۔ وفاق میں مریم نوازکو وزارت عظمیٰ کی کرسی سونپنے کا میاں صاحب کا خواب اب کوئی رازنہیں ، لیکن اس کےلئے انھیں بیرونی سے زیادہ اندرونی مخالفت کا سامناہوسکتا ہے،اگرتوچھوٹے بھائی جان حمزہ شہباز کوپنجاب کا تاج پہناکرراضی ہوئے توپھرمیاں صاحب کےلئے پارٹی کے باقی اکابرین کوراضی کرنامشکل نہ ہوگا ۔
اب تحریک انصاف اورکپتان کوبھی سوچ سمجھ کرحکمت عملی طے کرنا ہوگی اگرتو2013ءکے الیکشن کی طرح ان کا دماغ اب بھی ساتویں آسمان پر رہا اوروہ دائیں بائیں موجودنادیدہ بیساکھیوں کے سہارے ایک بارپھرکلین سویپ کا خواب دیکھتے ہوئے سولوفلائیٹ کریں گے توشایداب کی باران کے حصے میں ایک صوبہ بھی نہ آئے اورمرکز میں چندسیٹوں سے حکومت بننے سے رہی ،اس لئے اب خان صاحب کوبھی خوشامدی درباریوں کے چنگل سے آزادہوکرایسی پالیسی بنانا ہوگی کہ حکومت ترجیحات میں توہونی چاہیے لیکن اگر وہ وفاق میں حکومت نہ بناسکیں توبھی وفاق میں ایک مضبوط پارلیمانی گروپ کے ساتھ صوبائی حکومت کودوبارہ حاصل کرسکیں ۔اس کےلئے ان کے پاس آپشن بہت محدود ہیں جن میں بڑی پارٹیاں جماعت اسلامی،ق لیگ ،جے یوآئی (س) اورپاکستان عوامی تحریک ہی رہ جاتی ہیں جن کے ساتھ الیکشن سے قبل الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے وہ الیکشن کے دنگل میں کود سکتے ہیں ۔اگرتوتحریک انصاف نے مذکورہ پارٹیوں سے پارلیمانی سطح پرباوقاراندازمیں رابطہ کیا توکوئی وجہ نہیں کہ یہ الائنس پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے،لیکن اگرروایتی اندازاپناتے ہوئے بالادست قوت کے طورپر رابطے ہوئے توشاید بہت جلد ہی اس کا ڈراپ سین بھی ہوجائے۔
اسی طرح جماعت اسلامی کوبھی آئندہ الیکشن کےلئے اپنی حکمت عملی اس اندازمیں بناناہوگی کہ ان کے قریب ترین دوستوں کو ان کے عمل سے واضح ہوجائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیونکہ اگرجے یوآئی دینی جماعتوں کے الائنس میں موجود نہیں ہوتی تودیگردینی جماعتوں کا ووٹ بنک اتنا متاثرکن نہیں کہ مضبوط پارلیمانی گروپ وجو د میں آسکے یا کسی صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن بن سکے۔اس سے قبل ضمنی ،بلدیاتی اورکشمیرکے انتخابات میں جماعت اسلامی کواس کی پالیسوں کے باعث شدیدترنقصان ہوا اگراس ضمن میں کوئی واضح پالیسی نہ بنائی گئی توشاید 2018ءکا الیکشن بھی ان کےلئے اچھا شگون ثابت نہ ہو۔
انعام الحق اعوان....پس آئینہ
inam@vopurdu.com
pasbanone@gmail.com

No comments:
Post a Comment