Thursday, July 28, 2011

عرب انقلاب کے بعد عرب انجماد

تیونس میں ایک غریب نوجوان بوعزیزی کی خودسوزی نے عرب دنیامیں احتجاج کا جو سلسلہ برپاکیا تھا اس نے عرب دنیا کو ہلاکر رکھ دیاتھا۔ تیونس کے صدر زین العابدین 23 سال سے اقتدارپر مسلط تھے اور انہوں نے تیونس کے آدھے سے زیادہ معاشرے کو ”ایجنسیوں کا معاشرہ“ بنادیاتھا۔ لیکن تیونس میں برپاہونے والی تحریک 20 دن میں صدر زین العابدین کو لے ڈوبی۔ اس صورت حال نے عرب دنیا کے عوام کے حوصلے بڑھادیے اور احتجاج کا سلسلہ تیونس سے نکل کر کم وبیش آدھی عرب دنیا میں پھیل گیا۔ تیونس کے بعد احتجاجی تحریک سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مصر میں ظاہرہوئی جہاں حسنی مبارک کا 30 سالہ دور اقتدار اچانک اختتام پذیرہوگیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی مبصرین نے عربوں کی احتجاجی تحریک کو عرب انقلاب کانام دیا۔ لیکن ”عرب انقلاب“ صرف چارماہ میں ”عرب انجماد“ میں ڈھل گیاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مصرکے بعد عرب انقلاب کوئی بڑا نتیجہ پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ شام میں بشارالاسد اقتدارسے چمٹے ہوئے ہیں۔ اردن میں احتجاجی تحریک تقریباً دم توڑچکی ہے ۔ یمن میں عبداللہ صالح شدید زخمی ہونے کے بعد دوبارہ مسند اقتدارپر جلوہ افروز ہوگئے ہیں اور لیبیا میں احتجاجی تحریک نے لیبیاکو عملاً دوحضوں میں تقسیم کرکے امریکا اور یورپ کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی ہوئی ہے۔ لیکن عرب انقلاب کے عرب انجماد میں ڈھلنے کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ تیونس اورمصرکے عوام محسوس کررہے ہیں کہ ان کے ملک میں صرف چہرے بدلے ہیں نظام نہیں۔ یعنی جن ملکوں میں احتجاجی تحریک نے کچھ نہ کچھ نتیجہ پیداکیا ہے وہاں بھی مایوسی کی کیفیت ہے اور لوگ محسوس کررہے ہیںکہ حکمران طبقے نے ان کے ساتھ دھوکا کیاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا مفہوم کیاہے؟
تجزیہ کیاجائے تو تیونس اور مصر میں وہی کچھ ہواہے جو پاکستان کی تاریخ میں تین بارہوچکاہے۔ جنرل ایوب آمر مطلق تھے۔ لوگ انہیں پاکستان کا ”بادشاہ“ بن جانے کا مشورہ دیتے تھے۔ ان کا سیاسی بدعنوانی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کسی اورکو کیا بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی بہن فاطمہ جناح کوبھی دھاندلی کرکے ہرادیاتھا۔ لیکن تاریخ کے ایک مرحلے پر جنرل ایوب اتنے نامعقول ہوگئے کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ایک بوجھ بن گئے اور ان کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوگئی۔ چنانچہ جنرل ایوب سے کہہ دیاگیاکہ اب ان کو جانا ہوگا۔ جنرل ایوب اسٹیبلشمنٹ کے داخلی دباﺅکو برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے اقتدارچھوڑدیا مگر طاقت کو سول ہاتھوں میں نہیں جانے دیا۔ انہوں نے اپنی جگہ جنرل یحییٰ کو بٹھایا۔
جنرل ضیاءالحق نے بھی کامل اطمینان کے ساتھ دس سال حکومت کی۔ انہیں ایم آرڈی کی تحریک کے سوا کبھی کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن جنرل ضیاءالحق نے افغان جہاد کی کامیابی کے بعد امریکا کی مزاحمت کی۔ چنانچہ وہ امریکا کے لیے مسئلہ بن گئے۔ مگردشواری یہ تھی کہ ان کے خلاف ملک میں کوئی احتجاجی تحریک نہیں تھی چنانچہ انہیں سیاسی دباﺅ کے ذریعے ہٹانا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طیارے کو فضا میں اڑادیاگیا۔ مگر ان کے طیارے میں دھماکا خیز مواد کوئی عام شخص نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ اہلکار یقیناً ملوث تھے اور اس سے ثابت ہوتاہے کہ جنرل ضیاءالحق کی شخصیت خود ان کے ”فوجی رفقا“کے لیے بھی بوجھ بن گئی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی تھے۔ انہیں امریکا اور یورپ مدبر قراردے رہے تھے۔ انہیں بہادرقراردیاجارہاتھا۔ اس پر طرہ یہ تھا کہ جنرل پرویز کو ملک میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ اس صورتحال نے جنرل پرویزکے حوصلے بلندکردیے تھے اور وہ آئے دن ملک وقوم کی آزادی خود مختاری سے کھیل رہے تھے۔ ملک وقوم کے وقارکو تماشا بنارہے تھے۔ یہ صورتحال انہیں عوام میں انتہائی ناپسندیدہ بنارہی تھی اور جنرل پرویز کی بدنامی پوری فوج کی بدنامی بن گئی تھی۔ اس مرحلے پر ایک بارپرپھرفوجی اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوئی اور اعلیٰ ترین سطح پر جنرل پرویز سے جان چھڑانے کا فیصلہ ہوا۔ ٹھیک یہی صورتحال تیونس میں زین العابدین اور مصر میں صدرحسنی مبارک کے ساتھ پیش آئی۔ ان کے طویل اقتدارنے انہیں خود حکمران طبقے کے لیے بوجھ بنادیا تھا۔ ان کے خلاف برپا ہونے والی عوامی تحریک نے اس بوجھ کو ناقابل برداشت بنادیا۔چنانچہ تیونس اور مصرکی اسٹیبلشمنٹ تقسیم ہوئی اور اس نے زین العابدین اور حسنی مبارک سے نجات کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے ذریعے ایک تیرسے تین شکارکیے گئے۔ زین العابدین اور حسنی مبارک کے ذریعے ان ملکوں کے حکمران طبقے کو ”تاریخی بوجھ“ سے بھی نجات مل گئی۔ عوام میں نئے حکمرانوںکی بھی واہ واہ ہوگئی اورعوامی تحریک کے پریشر ککرسے خطرناک بھاپ بھی خارج ہوگئی۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ عرب انقلاب عرب انجماد میں کیوں ڈھل گیا؟۔
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عرب عوام سیاسی تحریکوں کا تجربہ ہے نہ چہروں اور نظام کی تبدیلی کا فرق معلوم ہے۔ تیونس اورمصر میں چہرے تبدیل ہوئے تو عرب عوام نے سمجھا کہ نظام تبدیل ہورہاہے ۔ لیکن یہ نظام کیا حکومت کی تبدیلی بھی نہیں تھی۔ یہ صرف چہروں کی تبدیلی تھی اور یہ حقیقت چہروں کی تبدیلی کے وقت بھی پوری طرح عیاں تھی لیکن عرب عوام کو اس بات کا شعور نہیں تھا۔ لیکن اب جبکہ عرب عوام چہروں کی تبدیلی کومعروضی طورپر دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہورہاہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیاہے۔
عرب عوام کی احتجاجی تحریک برجستہ اور اچانک تھی۔ اوریورپ اس تحریک سے ششدر رہ گئے۔ ایک ماہ تک ان کی سمجھ میں بھی نہ آیا کہ وہ اس تحریک کے ساتھ کیا کریں۔ ان کا خیال تھا کہ تحریک جلد ہی دم توڑجائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ امریکا نے بالآخرموقف کی سطح پر تحریک کی حمایت کی۔ لیکن وہ عملاً تحریک کو اغواکرنے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے اصطلاح کے کسی واضع ایجنڈے کے بغیر تیونس اور مصرکے لیے حکمرانوں کی پشت پناہی شروع کردی اور اس نے تحریک کو چہروں کی تبدیلی تک محدود کرتے اسے سیکولر رنگ دینے کی کوشش کی۔
عرب عوام کی تحریک کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس تحریک میں منظم سیاسی جماعتوں کا یا تو کوئی کردار ہی نہیں تھا یا یہ کردار پس منظرمیں تھا۔ اس صورتحال میں تحریک کو مسلسل جاری رکھنا اور اسے اس کے منطقی انجام سے ہمکنارکرنا آسان نہیں ہوتا۔ چنانچہ عوامی تحریک جلد ہی اپنی داخلی قوت صرف کرکے انجماد کا شکارہونے لگی ہے۔ 
مسلم عوام کا تاریخی‘ نفسیاتی اورجذباتی مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف مذہب کی بنیادپرگہرائی میں متحرک ہوتے ہیں اور صرف مذہب کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔ عربوں کی تاریخ میں ایک جذبہ عرب قوم پرستی کا بھی رہاہے۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو عرب عوام کی تحریک کے انجماد کا ایک سبب یہ ہے کہ اس تحریک کی پشت پر نہ مذہبی جذبہ تھا نہ قوم پرستی کا ولولہ تھا۔ آزادی اور جمہوریت مغرب کے لیے بڑے آئیڈیلزہیں لیکن عرب عوام کے شعور پر ان کا زیادہ گہر اثر نہیں ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے عرب انقلاب دائمی طورپر عرب انجماد بن جائے گا۔؟
ایسا نہیں ہوگا۔عرب عوام کی تحریک نے عرب معاشروں کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچایاہے کہ اس تحریک نے عربوں کو ان کی گمشدہ خود اعتمادی لوٹائی ہے۔ اس تحریک نے عربوں کو اس خیال سے دوچارکیاہے کہ ہم دنیاکی تاریخ اور حرکیات سے کٹے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ ہم بھی جدوجہدکرسکتے ہیں اورہم بھی قربانیاں دے کر اپنے خون سے ایک نئی تاریخ لکھ سکتے ہیں۔ یہ خود اعتمادی عرب عوام کو آج نہیں تو کل زیادہ بڑی تبدیلی کی طرف مائل کرے گی۔ دعاکرنی چاہیے کہ عربوں کی تحریک کو جلد ہی نظریاتی شعور فراہم ہوجائے ۔
The Help

No comments:

Post a Comment