لوگ دنیا کے بڑے تخلیقی کارناموں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کارنامے کیسے انجام پائے؟ میر تقی میر کی عظیم الشان شاعری کیسے تخلیق ہوئی؟ اقبال نے شاعری کا تاج محل کیسے تعمیر کیا؟ مولانا مودودیؒ کا عہد ساز علمِ کلام کیسے وجود میں آیا؟ محمد علی جناح نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کیسے تخلیق کی؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے: تخلیق کا سرچشمہ محبت ہے یا اس کا عدم ہے، تعلق ہے یا لاتعلقی ہے، وصال ہے یا ہجر ہے، قربت ہے یا دوری ہے، Attachment ہے یا Dettachment ہے۔ لیکن یہاں ایک بات طے ہے، محبت کا کارنامہ عدم محبت کے کارنامے سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کا وجود اس کے عدم سے کہیں زیادہ قوی ہے، کہیں زیادہ جمیل ہے، کہیں زیادہ حسین ہے۔ میر تقی میر کا مشہور زمانہ شعر ہے
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
اس شعر کا لب لباب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے ہر طرف عدم کا اندھیرا تھا۔ کہیں کوئی شے موجود نہ تھی۔ اچانک خالقِ کائنات میں مخلوق کی محبت نے جوش مارا اور دیکھتے ہی دیکھتے محبت کی قوت نے عدم کے اندھیرے کو عظیم الشان وجود کے نور میں ڈھال دیا۔ محبت نے عدم کو وجود بنادیا۔ نفی کو اثبات میں تبدیل کردیا۔ محبت نہ ہوتی تو کائنات اور اس میں موجود لاتعداد مخلوقات کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ میر تقی میر کا ایک اور شعر ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر کی زندگی درد وغم کا مرقع تھی، اور درد و غم تعلق کا حاصل ہوتے ہیں۔ یہ میر کی شاعری کا بنیادی نکتہ ہے۔ میر کے پاس صرف ایک چیز ہے، عشق کا تجربہ۔ لیکن یہ تجربہ میر کے پورے وجود پر چھا گیا ہے اور پوری کائنات بن گیا ہے۔ میر کے اس تجربے کی خاموشی میر کی شاعری کی گویائی بن گئی ہے اور اس نے میر سے شاعری کے چھ دفتر یا چھ ضخیم دیوان تخلیق کرالیے ہیں۔
اقبال کی قوت بھی عشق کا تجربہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ میر کا محبوب ایک فرد تھا اور اقبال نے امتِ مسلمہ کو اپنا محبوب بنالیا۔ اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اقبال رات کو دو بجے بستر پر اچانک اٹھ کر بیٹھ جاتے ہوں گے اور جذب و شوق اور اضطراب کی ملی جلی حالت میں سوچتے ہوں گے کہ آنے والا کل امت کے لیے کیا لانے والا ہے؟ اقبال کو امت ِمسلمہ کے ماضی سے اتنی شدید محبت تھی کہ اس کی بنیاد پر انہوں نے دینی شعور میں مسلمانوں کا شاندار حال تخلیق کیا، اور اس شاندار حال سے انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک بے مثال مستقبل تخلیق کرنے کی تمنا اور جستجو کی۔
مولانا مودودیؒ کو اسلام اور امت ِمسلمہ سے ایسا عشق تھا کہ انہوں نے ایک قوم اور ایک ملّت نہیں، پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کردیا۔ ان کے عشق نے انہیں وہ بار اٹھانے پر مائل کیا جو بار پوری تہذیب اٹھاتی ہے۔ مولانا نے پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کیا، چنانچہ ان کے اثرات بھی امت گیر ہوگئے۔ اصول ہے: محبت جیسی ہوتی ہے اس کے نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔
عظیم جرمن شاعر رسکے کو ایک نوجوان شاعر نے اپنا شعری مجموعہ بھیجا اور اس سے اپنی شاعری کے بارے مےں رائے طلب کی اور پوچھا کہ کیا مجھے شاعری جاری رکھنی چاہیے؟ رسکے نے کہاکہ تم یہ بات مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ تمہیں یہ بات خود سے پوچھنی چاہیے۔ تمہیں خود سے یہ بنیادی سوال پوچھنا چاہیے کہ اگر تم شاعری نہیں کروگے تو کیا تم مرجاﺅگے؟ اور اگر تمہارا جواب یہ ہو کہ تم شاعری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو تمہیں شاعری جاری رکھنی چاہیے، اور اگر تمہارا جواب یہ ہے کہ ترک ِشاعری کے نتیجے میں تم مر نہیں جاﺅگے تو تمہیں شاعری چھوڑ دینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ شاعری کسی کے لیے اسی وقت زندگی کی ہم معنی بن سکتی ہے جب انسان کو زندگی سے غیر مشروط محبت ہو۔ اس صورت میں شاعری شاعر کے لیے آکسیجن بن جاتی ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں محبت اور تعلق کے بعد دوسری اہم چیز زبان ہے۔ زبان کے بغیر کسی خیال، کسی جذبے، کسی احساس، یہاں تک کہ کسی تصور کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ زبان کے ذریعے انسان اپنے باطن کی سیّاحی کرتا ہے۔ اپنے تجربے کو گرفت میں لاتا ہے۔ اپنے شعور کو اس کی وسعت اور گہرائی میں دریافت کرتا ہے اور اس پر قابو پاتا ہے۔ زبان کی مذہبی اہمیت یہ ہے کہ خدا زبان کے بغیر بھی انسانوں سے ابلاغ پر قادر تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے زبان کو انسانوں سے ابلاغ کے لیے پسند کیا۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ کا مظہر ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ نے اپنے اظہار کے لیے لفظ ”کُن“ کو اختیار کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ علوم مثلاً ریاضی وغیرہ کے سلسلے میں زبان اہم نہیں، کیونکہ ریاضی بالخصوص جدید ریاضی ہندسوں اور فارمولوں میں کلام کرتی ہے۔ یہ بات غلط نہیں، لیکن ہندسوں اور فارمولوں کی بنیاد تصورات پر ہے، اور تصورات زبان کے بغیر وجود میں نہیں آسکتے۔ چنانچہ ریاضی کیا مصوری تک کے سلسلے میں زبان اہم ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں مطالعے اور مشاہدے کی اہمیت بنیادی ہے۔ مطالعے کا مفہوم دوسرے کی زندگی میں شریک ہونا ہے۔ انسان جب میر، اقبال، غزالی یا مولانا مودودی کو پڑھتا ہے تو وہ دراصل ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ اس عمل سے انسان کے بہت سے خیالات پر پڑی گرد صاف ہوجاتی ہے، بہت سے جذبوں کو زبان مل جاتی ہے، بہت سے احساسات کو نام فراہم ہوجاتا ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں مشق یا Practice کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی بڑی تخلیق وجود میں نہیں آسکتی۔ اردو شاعری نے مشق کی اہمیت کے پیش نظر طرحی غزل کی روایت پیدا کی۔ اس روایت میں کسی شاعر کی غزل کے مصرعے کو نمونہ بناکر شاعروں کو اس پر شعر کہنے کے لیے کہا جاتا ہے، اور اس طرح شاعروں کو کسی دوسرے شاعر کی بحر، وزن، آہنگ، صوتی نظام اور معنویت کا پابند کردیا جاتا ہے۔ لیکن مشق شاعری میں ہی نہیں کرکٹ اور چائے بنانے تک میں اہم ہے۔ ٹنڈولکر اِس وقت دنیا کا سب سے بڑا بیٹسمین ہے، لیکن اگر اسے چھ سال کھیلنے نہ دیا جائے تو اس کا ”آرٹ“ بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ ایک مزیدار چائے بنانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل چائے بنانے کی مشق کرتا رہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے زمانے میں تخلیقی عمل کا زوال محبت کا زوال ہے، تعلق کا زوال ہے، زبان کا زوال ہے، مطالعے اور مشاہدے کا زوال ہے، مشق کا زوال ہے۔ مثلاً میر کی شاعری محبت کا سمندر ہے۔ اس کے مقابلے میں فیض کی شاعری کی محبت ایک بالٹی پانی سے زیادہ نہیں، اور احمد فراز کی محبت ایک گلاس پانی سے زیادہ نہیں۔ میر کی شاعری زبان کی وسعت اور گہرائی کی سطح پر بھی سمندر ہے۔ فیض کی لغت میر کی شاعری کی لغت کا دو تین فی صد ہے، اور فراز کی لغت شاید ایک فی صد۔ موازنے کی یہی صورت حال مطالعے، مشاہدے اور مشق کی سطح پر بھی ہے۔
www.nasikblog.com
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
اس شعر کا لب لباب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے ہر طرف عدم کا اندھیرا تھا۔ کہیں کوئی شے موجود نہ تھی۔ اچانک خالقِ کائنات میں مخلوق کی محبت نے جوش مارا اور دیکھتے ہی دیکھتے محبت کی قوت نے عدم کے اندھیرے کو عظیم الشان وجود کے نور میں ڈھال دیا۔ محبت نے عدم کو وجود بنادیا۔ نفی کو اثبات میں تبدیل کردیا۔ محبت نہ ہوتی تو کائنات اور اس میں موجود لاتعداد مخلوقات کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ میر تقی میر کا ایک اور شعر ہے
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر کی زندگی درد وغم کا مرقع تھی، اور درد و غم تعلق کا حاصل ہوتے ہیں۔ یہ میر کی شاعری کا بنیادی نکتہ ہے۔ میر کے پاس صرف ایک چیز ہے، عشق کا تجربہ۔ لیکن یہ تجربہ میر کے پورے وجود پر چھا گیا ہے اور پوری کائنات بن گیا ہے۔ میر کے اس تجربے کی خاموشی میر کی شاعری کی گویائی بن گئی ہے اور اس نے میر سے شاعری کے چھ دفتر یا چھ ضخیم دیوان تخلیق کرالیے ہیں۔
اقبال کی قوت بھی عشق کا تجربہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ میر کا محبوب ایک فرد تھا اور اقبال نے امتِ مسلمہ کو اپنا محبوب بنالیا۔ اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اقبال رات کو دو بجے بستر پر اچانک اٹھ کر بیٹھ جاتے ہوں گے اور جذب و شوق اور اضطراب کی ملی جلی حالت میں سوچتے ہوں گے کہ آنے والا کل امت کے لیے کیا لانے والا ہے؟ اقبال کو امت ِمسلمہ کے ماضی سے اتنی شدید محبت تھی کہ اس کی بنیاد پر انہوں نے دینی شعور میں مسلمانوں کا شاندار حال تخلیق کیا، اور اس شاندار حال سے انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک بے مثال مستقبل تخلیق کرنے کی تمنا اور جستجو کی۔
مولانا مودودیؒ کو اسلام اور امت ِمسلمہ سے ایسا عشق تھا کہ انہوں نے ایک قوم اور ایک ملّت نہیں، پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کردیا۔ ان کے عشق نے انہیں وہ بار اٹھانے پر مائل کیا جو بار پوری تہذیب اٹھاتی ہے۔ مولانا نے پوری امت ِمسلمہ کا فرضِ کفایہ ادا کیا، چنانچہ ان کے اثرات بھی امت گیر ہوگئے۔ اصول ہے: محبت جیسی ہوتی ہے اس کے نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔
عظیم جرمن شاعر رسکے کو ایک نوجوان شاعر نے اپنا شعری مجموعہ بھیجا اور اس سے اپنی شاعری کے بارے مےں رائے طلب کی اور پوچھا کہ کیا مجھے شاعری جاری رکھنی چاہیے؟ رسکے نے کہاکہ تم یہ بات مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ تمہیں یہ بات خود سے پوچھنی چاہیے۔ تمہیں خود سے یہ بنیادی سوال پوچھنا چاہیے کہ اگر تم شاعری نہیں کروگے تو کیا تم مرجاﺅگے؟ اور اگر تمہارا جواب یہ ہو کہ تم شاعری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو تمہیں شاعری جاری رکھنی چاہیے، اور اگر تمہارا جواب یہ ہے کہ ترک ِشاعری کے نتیجے میں تم مر نہیں جاﺅگے تو تمہیں شاعری چھوڑ دینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ شاعری کسی کے لیے اسی وقت زندگی کی ہم معنی بن سکتی ہے جب انسان کو زندگی سے غیر مشروط محبت ہو۔ اس صورت میں شاعری شاعر کے لیے آکسیجن بن جاتی ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں محبت اور تعلق کے بعد دوسری اہم چیز زبان ہے۔ زبان کے بغیر کسی خیال، کسی جذبے، کسی احساس، یہاں تک کہ کسی تصور کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ زبان کے ذریعے انسان اپنے باطن کی سیّاحی کرتا ہے۔ اپنے تجربے کو گرفت میں لاتا ہے۔ اپنے شعور کو اس کی وسعت اور گہرائی میں دریافت کرتا ہے اور اس پر قابو پاتا ہے۔ زبان کی مذہبی اہمیت یہ ہے کہ خدا زبان کے بغیر بھی انسانوں سے ابلاغ پر قادر تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے زبان کو انسانوں سے ابلاغ کے لیے پسند کیا۔ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ کا مظہر ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ نے اپنے اظہار کے لیے لفظ ”کُن“ کو اختیار کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ علوم مثلاً ریاضی وغیرہ کے سلسلے میں زبان اہم نہیں، کیونکہ ریاضی بالخصوص جدید ریاضی ہندسوں اور فارمولوں میں کلام کرتی ہے۔ یہ بات غلط نہیں، لیکن ہندسوں اور فارمولوں کی بنیاد تصورات پر ہے، اور تصورات زبان کے بغیر وجود میں نہیں آسکتے۔ چنانچہ ریاضی کیا مصوری تک کے سلسلے میں زبان اہم ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں مطالعے اور مشاہدے کی اہمیت بنیادی ہے۔ مطالعے کا مفہوم دوسرے کی زندگی میں شریک ہونا ہے۔ انسان جب میر، اقبال، غزالی یا مولانا مودودی کو پڑھتا ہے تو وہ دراصل ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ اس عمل سے انسان کے بہت سے خیالات پر پڑی گرد صاف ہوجاتی ہے، بہت سے جذبوں کو زبان مل جاتی ہے، بہت سے احساسات کو نام فراہم ہوجاتا ہے۔
تخلیقی عمل کے سلسلے میں مشق یا Practice کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی بڑی تخلیق وجود میں نہیں آسکتی۔ اردو شاعری نے مشق کی اہمیت کے پیش نظر طرحی غزل کی روایت پیدا کی۔ اس روایت میں کسی شاعر کی غزل کے مصرعے کو نمونہ بناکر شاعروں کو اس پر شعر کہنے کے لیے کہا جاتا ہے، اور اس طرح شاعروں کو کسی دوسرے شاعر کی بحر، وزن، آہنگ، صوتی نظام اور معنویت کا پابند کردیا جاتا ہے۔ لیکن مشق شاعری میں ہی نہیں کرکٹ اور چائے بنانے تک میں اہم ہے۔ ٹنڈولکر اِس وقت دنیا کا سب سے بڑا بیٹسمین ہے، لیکن اگر اسے چھ سال کھیلنے نہ دیا جائے تو اس کا ”آرٹ“ بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ ایک مزیدار چائے بنانے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل چائے بنانے کی مشق کرتا رہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے زمانے میں تخلیقی عمل کا زوال محبت کا زوال ہے، تعلق کا زوال ہے، زبان کا زوال ہے، مطالعے اور مشاہدے کا زوال ہے، مشق کا زوال ہے۔ مثلاً میر کی شاعری محبت کا سمندر ہے۔ اس کے مقابلے میں فیض کی شاعری کی محبت ایک بالٹی پانی سے زیادہ نہیں، اور احمد فراز کی محبت ایک گلاس پانی سے زیادہ نہیں۔ میر کی شاعری زبان کی وسعت اور گہرائی کی سطح پر بھی سمندر ہے۔ فیض کی لغت میر کی شاعری کی لغت کا دو تین فی صد ہے، اور فراز کی لغت شاید ایک فی صد۔ موازنے کی یہی صورت حال مطالعے، مشاہدے اور مشق کی سطح پر بھی ہے۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment