Wednesday, January 4, 2017

مولانا محمد علی جوہر


دنیا کی تاریخ کا واحد لیڈر جس کی غیر موجودگی میں اس کی تصویر نے سالانہ جلسے کی صدارت کی
اظہار شان دین، محمد علی سے ہے اسلام کی جو پوچھو تو شوکت ، علی ؑ سے ہے
بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے رہنما ، نڈر و بے باک صحافی، شعلہ بیان مقرر، سچے عاشق رسولﷺ، محب وطن ، بلند پایہ ادیب و شاعر ،بلندی کردار کے عظیم پیکر، زعیم ملت قائد انقلاب رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر ۰۱ دسمبر ۸۷۸۱ءکو رام پور (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ان کے دادا علی بخش خان اپنے وقت کے ایک بڑے آدمی تھے ۔،ریاست رام پور میں وہ ایک اہم عہدے پر فائز تھے ۔وہ ریاست رام پور کے والی نواب یوسف علی خان کے دست راست تھے۔۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی کے موقع پر انہوں نے بھی سر سید احمد خان کی طرح بہت سے انگریزوں کی جانیں بچائیں جس کے صلے میں انہیں ضلع مراد آباد میں ”خانی سمار“ گاﺅں جاگیر میں ملا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر کے والد عبد العلی خان بھی ریاست میں ایک بڑے عہدے پر مامور تھے۔انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی ولادت کے دو سال بعد ہی ۰۸۸۱ءمیں (صرف ۰۳ سال کی عمر میں) بوجہ علالت وفات پائی ۔مولانا جوہر کی والدہ آبادی بانو بیگم تھیں جو بعد میں بی اماں کہلائیں اور آج تک انتہائی عزت و احترام سے پورے بر صغیر پاک و ہند میں انہیں اسی لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔آپ سے بڑے بھائی ذوالفقار علی گوہر اور مولانا شوکت علی جوہر آپ سے بالترتیب چار سال اور چھ سال عمر میں بڑے تھے۔ معمولی اردو ، فارسی اور عربی و غیرہ کی تعلیم والدہ ہی سے حاصل کی جبکہ ہائی اسکول سے گریجویشن تک کی تعلیم آپ نے بریلی میں،رام پور کے جنرل عظیم الدین کے انگریزی اسکول اور علی گڑھ کالج سے حاصل کی ۔علی گڑھ کالج میں ۰۹۸۱ءمیں داخلہ لیا جہاں ان کے دونوں بڑے بھائیوں نے بھی تعلیم حاصل کی ۔محمد علی جوہر نے اسکول کے زمانے میں ہی اپنی قابلیت کی دھاک بٹھادی تھی تمام اساتذہ اور آپ کے ہم جماعت آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔محمد علی جوہر بیک وقت ایک اچھے مضمون نگار، بہترین مقرر اور شاعر تھے۔آپ نے اسکول کے زمانے سے ہی تحریر و تقریر اور شاعری تمام مشاغل اپنا لیے تھے بلکہ آپ کے مضامین اخبارات میں شائع ہونے لگے تھے ۔جبکہ علی گڑھ میں تو پرنسپل تک آپ کے دوست بن گئے تھے ۔اس وقت ایک انگریز مسٹر بیک کالج کے پرنسپل تھے جن کے ساتھ تکمیل تعلیم کے بعد بھی محمد علی جوہر کا یارانہ رہا۔علی گڑھ میں دوران تعلیم آپ کی شخصیت و کردار پر جس شخصیت کے لیکچرز اور صحبت نے سب سے ذیادہ اثر ڈالا وہ تھے خطیب العصر و بحر علم استاد الاساتذہ علامہ شبلی نعمانی ۔جو کالج کے طلبہ میں اسلامی تعلیمات اجاگر کرنے اور ان میں دین اسلام سے محبت جاگزیں کرنے کے لیے ہر روز دین اسلام اور تعلیمات اسلام پر انتہائی مدلل اور موثر لیکچرز دیاکرتے تھے ان سے متاثر ہوکر محمد علی جوہر نے بیشتر اسلامی کتب کا مطالعہ کرنا بھی شروع کردیا۔علی گڑھ سے فرسٹ پوزیشن میں بی اے کے بعد مزید تعلیم کے حصول اور پبلک سروس کمیشن (ICS)کا امتحان دینے کے لیے محمد علی جوہر ستمبر ۸۹۸۱ءمیں لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کیمرج یونیورسٹی سے حسب دستور ممبر آف یونیورسٹی کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا بعد ازاں ماڈرن ہسٹری کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب میں بھی اعزاز کے ساتھ آنرز کی ڈگری حاصل کی اور ۲۰۹۱ءمیں وطن واپس آگئے ۔تعلیم کی تکمیل اور ملازمت کے آغاز سے قبل آپ کی ماموں زاد امجدی بیگم سے آپ کی شادی کردی گئی۔ ۲۰۹۱ءہی میں آپ نے بحیثیت افسر تعلیمات رامپور میں ملازمت اختیار کرلی لیکن ۳۰۹۱ءمیں استعفیٰ دے کر ریاست بڑودہ میں چیف ایجوکیشن افسر کے منصب پر فائض ہوگئے۔ جس کی پیشکش انہیں خود مہاراجہ بڑودہ نے کی تھی ۔مولانا جوہر اپنی انقلابی طبیعت اور ایمانداری سے محنت مشقت کرنے کے باعث چند سالوں میں ریاست بڑودہ کے وزیر کے منصب تک پہنچ گئے لیکن آپ کی بڑھتی ہوئی سیاسی سرگرمیوں کے باعث آپ کو ۰۱۹۱ءمیںاس ملازمت کو بھی خیر باد کہنا پڑا ۔آپ کو نواب آف بھوپال اسٹیٹ کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول نہ کرتے ہوئے معذرت کرلی کیونکہ آپ کی سیاسی مصروفیات میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا اور اب آپ کھل کر انگریزوں کے خلاف ہر معاملے پر انتہائی بے باکی اور بے خوفی سے بولنے لگے تھے اور مضامین بھی لکھ رہے تھے ۔جس کے نتائج کا کوئی بھی حکمران یا محکمہ متحمل نہیں ہوسکتا تھا اس لیے مولانا جوہر نے ریاست بھوپال کے بعد ایک اور ریاست سے آئی ہوئی وزارت عظمیٰ کی آفر کو بھی قبول کرنے سے معذرت کرلی اور جواب میں کہلا بھیجا کہ میں ملازمتوں کی قید سے آزاد رہ کر اپنی غلام قوم کو انگریز سے آزادی دلانا چاہتا ہوں ۔اپنے اس قو ل پر وہ آخری دم تک قائم رہے ۔مولانا جوہر کی بڑودہ اسٹیٹ سے ملازمت ترک کرنے کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ ٹائمز آف انڈیا میں سیاسی مضامین لکھا کرتے تھے جو بڑودہ کونسل کو ناگوار گزرے چنانچہ مولانا جوہر کی تحریر پر کونسل نے قدغن لگانا چاہی تو مولانا نے استعفیٰ دے دیا۔مولانا محمد علی جوہر نے ریاست بڑودہ کی ملازمت کے دوران ہی دسمبر ۶۰۹۱ءمیں نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ، نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک ، سر سید علی امام، مولانا ظفر علی خان اور دیگر اکابرین کے ساتھ مل کر آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں اس کی دستوری کمیٹی قائم کرکے مسلم لیگ کے دستور اور اصول و مقاصد بھی مرتب کیے اور مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔مولانا محمد علی جوہر نے سیاسی میدان میں آنے اور ملازمتوں کی قید سے جان چھڑانے کے بعد کسی ایسے پرچے کی شدت سے کمی محسوس کی جس میں وہ مزید آزادی کے ساتھ مسلمانوں کا نقطہ نظر پیش کرسکیں اور وہ وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہر عام و خاص تک بھی پہنچے تاکہ مسلمانوں میں آزادی کی تحریک کا شعور بیدار ہو اور وہ اس کی خاطر منظم ہو کر باقاردہ تحریک کو جاری رکھ سکیں چنانچہ یکم جنوری ۱۱۹۱ءمیں کلکتہ سے ہفت روزہ انگریزی اخبار ”کامریڈ“ جاری کیا۔ جس نے اپنی اشاعت کا ریکارڈ قائم کیا اور برصغیر کے کونے کونے میں اس کی مانگ بڑھ گئی اسے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ انگریز بھی بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے اس دور میں مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کا حقیقی ترجمان اور ان کے حقوق کا علمبردار تھا ۔جس میں عام طور پر بیوروکریسی اور برطانوی حکومت کو ہدف تنقید بنا کر آئینہ دکھایا جاتا تھا ۔اس پرچے میں مسلمانوں کے مسائل کی بے لاگ اور بلا جھجک ترجمانی ہوتی تھی۔ایک انگریز رائٹر لووٹ فرنیزر نے مولانا جوہر کی وفات کے بعد انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ 
” مولانا محمد علی جوہر اس قدر خوبصورت ، عمدہ اور پر اثر انگریزی لکھتے تھے کہ ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا ہندوستانی نہیں تھا اور شاید انگریزوں میں سے بھی چند ایک ہی ایسے ہوں گے جو ان کے پائے کی انگریزی لکھ سکتے ہوں۔“ مولانا محمد علی جوہر نے صحافت کو وقار عطا کیا اور صحافت میں اپنے نقش قدم پر چلنے والوں کے لیے اولولعزمی اور بے باکی کی مثال قائم کی۔ جنگ بلقان کے دوران ۲۱۹۱ءمیں انہوں نے ترکی کے حق میں اداریے اور مضامین تحریر کیے جبکہ جنگ میں زخمی اور متاثر ہونے والے مسلمانوں کی امداد کے لیے چندہ جمع کرکے اور ساتھ ہی ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ایک طبی مشن بھی وہاں بھیجا ۔مولانا جوہر نے ۳۱۹۱ءسانحہ مسجد کانپور کے حوالے سے بھی خدمات انجام دیں اور سید وزیر اور دیگر رہنماﺅں کا وفد لے کر برطانیہ چلے گئے جہاں آپ نے سانحہ کانپور کے مظلوموں کی فریاد براہ راست انگریز حکمرانوں اور وہاں کے عوام تک پہنچائیں۔ دسمبر میں ہندوستان واپسی پر مولانا محمد علی جوہر نے اپنے پرچے کامریڈ کو دہلی سے نکالنا شروع کیا اور ساتھ ہی ”ہمدرد“ کے نام سے ایک اردو پرچہ بھی جاری کیا ۔ اب مولانا جوہر نے دونوں پرچوں کے ذریعے قوم کی خدمت شروع کردی ۔آپ نے انگریزوں اور دیگر مقتدر طبقوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مصائب کا کھل کر تذکرہ کیا۔۴۱۹۱ءمیں ترکی سے خلافت کا مسئلہ اٹھا، انگریز خلافت کا نظام ختم کرکے شہنشاہیت قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ مسلمان خلافت کے نظام ہی کو قائم رکھنا چاہتے تھے اس سلسلے میں علی برادران اور مجاہدہ ملت ان کی والدہ بی اماں نے ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغاز کردیا ان کے ساتھ ساتھ اسیر مالٹا محمود الحسن، مولانا عبید اللہ سندھی اور دیگر ان زعمائے کرام نے بھی اس تحریک کا ساتھ دیا جو ریشمی رومال تحریک سے وابستہ تھے۔۵۱۹۱ میں حکومت نے آپ کو تحریک خلافت میں سرگرمی سے حصہ لینے اور بے باکی سے انگریزوں کے خلاف مضامین لکھنے پر گرفتار کرلیا ۔دونوں پرچوں کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی ۔سال ۵۱۹۱ءکے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت مولانا محمد علی جوہر کو کرنی تھی لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور وہ بدستور جیل ہی میں رہے تاہم اہل جلسہ نے مولانا محمد علی جوہر کی تصویر کو کرسی صدارت پر رکھ کر اپنے اجلاس کی کاروائی کو اختتام تک پہنچایا۔یہ شاید دنیا کی تاریخ کا اب تک پہلا اور آخری واقعہ ہے کہ کسی لیڈر کی غیر موجودگی میں اس کی تصویر نے کسی سالانہ جلسے کی صدارت کی ہو۔ابھی آپ جیل ہی میں تھے کہ ۷۱۹۱ ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ نے آپ کو صدر منتخب کرلیا اور اس بار ان کی غیر موجودگی میں ان کی والدہ نے جلسے کی صدارت کی ۔بی اماں نے تحریک آزادی کو دو شیر بیٹے مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر ہی نہیں دیے بلکہ وہ خود بھی پوری تحریک میں (جب تک حیات رہیں) بہ نفس نفیس اپنے بیٹوں کے شاہ بشانہ انگریز سامراج کے خلاف لڑتی رہیں ۔جب علی برادران کو حکومت نے ۵۱۹۱ءمیں گرفتار کرکے سہرولی اور چھنڈواڑ جیل میں قید کیا تھا تو بی اماں ان سے ملنے جیل گئیں اور انہیں سخت تاکید کی کہ انگریز حکمرانوںکے سامنے کسی بھی صورت نہیں جھکنا ۔اس واقعے کا ذکر خود بی اماں نے ۵۱ جنوری ۴۲۹۱ءکو کولمبو سری لنکا میں کانگریس ہال میں خواتین کے کنوینشن سے اپنے صدارتی خطاب میں اس طرح کیا ۔
” جب میرے دونوں لڑکے جیل میں نظر بند تھے تو حکومت نے میرے پاس ایک حکم نامہ بھیجا ۔جس میں مجھ سے یہ کہا کہ دونوں لڑکوں سے اس پر دستخط کی فرمائش کروں ۔اس حکم نامے میں ان سے کہا گیا تھا کہ اپنی آزادی کو حکومت کے ہاتھ فروخت کرڈالو اس وقت میں پردے کی سخت پابند تھی تاہم میں جیل میں گئی اور اپنے لڑکوں سے میں نے کہا کہ تمہاری آزادی مجھے بے حد محبوب ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تم مصائب جھیلو لیکن آزادی کو ہر گز ہاتھ سے نہ جانے دو۔اپنے ملک و مذہب کے وفادار رہو اور اگر تم نے اپنے ملک و مذہب کے خلاف کوئی حرکت کی تو میں تمہیں گلا گھونٹ کے مار ڈالوں گی۔“
جب پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ۵۲ دسمبر ۹۱۹۱ءکو علی برادران کو رہا کردیا گیا انہی دنوں امر تسر میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ہورہا تھا لہٰذادونوں بھائی رہائی کے بعد سیدھے امر تسر پہنچے جہاں ان دونوں بھائیوں کا شاندار اور پر جوش انداز میںاستقبال کیا گیا۔ مولانا نے اپنے خطاب میں اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جیل سے واپسی کا ٹکٹ لے کر آیا ہوں اسی اجلاس میں مولانا جوہر نے آزادی وطن کی اہمیت پر پر زور خطاب کیا اور کہا کہ آزادی کی خاطر علی برادران پھر دوبارہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں انہوں نے مسٹر تلک اور مسٹر بسنت کو بھی آزادی کی خاطر آگے آنے کے لیے کہا ۔اس کے بعد علی برادران دہلی چلے گئے جہاں ان کے استقبال کی تاریخ ساز اور مثالی تیاریاں ہوچکی تھیں دہلی میں علی برادران کے استقبال کا آنکھوں دیکھا حال اس وقت کے معروف اخبار روزنامہ ”ملت“ اور دیگر تمام اخباروں نے شائع کیا تھا لیکن روزنامہ ملت نے اس واقعے کو دوبارہ مولانا جوہر کی وفات کے فوری بعد ۱۱ جنوری ۱۳۹۱ءکی اشاعت میں شامل کیا ۔جو کچھ اس طرح تھا۔ ” چھنڈواڑہ جیل سے رہائی کے بعد رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر اور ان کے برادر بزرگ مولانا شوکت علی جوہر نے امر تسر کانگریس میں شرکت کی اور وہاں سے واپسی پر دہلی تشریف لائے ۔دہلی شہر جو آج زعیم ملت کی جدائی میں سوگوار رہے ۔اس دن دلہن بنا ہوا تھا اور اس کی فضا آمد آمد کی نغمہ سنجیوں سے گونج رہی تھی ۔گھر گھر خوشی تھی اور گھنٹہ گھر پر ایس ایس لبرٹی جہاز تیار ہورہا تھا ۔ استقبال کی تیاریوں میں ہندو، مسلمان، سکھ ، پارسی غرض تمام اقوام غرق تھیں ۔باشندگان دہلی مسرور تھے قوم کے سردار جو ۵۱۹۱ ءمیں جدا کیے گئے تھے پھر اپنے دیدار سے انہیں مشرف کرنے والے ہیں اور خاک دہلی فدا کاران اسلام کے قدوم سے پھر معزز ہوگی ۔تین یوم پہلے چاند نی چوک میں عظیم الشان دروازوں کی تعمیر شروع ہوگئی تھی اور ہر کوچہ پر دروازے علیحدہ علیحدہ بنائے گئے تھے ۔اللہ اکبر کیا چہل پہل تھی ۔چاندنی چوک، دریبہ کلاں، چاوڑی بازار، سر کی دالان، صدر بازار کے دونوں طرف جھنڈیاں آویزاں تھیں اور دوکانیں آراستہ تھیں۔
زندہ باد محمد علی زندہ باد شوکت علی
اور کہیں خادم کعبہ زندہ باد کے کتبے آویزاں تھے ،دریبہ کلاں کے دروازے پر حسب ذیل قطعہ لکھا تھا
شکر خدا کہ قوم کے سردار آگئے صبر و رضا کے مالک و مختار آگئے
کہتا ہے شوق دیکھ کر شمس و قمر کا نور یوسف کی طرح چُھٹ کے گرفتار آگئے

چاند نی چوک میں ایک دروازے پر کسی نے کیا خوب شعر لکھا تھا۔
اظہار شان دین محمد علی سے ہے اسلام کی جو پوچھو تو شوکت علی ؑ سے ہے

تین تین سو، چار چار سو میل کی مسافت طے کرکے محمد علی جوہر کے دیدار کی خاطر مسلمان دہلی میں آگئے تھے ۔بکثرت والنٹیر کوریں اسلام کے اس سپہ سالار کے استقبال میں شرکت کرنے کے لیے تیار کی گئی تھیں ۔جس دن رئیس الاحرار دہلی پہنچے ایس ایس لبرٹی پر آپ کی خدمت میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا گیا ۔جس وقت آپ نے اس کا جواب دیا تو اسلامی جھنڈا جس پر ہلال کا نشان تھا لہرایا گیا۔ اکتیس گولوں کی سلامی دی گئی ۔گھنٹہ گھر سے فتح پور تک تل دھرنے کو جگہ نہ تھی مکانوں، دکانوں، کوٹھوں ، سڑک کے دونوں طرف لاکھوں کی تعداد میں افراد جمع تھے ، ۹ بجے جلوس اس شان سے روانہ ہوا کہ سب سے آگے بینڈ باجا، نفیری والے ،شہنائی والے ، کٹورے والے ، پیدل رضا کاروں کا دستہ ، جودھپوری وردی میں سوار رضا کاروں کا رسالہ، ترکی پوشاک میں سوار رضا کاروں کا رسالہ اس کے بعد اعزازی دستہ اور پھر مولانا کی گاڑی تھی۔ اس کے پیچھے رضا کاروں کا دستہ اور پھر خلقت کا اژدھا م وغیرہ وغیرہ سڑکوں کے دونوں طرف رضا کاروں کی صفیں کھڑی تھیں ، سواری پر پھولوں کی بارش ہورہی تھی کئی مقام پر چاندی کے پھول نچھاور کیے گئے ۔تھوڑی تھوڑی دور کے بعد پھولوں کے ہار گجرے اور تحائف پیش کیے جارہے تھے ، جلوس جمعہ کی نماز کے لیے جامع مسجد پر ختم ہوا۔ لاکھوں غلامان محمد پہلے سے اس جگہ جمع تھے ، رئیس الاحرار نے دوگانہ ادا کیا اور جمعہ کی نماز پڑھی اور مختصر تقریر کی، اس کے بعد جلوس پھر روانہ ہوا اور بڑے بڑے بازاروں میں گشت کرنے کے بعد فتح پوری پر ختم ہوا۔اس جگہ مغرب کی نماز کے بعد زعیم الملت موٹر میں سوار ہوئے اور ڈاکٹر انصاری کی کوٹھی واقع دریا گنج تشریف لے گئے۔شب کو شہر میں چراغاں کیا گیا اور تمام شہر کو بقعہ نور بنا دیا گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسا پر تپاک خیر مقدم اور گرمجوشی کا استقبال کسی بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہواہوگا۔ کیونکہ اخلاص و محبت اور عقیدت کے جو سچے مناظر اس وقت دیکھنے میں آئے آنکھیں شاید ہی انہیں دیکھ سکیں۔یہ لاثانی استقبال جو مولانا نا مرحوم کو زندگی میں نصیب ہوا۔ ہندوستان کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اور اس کے متعلق یہ کہا جاتا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں کسی لیڈر کو نہ پہلے نصیب ہوا تھا اور نہ شاید اب ہوگا۔اس کا سبب محمد علی جوہر کی خدمات وطن اور اسلام کے لیے سر فروشانہ جدوجہد تھی۔“
روزنامہ ملت ۱۱ جنوری ۱۳۹۱ئ
پہلی جنگ عظیم میں ترکہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور اس کی شکست کے بعد ترکی کو بھی اتحادیوں کے دباﺅ پر ایک معاہدہ کرنا پڑا۔چنانچہ آل انڈیا خلافت کانفرنس کا ایک وفد برطانیہ کو ترکی کے ساتھ اپنے وعدے یاد دلانے کے لیے محمد علی جوہر کی قیادت میں لندن بھیجا گیا ۔اس وفد میں سید وزیر حسن اور علامی سید سلیمان ندوی بھی شامل تھے۔یہ وفد ناکام واپس آگیا۔ واپسی پر علی برادران نے شدت اور تیزی کے ساتھ تحریک خلافت کا آغاز کردیا اس سلسلے میں ہندوستان بھر کے دورے کیے گئے ۔اسی دوران فروری ۱۲۹۱ءکو لکھنو میں جبکہ ۸ ، ۹ اور ۰۱ جولائی ۱۲۹۱ ءکو کراچی میں منعقدہ خلافت کانفرنسوں کی صدارت محمد علی جوہر نے کی۔ تقریر کرنے اور خلافت کانفرنس کے انعقاد پر حکومت نے علی برادران ڈاکٹر رفیق کچلو ، شری شنکر اچاریہ اور مولانا نثار احمد زبیری کو ۴۱ستمبر ۱۲۹۱ءکو گرفتار کرلیا۔۹۱ نومبر ۱۲۹۱ءکو خالق دینا ہال کراچی میں ان پرجیوری بٹھا کر مقدمہ قائم کیا گیا اور دو سال کے لیے قید بامشقت کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے کراچی جیل میں اپنی اسیری کے دوران ہی اپنی خود نوشت تحریر کی ۔دو سال بعد قید سے رہائی نصیب ہوئی تو مولانا جوہر نے ایک بار پھر دوبارہ اپنے دونوں پرچے ہمدرد اور کامریڈ جاری کیے اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار بن کر باہم اتحاد و اتفاق کی کوششیں شروع کردیں ۔۷۲۹۱ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح نے تجاویز دہلی پیش کیں سندھ کو الگ صوبہ بنانے ، بلوچستان میں اصلاحات کے نفاذ اور بنگال و پنجاب میں مسلمانوں کو قانون ساز اسمبلیوں میں آبادی کے تناسب نمائندگی دینے کے مطالبات پر مبنی تھیں۔جس اجلاس میں قائد اعظم نے یہ تجاویز دہلی میں پیش کی تھیں۔مولانا محمد علی جوہر بھی اس میں شریک تھے او آپ نے نہ صرف ان کی بھرپور تائید کی بلکہ ان تجاویز کی دیگر مسلمانوں میں تشہیر و ترویج کا اہتمام بھی کیا۔ تجاویز دہلی کے جواب میں ۸۲۹۱ءمیں نہرو رپورٹ پیش کی گئی تو آپ کانگریس پر برہم ہوئے اور ان سے اختلافات پیدا ہوگئے چنانچہ آپ نے احتجاجاً کانگریس سے استعفیٰ دے دیا ۔حالانکہ آپ کو کانگریس میں صدارت کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا اورپنڈت جواہر لعل نہرو آپ کے سیکریٹری تھے۔مولانا نے اصولوں پر ان سے اختلاف کیا اور اپنا راستہ ہمیشہ کے لیے ان سے جدا کرلیا۔
ستمبر ۰۳۹۱ءمیں بر صغیر کے مسائل کو حل کرنے اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے حکومت برطانیہ نے لندن میں برصغیر کے تمام لیڈروں کی گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا ۔مولانا جوہر نے ذیابیطس اور دیگر امراض لاحق ہوجانے کے باوجود بستر علالت پر رہتے ہوئے بھی ہندوستان سے انگلستان تک کا سفر کیا اور گول میز کانفرنس میں شرکت کی تاکہ بر صغیر کے مسلمانوں کے احساسات و جذبات کی صحیح اور حقیقی ترجمانی کرسکیں ۔آپ نے ۹۱ نومبر ۰۳۹۱ءکو گول میز کانفرنس کے دوران تاریخ ساز تقریر کی ۔اس تقریر کے چند جملے ان کی پیش گوئی بھی ثابت ہوئے اور آج تک زبان زد عام ہیں آپ نے کہا تھا کہ ” آج جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں ، وہ یہی ہے کہ میں اپنے ملک میں واپس جاﺅں تو میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہو بصورت دیگر میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاﺅں گا۔میں ایک آزاد ملک میں مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔“
آزادی کا یہ عظیم مجاہد بر صغیر پاک و ہند کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے ۴ جنوری ۱۳۹۱ ءکو بر صغیر پاک و ہند کی آزادی کے ناآسودہ خواہشات کو لے کر اس دنیا سے کوچ کرگیا۔
دنیا سیاہ پوش ہوئی یک بیک کیوں حیرت ہے اہل ہند کو یارب یہ کیا ہوا
لندن میں پائی آہ محمد علی نے موت جو منہ سے کہہ چکا تھا وہ وعدہ وفا ہوا
بے شک غلام ملک میں زندہ نہ آیا وہ غربت میں اپنی جان دی آزاد ہوگیا
مارا گیا وطن کے لیے وہ صاحب فراش تھا مرد اپنے قول سے ایک انچ کب ہٹا
روتی ہے آج اس کے لیے مادر وطن ایسا سپوت مادر گیتی نے کب جنا
۵ جنوری ۱۳۹۱ءکو گول میز کانفرنس کے دوران ان کے لیے تعزیتی اجلاس منعقد ہوا اور انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ۴۲ جنوری ۱۳۹۱ءکو حکومت برطانیہ نے اس مجاہد ملت کی میت کو بیت المقدس پہنچایا اور مرحوم کی وصیت کے مطابق انہیں وہاں دفن کیا گیا۔ ان کی موت پر بے شمار تعزیت نامے دنیا بھر سے ان کے اہل خانہ کے نام آئے ، اخبارات میں شائع ہوئے ۔عالمی شہرت یافتہ رائٹر ایچ جی ویلز نے کہا تھا کہ 
”محمدعلی جوہر کو اللہ تعالیٰ نے میکالے کا قلم ،برک کی زبان اور نپولین کا دل دیا تھا جس کے باعث وہ عالمی لیڈروں میں اپنا مقام بنا گئے۔“

شازیہ فاطمہ کی خصوصی تحریر


No comments:

Post a Comment