Thursday, October 27, 2011

انقلابی اورجمہوری بادشاہتیں

انقلابی اورجمہوری ادوار میں بادشاہت کا ذکر ایسے ہوتا رہا ہے جیسے بادشاہت انسانیت کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہو۔ اس کے برعکس انقلابی اورجمہوری عناصر انقلاب اور جمہوریت کو انسانیت کے ماتھے کا جھومرباورکراتے رہے ہیں۔ بادشاہت کے ادارے سے چاربڑی اور بنیادی برائیاں منسلک کی گئی ہیں۔
(1) تقدیس
(2) شخصی نوعیت
(3) جبر
(4) تعیش

ان چارباتوں کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو مامور من اللہ سمجھ کر اس کو مقدس سمجھاگیاہے اور اس کے شخصی فیصلے پوری ریاست پر حاوی رہے ہیں۔ بلاشبہ بادشاہوںکے وزیربھی ہوتے تھے لیکن فیصلہ بادشاہ ہی کا حتمی ہوتاتھا۔ چنانچہ بادشاہت کے ادارے میں جبرکی صورت مضمر تھی اور اس جبرکا کوئی علاج نہیں تھا۔ بلاشبہ بادشاہوں کے خلاف بغاوتیں بھی ہوتی تھیں لیکن بغاوت سے بادشاہ بدلتا تھا بادشاہت نہیں۔ چونکہ بادشاہ مقدس تھا۔ اس کا ہرلفظ قانون تھا اور اس کے پاس اپنے لفظ کو قانون بنانے کی طاقت تھی چنانچہ بادشاہوں میں وسائل کا ضیاع اور وسائل کی بربادی کا رجحان عام تھا اور ان کی ذاتی زندگی میں تعیش کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بادشاہت کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میںکیا ہوا؟
روس کے انقلاب کا رہنما اگرچہ لینن تھا لیکن کمیونسٹ پارٹی میں ٹرائے ٹسکی کی اہمیت تقریباً لینن کے مساوی تھی اور ٹرائے ٹسکی کا کہنا تھا کہ لینن مارکس کے تصورات کو مسخ کررہاہے۔ اس بنیاد پر لینن اور ٹرائے ٹسکی کے درمیان ایک کشمکش برپا رہتی تھی اور ایک مرحلے پر لینن نے ٹرائے ٹسکی کے بارے میں کہاکہ روس میں انقلاب برپا ہوگا تو روس کے انقلابی نہ جانے ٹرائے ٹسکی کا ذکر کن الفاظ میں کریں گے؟ ٹرائے ٹسکی نے کہاکہ اگر انقلاب لانے والے انسان ہوں گے تومجھے یقین ہے کہ وہ میرا ذکراحترام سے کریں گے اور اگر انقلاب لانے والے انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس کی فکرنہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ روس میں انقلاب برپا ہوا اور لینن نے ٹرائے ٹسکی کو روس میں رہنے نہیں دیا۔ ٹرائے ٹسکی کو روس چھوڑنا پڑا اور برسوں بعد ٹرائے ٹسکی کو قتل کردیاگیا۔سوال یہ ہے کہ ٹرائے ٹسکی کے سلسلے میں لینن کا رویہ انقلابیت کا عکاس ہے یا بادشاہت کا؟
روس میں انقلاب کے بعد مارکس لینن اور اسٹالن کے ساتھ ویسی ہی تقدیس وابستہ کی گئی جیسی کہ بادشاہوں کے ساتھ کی جاتی تھی۔ ان کے خیالات کو وحی کا درجہ حاصل تھا۔ اور ان کے شخصی فیصلوں کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کے جی بے کے جبرکا یہ عالم تھا روسی قیادت اور پولٹ بیوروکے فیصلوں پر تنقید کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا۔ اگرچہ کمیونزم مساوات کا قائل تھا لیکن سوویت قیادت اور پولٹ بیورکے لوگوں کی زندگی ہر اعتبار سے ”فائیو اسٹار“ تھی اور عوام کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس تناظرمیں دیکھاجائے تو روس کی انقلابی حکومت انقلابی بادشاہت کے سواکچھ نہ تھی۔
چین میں ماوزے تنگ نے انقلاب برپاکیا اور چین میں ماﺅ کے ساتھ وہی تقدیس وابستہ ہوئی جوبادشاہت کا خاصہ تھی۔ چین میں بھی ماﺅ کا حکم ہی حتمی تھا اور اس حکم سے سرتابی کی کسی میں مجال نہ تھی۔ جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاوپنگ ماﺅ کے ساتھی تھے مگر وہ اپنے ذہن سے سوچنا بھی جانتے تھے۔ چنانچہ انہیں ”غدار“ قراردیا گیا اور پارٹی سے نکال دیا گیا۔ ماﺅکے انتقال کے بعد ڈینگ ژیاﺅ پنگ کمیونسٹ پارٹی میں دوبارہ مرکزیت اختیارکرگئے اور انہوں نے چین کو معاشی ترقی کا وہ نمونہ فراہم کیا جس پر چین 25 سال سے عمل کررہاہے اور جو ماﺅ کے تصورات کی ضد ہے۔
عصر حاضرمیں جمہوریت کی سب سے بڑی توہین دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ یعنی اقوام متحدہ ہے۔ اس ادارے کے دو بنیادی حصے ہیں جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل‘ جنرل اسمبلی اکثریت کی نمائندہ ہے مگر یہاں صرف تقریریں ہوتی ہیں۔ سلامتی کونسل اقلیت کی نمائندہ ہے اور یہاں پوری دنیاکی تقدیرکے فیصلے ہوتے ہیں۔ سلامتی کونسل میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹوکا حق حاصل ہے۔ اس صورتحال میں نہ کہیں اکثریت کا اصول ہے۔ نہ کہیں علم ہے۔ نہ کہیں دلیل ہے۔ اس منظرنامے میں پانچ طاقتوں کی تقدیس ہے۔ ان کی شخصی طاقت کا پھیلاﺅ ہے۔ ان کی طاقت کا جبرہے۔ اور اس منظرنامے میں وسائل کا بے پناہ ضیاع ہے۔ یہ صورتحال جمہویت نہیں جمہوری بادشاہت کا مظہرہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پوری دنیا اس بادشاہت کو جمہوریت کہتی ہے اور اس پر اسے کوئی خاص اعتراض نہیں۔ گزشتہ دو تین سال سے خیال ظاہرکیاجارہاہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کیاجائے۔ یعنی عالمی برادری سلامتی کونسل کے شاہانہ کردار کو ختم کرنے کے بجائے اس کے دائرے میں توسیع کا عزم رکھتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ خود کو بادشاہت کا دشمن اورجمہوریت کا دوست سمجھتی ہے۔
تیسری دنیا فوجی آمریتوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور فوجی آمریتیں دراصل جرنیلوں کی بادشاہتوں کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوجی آمریتیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے سند جواز حاصل کرتی رہی ہیں۔
مغربی دنیا میں جمہوریت کا سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان ملکوں میں جمہوریت طبقہ امراءکی تلوار اور طبقہ امراءکی ڈھال بن گئی ہے۔ امریکا میں جمہوریت دوپارٹیوں کی قیدی ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اور اس جمہوریت کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کا یہ حال ہے کہ اس پر ہندوخاندان کا قبضہ ہے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی کا تصور بھٹوخاندان کے بغیر محال ہے۔ شریف خاندان کے بغیر ن لیگ کا کوئی مستقبل نہیں۔ اے این پی ولی خان کے خاندان کی میراث ہے۔ایم کیو ایم الطاف حسین کا رومال ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست شیخ مجیب اور جنرل ضیاءالرحمن کے خاندان کی قید میں ہے۔ سری لنکا میں بھی ڈیڑھ دوخاندانوں کا سکہ چل رہاہے۔
ان حقائق کے باوجود بھی اربوں لوگوں کا خیال ہے کہ بادشاہت کا تاریک دور اور بادشاہت کا منحوس تجربہ ختم ہوگیا۔ اور دنیا انقلابیت اور جمہوریت کی روشنی میں اپنا سفر طے کررہی ہے۔ اس صورتحال کا مفہوم یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کی نظر صرف چیزوں کے ظاہرپر ہوتی ہے باطن پر نہیں۔

No comments:

Post a Comment