قائداعظم نے اپنے فلسفہ حیات کے ایک پہلو کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ”کام، کام اور صرف کام“۔ لیکن پاکستان پر مسلط حکمرانوں نے قائداعظم کے اس تصورِ حیات کو ”آرام، آرام اور صرف آرام“ کے تصور میں ڈھال دیا ہے۔ قائداعظم کے لیے کام ہی آرام تھا، اور ہمارے حکمرانوں نے آرام کو بھی کام بنادیا ہی.... ایک قومی کام۔ ہم کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتتے ہیں تو قومی تعطیل کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ کسی قومی شخصیت کا انتقال ہوتا ہے تو پورے ملک پر تعطیل سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری قوم کا حال ظفراقبال کے شعر جیسا ہے۔ ظفراقبال نے کہا ہے نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہی اور اس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے ظفراقبال کے اس شعر میں خاموشی اور کچھ نہ کرنا بھی ایک کام ہے جس کے بعد طویل آرام کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوگیا ہے۔ پاکستان میں تعطیلات کی بھرمار بلکہ تعطیلات کے کلچر کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہم دو‘ تین سال سے مسلسل مصروف تھے اور ہمیں کسی اچانک رونما ہوجانے والی خوشی یا غم کی وجہ سے ایک عدد تعطیل کی سخت ضرورت تھی۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال بیگم نصرت بھٹو کے انتقال پر ہونے والی ملک گیر تعطیل ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ وہ بھٹو صاحب کی بیوی، پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کی ماں اور صدر آصف علی زرداری کی ساس تھیں، اور ہمیں یاد نہیں کہ دنیا کی عصری تاریخ میں کسی بیوی، کسی ماں اور کسی ساس کے انتقال پر کبھی کہیں قومی تعطیل ایجاد ہوئی ہو۔ بیگم نصرت بھٹو قومی اسمبلی کی رکن رہی تھیں، لیکن ان کی شخصیت کا سیاسی پہلو قومی زندگی میں اتنا بھی اہم نہیں تھا جتنا کہ مرتضیٰ بھٹو کا تھا۔ بلاشبہ بیگم نصرت بھٹو کی زندگی المناک تھی۔ انہوں نے اپنے شوہرکی پھانسی دیکھی، دوبیٹوں کی حادثاتی اموات کا دکھ جھیلا، بے نظیربھٹو کی افسوسناک موت کا غم اٹھایا.... لیکن اس کے باوجود ان کے انتقال میں وہ معنویت نہیں تھی کہ اسے پورے ملک پر محیط کردیا جائے۔ لیکن یہ مسئلہ انفرادی نوعیت کا ہے ہی نہیں۔ یہ صورت حال ہمارے حکمران طبقے کے مجموعی مزاج کا ایک عکس ہے۔ ملک پر نوازلیگ، ق لیگ یا کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی اور اس کے پاس کوئی بیگم نصرت بھٹو ہوتیں تو وہ بھی یہی کرتی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ملک میں تعطیلات کا کلچر کیوں پیدا ہوا ہے اور ہم بحیثیت ایک قوم کے چھٹیوں کے عشق میں کیوں مبتلا ہوگئے ہیں؟ ہماری قومی زندگی میں تعطیلات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حکمران اسے ”رشوت“ کے طور پر دیتے ہیں اور عوام اسے رشوت کے طور پر وصول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ تعطیل کا کوئی ”میرٹ“ نہیں ہی، اور عوام بھی اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کو ملنے والی چھٹی بلاجواز ہے۔ تعطیل کی اس نوعیت سے اس میں ایک ڈرامائیت اور سنسنی خیزی پیدا ہوجاتی ہے جو تعطیل کے ”لطف“ کو دوبالا کردیتی ہے۔ اس رشوت کا خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں نہ دینے والا اپنی جیب سے کچھ دے رہا ہے اور نہ لینے والے کو اس کے لیے کوئی تگ ودو کرنی پڑی ہے۔ معاملے کی اس نوعیت نے تعطیلات کو کلچر بنادیا ہی، یعنی اسے قومی زندگی کا ”فطری منظر“ بنادیا ہے۔ کسی معاشرے میں انسانوں کی بڑی تعداد جب عدم تحرّک یا Passivity کو پسند کرنے لگتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں زندگی صرف حسّی یعنی Sensuous سطح تک محدود ہوگئی ہے اور اس کا عقل وفہم سے تعلق کمزور پڑگیا ہے۔ اس بات کو علمی زبان کے بجائے عوامی زبان میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ معاشرے میں انسانی عنصر کم ہورہا ہے اور اس میں حیوانی عنصر بڑھ رہا ہے۔ آرام طلبی جبلتوں کی اسیری کی علامت ہے۔ غور کیا جائے تو کام مسرت کا دوسرا نام ہی، اس لیے کہ کام شعور کی پیش رفت ہے۔ زندگی کی ہر مشکل کام ہی سے آسان ہوتی ہی، اور مشکل پر قابو پانے میں بے پایاں مسرت پوشیدہ ہے۔ چنانچہ جب انسان کام سے بھاگتا ہے تو وہ کارزارِحیات سے فرار ہوتا ہے اور حقیقی مسرت سے دامن چھڑاتا ہے۔ لیکن انسان مسرت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ جب حقیقی مسرت انسان کی گرفت سے نکل جاتی ہے تو وہ خیالی مسرت پرگزارہ کرنے لگتا ہے اور خیالی مسرت حقیقی مسرت کا سایہ ہے۔ جن معاشروں کے سامنے اجتماعی اہداف ہوتے ہیں وہ غیر ذمہ دار ہونے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے کی قدرکرتے ہیں، اسے بامعنی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تعطیلات سے ہماری محبت اس امر کی چغلی کھارہی ہے کہ ہم اجتماعی اہداف سے محروم قوم بن چکے ہیں، ہمارے ذہن میں تعطیل کے حوالے سے کسی اجتماعی نقصان کا تصور نہیں ابھرتا، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ تعطیل سے اجتماعی زندگی میں کوئی تعطل نمودار نہیں ہوگا۔ حالانکہ تعطیل سے کروڑوں انسانوں کی زندگی تعطل کا شکار ہوجاتی ہے۔ زندگی کا تعطل انسان کے جوش وجذبی، تحرک، غرضیکہ ہر چیز پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسی تعطیل جو کام سے متعلق ہوتی ہے اور کام کے بعد آتی ہی، نہایت بامعنی ہوتی ہے۔ لیکن کام سے لاتعلق تعطیل میں بے معنویت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس سے نہ انسان کو جسمانی فائدہ ہوتا ہی، نہ ذہنی اور نفسیاتی فائدہ۔ کہنے کو کسی شخص کے نام پر کی جانے والی تعطیل اس شخص کی عظمت کے اعتراف میں کی جاتی ہی، لیکن ہمارے یہاں تعطیل کی جو صورت سامنے آتی ہے اُس سے اس شخص کی عظمت کے بجائے اس کی مذمت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بیگم نصرت بھٹو کے نام پر کی جانے والی تعطیل ہے۔ اس روز ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت اور خدمات پرگفتگو کی جاتی۔ لیکن اس دن کو اکثر لوگوں نے یونہی گزار دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیگم نصرت بھٹو کی تعریف کی صورت ہے یا مذمت کی؟
No comments:
Post a Comment