جدیدمغربی تہذیب کا مزاج ہے کہ وہ جس چیزکو چھوتی ہے نعرہ بنادیتی ہے۔ دنیا کی تمام مذہبی تہذیبوں میں مرد اورعورت کا تعلق ؟؟ تھا۔ صنفی تھا‘تکمیلی تھا‘ روحانی تھا‘ نفسیاتی تھا‘ جذباتی تھا‘ خاندانی تھا‘ لیکن جدید مغربی تہذیب نے اسے سیاسی ‘ معاشی اورسماجی بنادیا۔ انسان مساوات کے تصورپر جتنا غورکرتاہے ۔ یہ حقیقت عیاں ہوتی چلی جاتی ہے کہ مساوات کا تصور سیاسیات‘ معاشیات اور سماجیات سے آگے نہیں جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب عورت کو صرف سیاسی‘ معاشی اورسماجی سطح پر اہم سمجھتی ہے اورانہی سطحوں پراسے اہم دیکھنا چاہتی ہے۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو مردوعورت کے تعلق کی وہ تمام بنیادیں منہدم ہوجاتی ہیں جن پر ہزاروں سال سے مرد اورعورت کے تعلق کا مدارتھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مذہبی اور جدید مغربی تہذیب میں مردوعورت کے تعلق کا فرق بنیادی طورپر کس چیز کا فرق ہے؟۔
اس سوال کا جواب واضح ہے۔ مذہبی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کے تصورات کا فرق معنی کا فرق ہے۔ مثال کے طورپر اسلامی تہذیب میں مرد اور عورت کے تعلق کے معنی قرآن وسنت سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے خدا اور مذہب کا انکارکیا اور کہاکہ انسان کی زندگی کی معنویت انسانی عقل متعین کرے گی اور جدید مغربی تہذیب کی اجتماعی عقل نے کہاکہ زندگی کی اصل حقیقت طاقت ہے اور مردو عورت کے تعلق کا تعین بھی اسی بنیاد پرہوگا۔سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں سیاسیات‘ معاشیات اور سماجیات کی موجودگی کاکیا مفہوم ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سیاسیات‘ معاشیات اورسماجیات‘ جدید مغربی تہذیب میں طاقت کے مظاہرہیں انہی کی بنیاد پرطے ہوتاہے کہ کون کتنا طاقتورہے۔ اس منظرنامے میں سیاسیات اتھارٹی کی علامت ہے۔ معاشیات دولت کی اور سماجیات مرتبے کی۔ سوال یہ ہے کہ مساوات مردوزن کا نعرہ کتنا عقلی ہے۔؟
انسان زندگی اورکائنات کے مظاہرمیں جتنا غورکرتاہے اتنا ہی اس بات کا قائل ہوتاچلاجاتاہے کہ زندگی اورکائنات کی اصل مساوات نہیں عدم مساوات ہے۔ مثال کے طورپر چاند سورج اور ستارے مساوی نہیں۔ سورج ہمارے نظام شمسی کی زندگی ہے اور خود چاندبھی سورج ہی سے روشن ہے۔ اگر چاند یہ کہنے لگے کہ وہ سورج کیوں نہیں ہے اور وہ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ اسے بھی سورج کی سطح کاسیارہ تسلیم کیاجائے تو یہ مطالبہ کتنا عقلی ہوگا؟ غورکیاجائے تو کائنات میں سورج کا اپنا مقام اور اپنا حسن ہے۔ چاند کا اپنا مرتبہ اور اس کی اپنی خوبصورتی ہے۔ ستاروں کا اپنا جمال اور ان کی اپنی حیثیت ہے۔ انسانوں پرغورکیاجائے تو ایک انسان جینئس ہے۔ ایک ذہین ایک کند ذہن اور ایک ہوش وخرد سے یکسرمحروم ۔ انسانوں میں کچھ لوگ حسین وجمیل ہوتے ہیں۔کچھ صرف حسین‘کچھ قبول صورت اورکچھ بدصورت ۔ اب اگر ایک شخص یہ کہے کہ انسان تو مولانا روم بھی ہیں اور میںبھی۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے دوہاتھ ‘ دوپاﺅں اور دوآنکھیں دی ہیں اور مجھے بھی چنانچہ مجھے مولاناروم کے برابر سمجھاجائے تو اس کا یہ مطالبہ عقل کے مطابق ہوگا یا اسے کم عقلی پر محمول کیاجائے گا۔ اسی طرح اگرکوئی شخص کہے کہ حضرت یوسف ؑ بھی ایک آدمی ہی تھے اور میں بھی ایک آدمی ہی ہوں اس لیے میرے جمال کو حضرت یوسف کے جمال کے برابرماناجائے تو وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ کم عقل سے کم عقل انسان بھی اس کی اس بات پرہنسے گا۔ زندگی کا مشاہدہ اور تجربہ بتاتاہے کہ جڑواں بچے تک اہلیت وصلاحیت اور صورت وشکل میں ایک دوسرے سے مختلف اورکم اورزیادہ ہوتے ہیں۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے تو مساوات مردوزن کا نعرہ نہ صرف یہ کہ مذہب کے خلاف ہے بلکہ عقل سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ مغربی دنیا بعض حوالوں سے مساوات مردوزن کے نعرے کی خودبھی قائل نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کھیلوں کے اولمپک مقابلے ہیں۔ ان مقابلوں میں عورتیں تمام کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں لیکن عورتوںکا مقابلہ مردوں سے نہیں عورتوں سے ہوتاہے۔ اس کی وجہ ظاہرہے اور وہ یہ کہ مرد اور عورت کی جسمانی قوت میں بہت فرق ہے اور عورت جسمانی قوت میں مردکامقابلہ نہیںکرسکتی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مرد اور عورت میں جسمانی قوت کے اعتبارسے جتنا فرق پایاجاتاہے ان میں نفسیاتی اورجذباتی طورپر اس سے کہیں زیادہ فرق موجود ہے۔
عقلی اعتبارسے دیکھاجائے تومساوات کا اصول ”تنوع“ کی ضد اور تنوع کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ لیکن مساوات تنوع کی ضد کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرتمام چیزیں تمام حوالوں سے برابر ہیں تو وہ ہراعتبارسے ”یکساں“ ہوں گی اور جہاں یکسانیت ہوگی وہاں تنوع نہیں ہوگا اور جہاں تنوع نہیں ہوگا وہاں یقیناً ایک دوسرے کے لیے کشش نہیں ہوگی اور ہوگی تو سطحی سرسری‘ اورعارضی‘ مغربی دنیا میں مردوعورت کے تعلقات کا زوال اور طلاق کی بلندشرح اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ مساوات کی جدوجہد میں عورت وہ شے کھو بیٹھی ہے جو عورت کے سلسلے میں مرد کی رغبت کو گہرا ‘ شدید اور پائیدارکرتی ہے۔ لیکن یہ چیزکیاہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز ”عورت پن“ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مساوات کے نعرے نے مغرب کی زن کو نازن بنادیاہے۔ یہ اتنا بڑا تہذیبی اور کائناتی نقصان ہے کہ اس کا شعور بھی دشوارہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مرد اور عورت کے تعلق کے بارے میں مذہب کی تعلیم کا لب ولباب کیاہے۔ ؟ اسلام کی پوزیشن یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ جنت میں تھے تو جنت کی تمام تر دلکشی کے باوجود تنہائی محسوس کرتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی پسلی سے حضرت حوا کو پیدا فرمایا۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کے سوا اگر کسی کو سجدہ واجب ہوتا تو عورت سے کہاجاتاکہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے۔ یہ شوہر کے مجازی خدا ہونے کا تصور ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان تعلیمات کا مفہوم کیاہے؟ غورکیاجائے تو ان تعلیمات کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سطح پر مرد اور عورت کا تعلق ایک تکمیلی یا Complimentry تعلق ہے۔ یعنی مردوعورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے۔ ان تعلیمات کاایک مطلب یہ ہے کہ دوسری سطح پر عورت مردکی ذات کا عکس اور اس کی توسیع ہے۔ اس حوالے سے عورت کے دو بنیادی کردارہیں۔ ایک بیٹی کا‘ دوسرا بیوی کا۔ عورت جب تک بیٹی ہے‘ باپ کی ذات کا عکس اور اس کی توسیع ہے اور جب بیوی ہے تو شوہرکی ذات کا عکس اور اس کی توسیع ہے۔ بعض مغرب زدہ لوگوں کو عورت کی اس حیثیت میں عورت کی ”توہین“ نظرآتی ہے لیکن مذہب کے دائرے میں انسان کی اصل توہین یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مقام اور مرتبے سے گرجائے اور اس کے مقصد تخلیق سے روگردانی کرے۔ ذرہ اگر اپنے مقصد تخلیق کو پوراکرے اور اس سے روگردانی نہ کرے تو وہی آفتاب ہے اور اگر آفتاب اپنے مقصد تخلیق کو روند ڈالے اور اس سے منحرف ہوجائے تو وہ ذرے سے بھی کمترہے۔ نفسیاتی‘ جذباتی ذہنی اورسماجی اعتبارسے دیکھاجائے تو ان باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ عورت مرد کی خواہش کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ یعنی عورتیں ویسی بن جاتی ہیں جیسی کہ مرد انہیں بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے مگر اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت خود جدید مغربی تہذیب اور اس میں عورت کاکردارہے۔
اس کردارکا لب لباب یہ ہے کہ جب تک مردوں نے عورت کو ماں‘بہن‘ بیٹی اور بیوی کے کردارمیں سراہا عورت نے اپنے وجود کی پوری قوت صرف کرکے ہزاروں سال تک ان کرداروں کو نبھایا لیکن جدید مغربی تہذیب میں مردوں نے عورتوں کے روایتی کرداروں کو مستردکرکے ان سے کہاکہ اب تم دفتراورکارخانے میں ملازم بن کر دکھاﺅ تو عورتوں نے ان اجنبی کرداروں کو اختیارکرنا شروع کردیا۔ مردوں نے عورتوں کو اداکار‘ بنایا‘ کھلاڑی بنایا‘ ماڈل گرل بنایا۔ عورت بنیادی طورپر ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی تھی تو اس کا لباس بھی ویسا ہی تھا اور اس کے جذباتی اور نفسیاتی سانچہ بھی ویسا ہی تھا لیکن عورت جنس بازار بنی تو اس کا لباس‘ زبان‘ بیان‘ تراش خراش اور جذباتی ونفسیاتی سانچہ بھی ویسا ہی ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرہمیں کسی معاشرے یا کسی تہذیب میں عورت کا مطالعہ کرنا ہو تو ہمیں اس معاشرے اور اس تہذیب کے مردوں کی کھلی اور پوشیدہ آرزوﺅں کی طرف دیکھنا چاہیے۔ یہ مرد اور عورت کے تعلق کے بارے میں بنیادی بات ہے۔ اس تعلق کے حوالے سے دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جب ایک انسانی سانچہ وجود میں آجاتاہے اور طاقت کے مظاہر اس سانچے کی پشت پر آکر کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ اس سانچے کی ”نقل“ کرنے لگتے ہیں۔مسلم معاشروں میں عورت کا ہدف بدلتا ہوا کردار اور اپنی بیشترصورتوں میں مغرب کی عورت کی بھونڈی نقالی کے سوا کچھ نہیں۔
No comments:
Post a Comment