قوم پرستانہ سیاسی منصوبوں کے آئینے میں دیکھیں تو ڈپلومیسی کا یہ سبق بالکل صحیح لگتاہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ پوری قومیت پرستی بالآخر ایک ایسی اندھی بھول بھلیوں میں جاتی دکھائی پڑتی ہے جس میں ہم پہلے اسامہ کو بناتے ہیں اور اس کے بعد اسے مارتے ہیں۔ اب یہ قاعدے سے یاددلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کولڈ وارکے آخری برسوں میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی عسکری پالیسی کا ایک چھوٹا سا مہرہ تھا۔ افغانستان میں مذہبی جنون کے افیون کی تخم ریزی امریکا ہی نے کی‘ اسے پاکستان کی مدد سے مٹی‘ پانی اور ہوادی‘ اس کے ہاتھ میں اے کے 47 پکڑایا اور جہاد کے نئے مطلب سمجھائے اور اسے ایسے فدائین دستے کے طورپر تیارکیا جو جان لینے اور دینے کا خونی کھیل کھیل سکے۔
لیکن اس مضمون کا مقصد انتہا پسندی کے تعلق سے امریکاکے دوہرے کردارکی طرف توجہ مبذول کرانا ہی نہیں ہے‘ بلکہ یہ بتانا بھی ہے کہ گزشتہ سوبرسوں میں قوم پرستی ایسے ہی مہلک اور خود سوزمنصوبوں کے سہارے آگے بڑھی اور بڑھای گئی ہے۔ جب تک امریکا طاقت ور رہا‘ جب تک اس کے پاس اپنی حفاظت کے لیے نظریاتی ڈھال کی سہولت رہی‘ تب تک وہ جمہوریت کی بقاء‘اشتراکیت کی مخالفت اور حقوق انسانی کے پردے میں سب کچھ کرتا رہا‘ لیکن 8 ویں صدی کے ان آخری برسوں میں اس کی نچڑتی ہوئی طاقت نے اس کے خشک ہوتے ہوئے معاشی سرچشموں نے‘ اس کے تھکے ہوئے چڑچڑے پن نے اور اس کی مسلسل بے پردہ ہوتی ہوئی خود پرستی نے اس کے ارادوں اور حربوں کو ایک طرح سے بے نقاب کردیاہے۔ ہم چاہیں تو یاد کرسکتے ہیں کہ جسے امریکا 9/11 کہتاہے‘ جس حملے کو وہ اپنی جدید تاریخ کا سب سے بڑا حملہ بتاتا ہے اسی کی بدولت جارج بش دوم کو وہ سیاسی استحکام ملا‘ جس کی بدولت وہ 4سال نہیں‘ 8 سال حکومت کرگئے۔ ورنہ 2000ءمیں ہوا ان کا انتخاب بری طرح متنازعہ رہاتھا‘ ان پر انتخاب میں بدعنوانی کا الزام تھا‘ ان کے خلاف قانونی کارروائی چل رہی تھی‘ اور اتنے شدید سیاسی مظاہرے ہورہے تھے کہ وہ مسلسل وہائٹ ہاﺅس سے بھاگے بھاگے پھرنے پر مجبور تھے۔
لیکن جیسے ہی 9/11 ہوا‘ بش کے خلاف سارے الزام ہوا ہوگئے۔ امریکی ادارہ اقتدارنے غم میں ڈوبے اپنے شہریوں کے غم اورغصے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسندی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا اور اس جنگ کی آڑ میں اپنے ہی شہریوں کے حقوق تلف کرنے شروع کردیے۔ حفاظت کے نام پر اختیارکی جانے والی اس پالیسی کے نتیجے میں پہلی بار امریکی شہریوں کو بے عزتی برداشت کرنی پڑی‘ پابندیوں کو انگیزکرنا پڑا۔ طیاروں پر اپنے بچوں کے لیے دودھ کی بوتل لے کر سوارہونا ممنوع ہوگیا۔ صرف نام کی وجہ سے ایشیائی نژاد اورمسلم امریکیوں کو بھیانک پوچھ گچھ سے گزرنا پڑا‘ ناجائزگرفتاریاں ہوئیں‘ گوانتاناموبے جیسے کیمپ بنائے گئے۔ سرکاری انتہاپسندی کا ایسا چکر چلا جس میں امریکا تو محفوظ ہوگیا لیکن دنیا غیرمحفوظ ہوگئی۔ اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ جدیدیت اور عالمی بھائی چارگی کی طرف بڑھتے قدم ٹھٹھک گئے‘ لوگ ایک دوسرے سے اس کی قوم اور نسل پوچھنے لگے‘ ایک دوسرے پرشک کرنے لگے۔
جارج ولیم بش اتنے پرہی نہیں رکے‘ انہوں نے پہلے عراق پر حملہ کیا اورپھر افغانستان کو نشانہ بنایا۔ عراق میں انہیں مہلک ہتھیارنہیں ملے‘ لیکن صدام حسین مل گیا جو سینئر بش کے زمانے میں شروع ہوئے اور ادھورے رہ گئے ایک اور امریکی منصوبے کی آنکھوں کا چبھتا ہوا کانٹاتھا۔ افغانستان میں انہیں اسامہ بن لادن نہیں ملا‘ لیکن جنوبی ایشیا میں ایسا ٹھکانا مل گیا جہاں سے چند منٹوں میں اپنے جنگی طیارے اورہیلی کاپٹراطراف میںکہیں بھی بھیج سکتے تھے۔ برسوں بعد جلال آبادکے ایئربیس سے پروازکرکے اسامہ کے ٹھکانے تک پہنچنے والے امریکی ہیلی کاپٹر بتاتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا نے کیا حاصل کیاہے۔ اس پورے علاقے پر نظررکھنے اور حملہ کرنے کی طاقت۔
اتفاق سے اسامہ بھی تب مارا گیا جب امریکا کئی طرح کی مشکلوں میں گھراہے۔ وہ اب بھی دوسال قبل آنے والے معاشی بحران سے باہرنکلنے کی کوشش کررہاہے۔ اس دوران چین دنیا کی نئی معاشی قوت بن کر ابھرگیاہے۔ یہی وقت ہے جب فوربس نے دنیا کے سب سے طاقت ورلوگوں کی فہرست میں بارک اوباما سے اوپر چینی صدر ہوجنتاﺅکو جگہ دی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اوباما کی عوامی مقبولیت بھی اسی دورمیں مسلسل گری ہے۔ ایسے میں جب اسامہ ماراجاتاہے تو اوباما کی مقبولیت واپس آتی ہے۔ امریکی قوم پرستی کا عظیم قائد پھرسے کھڑاہوتاہے۔ امریکا اوراوباماکے لیے یہ داﺅں اتنا بڑا ہے کہ اسامہ پر حملے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی ساری حدیں توڑتے ہیں‘ کسی انتہا پسند تنظیم کی طرح نیوی سیل کو خاموشی سے پاکستان میں حملہ کرنے کے لیے بھیجتے ہیں اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ عام صدر نہیںہیں‘ انہیں امن کانوبل انعام ملاہے‘ جس کی حرمت اورپاکیزگی کی حفاظت انہیں کرنی چاہیے تھی۔
ویسے امریکا نے ایسے اخلاقی اصولوں کی پرواکبھی نہیں کی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ القاعدہ سے کہیں زیادہ امریکا نے بے گناہ لوگوں کا خون بہایاہے‘ عوام کی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کاکام کیاہے۔ اورسفّاک آمروں کو پناہ دی ہے۔ ویت نام سے چلی تک اورعراق سے افغانستان تک اس امریکی انتہا پسندی کی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ دراصل امریکا کے اسی رویے سے اسامہ بن لادن بنتے ہیں۔ اس لحاظ سے اوباما نے ایک اسامہ کو ماردیا ہے لیکن امریکی کارروائی کو اپنے ملک پر اور اپنی قوم پر حملے کی طرح دیکھنے والے بہت سارے مایوس نوجوانوںکے اندراسامہ بننے کا ارادہ پیداکردیاہے۔
بدقسمتی سے امریکا نے یہ کام تب کیا ہے جب اسلامی دنیا کے اندرسے ہی القاعدہ اور اس کی پروردہ انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھنے لگی تھی اور اس کی تحریک سے مذہب کی آڑمیں حکومت کرنے والے آمروں کے تخت وتاج ہل رہے تھے۔ امریکا بھول گیا کہ قتل سے لوگ بھلے مارے جائیں ‘ مگر ان کے افکارکو قوت ملتی ہے۔
جہاں تک بھارت کا سوال ہے‘ وہ امریکا کی راہ پر نہ چل سکتاہے نہ اسے چلنا چاہیے۔جو قوم پرست امریکا کی طرح بھارت کو بھی سرجیکل اسٹرائیک کے لیے اکسارہے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ قوم پرستی کے نام پر جنگ زوال پذیر نظاموں کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔انتہاپسندی سے جنگ کے بہانے پاکستان پر ایک حملہ ہماری حکومتوں کے سارے گناہوں سے توجہ ہٹا تولے گا لیکن اس کا نتیجہ دونوں طرف کے ہزاروں بے قصوروں کو بھگتنا پڑے گا۔پاکستان کی مفلوج حکومت کو بھی ایسی لڑائی راس آئے گی‘ اگر ہم اس نقلی اورجنونی قوم پرستی سے دورکھڑے ہوکر اپنے ملک اوردنیا کو دیکھیں گے تو کہیں زیادہ ٹھیک سے سمجھ سکیں گے کہ اسامہ بن لادن کیوں اورکیسے بنتے ہیں اورانہیں کیسے ختم کیاجاسکتاہے۔ (تہلکہ ہندی)
No comments:
Post a Comment