Thursday, October 6, 2011

پاکستانی سیاستدان اور بے بسی کا تماشا

اکستان کے سیاست دانوں کا اقتداربے بسی کا تماشا اور بے اختیاری کا دھمال ہے۔ کہنے کو صدر مملکت پوری مملکت کا سربراہ ہوتاہے اور وزیراعظم حکومت کے سرکا تاج ہوتاہے لیکن ہمارے یہاں صدر گریڈ 23 اور وزیراعظم گریڈ 24کا ملازم ہوتاہے۔ ان کا اقتدار صرف اس قدرہوتاہے کہ انہیں رہنے کے لیے خصوصی گھر فراہم ہوتے ہیں۔ سفرکے لیے خصوصی طیارے مہیاہوتے ہیں۔ وہ دوچار ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ ان کے بیانات عہدے اور منصب کی وجہ سے شہ سرخیوں میں شائع ہوتے ہیں۔ وہ آئے دن غیرملکی دورے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن نہ وہ دفاعی پالیسی بناتے ہیں۔ نہ ان کا خارجہ امورسے کوئی تعلق ہوتاہے۔ ملک کی اقتصادیات پربھی ان کا کوئی بس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ داخلہ امور پر گرفت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہماری مملکت کے صدر کی بے بسی کی علامت صدر فضل الٰہی چودھری تھے جن کے دورمیں کسی ستم ظریف نے ایوان صدرکی دیوارپر لکھ دیا تھا۔”صدر فضل الٰہی کو رہاکرو“ ہمارے وزرائے اعظم کی بے بسی کی کلاسیکل مثال محمدخان جونیجو تھے۔ان سے پہلے اور ان کے بعد جتنے وزیراعظم آئے وہ سب کسی نہ کسی درجے میں محمدخان جونیجو کی توسیع تھے۔ البتہ بھٹو صاحب کا معاملہ ذرا مختلف تھا وہ ملک کے طاقت ورترین وزیراعظم تھے لیکن اس میں ان کا کوئی خاص کمال نہیں تھا۔ بھٹو صاحب سقوط ڈھاکا کے بعد وزیراعظم بنے تھے اور سقوط ڈھاکا کے سانحے سے ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیارڈالے تھے۔ لیکن وہ جیسے ہی اپنے تئیں قوم کو منہ دکھانے کے قابل ہوئے جنرل ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کا دھڑن تختہ کردیا‘ اور انہوں نے بھٹوکو پھانسی کے پھندے پرلٹکاکر دم لیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کی وجہ کیاہے؟۔
 سیاست دان خود بھی اس صورتحال کی ذمہ دارہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں کے ذمہ داروں کا تعلق کن امور سے ہے۔؟جمہوری دور میں بادشاہت کے ادارے پر تنقید ایک فیشن ہے لیکن بادشاہت کے ادارے کی بہت بڑی اور بنیادی خوبی یہ تھی کہ اس میں مستقبل کے بادشاہ کی تعلیم وتربیت کا غیرمعمولی اہتمام کیاجاتاتھا۔ اسے مذہب پڑھایاجاتا تھا۔ فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ فنون میں ماہر بنادیاجاتاتھا۔ فن حرب کی مکمل تربیت دی جاتی تھی۔ خطابت سکھائی جاتی تھی۔ اس کے لیے اپنے اپنے شعبوں کے اہم ترین لوگ مشیرکے طورپر مہیاکے جاتے تھے۔ کہنے کو سکندر اعظم ایک بادشاہ تھا۔ لیکن اس کا اتالیق ارسطو تھا جو فلسفے کی تاریخ کے تین عظیم ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ لیکن جدید عہد کے سیاست دان تعلیم وتربیت کے اعتبارسے بادشاہوں کا پاسنگ بھی نہیں ہوتے۔ دنیا کے بعض ملکوں میں باضابطہ تعلیم وتربیت کی کمی سیاسی جدوجہد کی نوعیت نے پوری کی۔ مثلاً ہندوستان میں ہندوسے مرارجی ڈیسائی تک تمام وزرائے اعظم جدوجہد آزادی کے رہنما یا اس کے بڑے کارکن رہے تھے۔ لیکن پاکستان کے سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ ان کا علم اوسط درجے کے عام آدمی سے بھی کم ہے۔ ان کی تربیت عام انسان کی تربیت سے زیادہ محدود ہے۔ چنانچہ معمولی تعلیم وتربیت کے ساتھ فوجی اور سول بیوروکریسی ان پر حاوی ہوجاتی ہے اور سیاست دان ان دونوں کے سامنے دائمی احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ 
غالب نے یہ مصرعہ پاکستانی سیاست دانوں کے بارے میں نہیں کہا لیکن اس کا اطلاق یہ تمام وکمال پاکستان کے سیاست دانوں پر ہوتاہے۔ غالب نے کہاہے۔
بھٹو صاحب جنرل ایوب کا لگایا ہوا پودا تھے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہاکرتے تھے۔ میاں نوازشریف جنرل غلام جیلانی کے پرودہ تھے۔ الطاف حسین جنرل ضیاءالحق کی تخلیق ہیں۔ اس صورتحال کے دوبھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاستدان کبھی اپنا ذہن اور اپنی آزادانہ رائے پیدا نہیںکرپاتے۔ اوراگرکبھی اس کی نوبت آتی ہے تو جرنیلوں کو یہ چیزبغاوت محسوس ہوتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں نقصان ملک اور قوم کا ہوتاہے۔
ہمارے سیاستدانوں کی بے بسی کے تماشے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنی پارٹیوں کو مافیا تو بنالیتے ہیں مگر سیاسی جماعت نہیں بناپاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوںکو کبھی جرنیلوں کے مقابلے پر مزاحمتی قوت حاصل نہیں ہوپاتی۔ بھٹو صاحب جنرل ضیاءالحق کے مقابلے پر آئے تو پھانسی پر لٹک گئے اور میاں نوازشریف اور الطاف حسین ملک سے فرارہوگئے۔
ہمارے سیاستدانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ذاتی خاندانی اورگروہی مفادات سے بلند نہیں ہوپاتے۔چنانچہ ان کی سیاست مفادت پرستی کی سیاست بن کر رہ جاتی ہے اور مفاد پرستی کی سیاست نہ معاشرے میں شعورپیداکرتی ہے۔ نہ مزاحمت کا رجحان خلق کرتی ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ 50 برسوں میں جرنیلوں کے عزائم اور اقدامات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ وہ جب چاہتے ہیں مارشل لاءلگادیتے ہیں اور اگر وہ مارشل لا نہیں لگاتے تو اس کی وجہ سیاست دانوں کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ ان کی کوئی اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ مثال کے طورپرجنرل پرویزمشرف کی نامقبولیت نے فوج کی ساکھ کو برباد کردیا اور اسے قومی زندگی میں کھلے عام مرکزی کردار اداکرنے کے قابل نہ چھوڑا اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ صدر زرداری اور افتخارگیلانی کی حکومت نمائشی بن کر رہ گئی ہے اور جرنیل پردے کے پیچھے بیٹھ کر ایک بارپھر ملک چلارہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment