ایک مسلمان کے لیے آپ کی ذات اقدس جس طرح حضر میں اسوہ اور نمونہ ہے‘ اسی طرح سفر میں بھی قابل تقلید واتباع ہے۔ اسی لیے صحابہؓ نے ایک طرف آپ کے حضر کے معمولات کو احادیث میں بیان کیا ہے تو دوسری طرف سفر کے بھی تمام گوشوں کو امت کے سامنے احادیث کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جس طرح آپ نے سفر میں فرض نمازوں کو قصر وجمع بین الصلاتین کی صورت میں ادا فرمایا ہے‘ اسی طرح آپ نے سفر میں سنن رواتب (نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) اور مطلق نوافل کا بھی اہتمام فرمایا ہے۔ انھی احادیث سے محدثین وفقہاءنے سفر میں رواتب وغیر رواتب سنن کے استحباب پر استدلال کیا ہے‘ لیکن افسوس کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سفر میں سنن ونوافل بسہولت ادا کرنا ممکن ہونے کے باوجود سنتیں معاف ہیں۔ ہم درج ذیل سطور میں اس مسئلے کے متعلق مفصل ومدلل روشنی ڈال رہے ہیں۔ سب سے پہلے ان احادیث کو پیش کرتے ہیں جو سفر میں سنت نماز کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں۔
سفر میں سنت کے ثبوت پر احادیث:۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں اپنی سواری پر سواری کے رخ کی طرف اپنا رخ کرکے اشارے سے تہجد ادا فرماتے تھے اور اپنی سواری پر وتر پڑھا کرتے تھے‘ (بخاری 1095)
حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ اپنی سواری پر نفل نماز پڑھتے تھے اور آپؓ وتر بھی اس پر پڑھ لیتے اور بیان کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کرتے تھے۔ (مسلم 610)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس طرف رخ کیے ہوتی اسی طرف رخ کرکے آپ سنت نماز پڑھتے تھے۔ (ترمذی 552)
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ حضر وسفر میں نماز پڑھی میں نے حضر میں آپ کے ساتھ ظہر کی چار رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت پڑھی اور سفر میں ظہرکی دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت پڑھی‘ مغرب کی حضر وسفر میں تین ہی رکعت ہیں اور اس کے بعد دورکعت ہیں۔ (ابوداﺅد 1222)
حضرت براءبن عازبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ اٹھارہ سفرکیے۔ کبھی آپ کو زوال شمس کے بعد ظہر سے پہلے دو رکعت سنت ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مسلم‘ 310)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ہم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری حصے میں ایک جگہ پڑاﺅ ڈال کر سوگئے‘ جب ہم بیدار ہوئے تو سورج طلوع ہوچکا تھا‘ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنی سواری کی نکیل پکڑ لے (یعنی یہاں سے آگے چلے) اس لیے کہ یہ ایسی جگہ ہے‘ جہاں ہمارے پاس شیطان آگیا ہے چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا‘ پھر آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر دو رکعت فجرکی سنت اداکی‘ اس کے بعد جماعت کھڑی کی گئی تو آپ نے فجر کی نماز پڑھائی۔ (بخاری‘ 1176)
حضرت ام ہانیؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ اُن کے گھر میں داخل ہوئے اور غسل کرکے آٹھ رکعات (چاشت) کی ادا فرمائی‘ (فتح مکہ کے موقع پر آپ مسافر تھے۔)
مذکورہ احادیث کے علاوہ بھی کئی احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں جن کی روشنی میں محدثین کرام اور فقہاءامت نے سفر میں سنت نماز کے مستحب ومشروع ہونے پر استدلال کیا ہے۔ لہٰذا احادیث کے بعد ان حضرات کے اقوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔
آپ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ سفر میں نفل نماز پڑھا کرتے تھے‘ اور وہ فجر کی دو رکعت (سنت) ہے یہاں تک کہ غزوہ خیبر سے واپسی کے وقت فجر کی نماز کے وقت آپ اور آپ کے صحابہ سوتے رہے تو جب نماز فجرکی قضاءفرمائی تو آپ اور صحابہؓ نے فرض کے ساتھ سنت کی بھی قضاءکی اور آپ سے صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ سواری پر نفل نماز پڑھا کرتے اور اس پر وتر بھی ادا کرتے۔ (فتاوی الکبری لابن تیمیہ 150/1)
اس عبارت سے سنن رواتب و غیررواتب کا سفر میں پڑھنے کا ثبوت معلوم ہورہا ہے۔ شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں۔
(موسوعہ الاحکام ولافتاویٰ الشرعیہ 443,42)
سفر وحضر میں مطلع نوافل کا پڑھنا مشروع ہے‘ اسی طرح سبب والی سنت نمازیں بھی مشروع ہیں جیسے تحیت الوضوئ‘ طواف کی دو رکعت‘ سنت‘ چاشت اور تہجد کی سنت نماز‘ سفر میں مشروع ہے ان احادیث کی بنا پر جو اس سلسلہ میں وارد ہیں۔
امام شافعی فرماتے ہیں۔
(کتاب الام 365/2)
مسافر کے لیے رات دن میں نفل نماز پڑھنا سنت ہے‘ چاہے وہ قصر کرے یا نہ کرے اور آپ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ رات میں نوافل کا اہتمام فرماتے تھے دراں حالے کہ آپ قصرکرتے تھے۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔
فرائض کے ساتھ سنن رواتب سفر میں بھی سنت ہیں۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں۔
مسافر سنن رواتب کو ادا کرے گا یہی بات پسندیدہ ہے۔
امام نوویؒ ان تمام روایتوں کی بنیاد پر شرح مسلم میں فرماتے ہیں۔
سفر میں مطلق نوافل کے مستحب ہونے پر تمام علماءکا اتفاق ہے۔ البتہ سنن رواتب کے سلسلے میں بعض حضرات نے حضرت ابن عمرؓ ہی کی روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنت نماز نہیں پڑھتے تھے (ترمذی 550) کی وجہ سے اختلاف کیا ہے کہ سفر میں سنن رواتب میں سے چند سنتوں مثلاً فجر کی سنت‘ وتر وغیرہ کے علاوہ دیگر سنن رواتب مشروع نہیں ہیں۔ چنانچہ شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں۔
کہ سفر میں سنن رواتب مشروع نہیں ہیں۔ البتہ سنن رواتب میں سے فجر کی سنت اور وتر مشروع ہے۔ اس لیے کہ آپ نے سفر وحضر میں ان سنتوں کی پابندی کی ہے۔ (فتاویٰ اللجنتہ الدائمہ 256/7) لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے سفر میں سنن رواتب وغیررواتب کے مشروع سنت ہونے کی احادیث کثرت سے مروی ہیں‘ تو دوسری طرف حضرت ابن عمرؓ ہی فرما رہے ہیں کہ آپ سفر میں نماز سے پہلے اور بعد میں سنت نہیں پڑھتے تھے۔ اسی لیے علماءومحدثین نے حضرت ابن عمرؓ کی اس حدیث کی بہت ساری توجیہات نقل کی ہیں۔ مزید یہ کہ امام مالکؒ نے حضرت نافعؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابن عمرؓ نے اپنے بیٹے عبیداللہ کو سفر میں نفل نماز پڑھتے دیکھا اور منع نہیں فرمایا۔ (موطا الامام مالک 53)
سفر میں سنن رواتب کے نفی پر مستدل روایت کی توجیہات:۔
حضرت ابن عمرؓ کے اس ارشاد سے کہ آپ رواتب نہیں پڑھتے تھے‘ امکان ہے کہ آپ نے سنن رواتب کوکجاوہ میں پڑھا ہو اور ابن عمرؓ نے نہ دیکھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے جواز کو بتلانے کے لیے چھوڑا ہو۔ (شرح مسلم218/3)
حضرت ابن عمرؓ سے جو روایتیں سنن رواتب کے سنت ہونے کے متعلق مروی ہیں ان کو ان کی یادداشت پر محمول کیا جائے گا اور عدم مشروعیت والی روایت کو ان کے نسیان اور بھول پر محمول کیا جائے گا۔ (تحفتہ الاحوزی96/3)
ابن عمرؓ کی روایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ سفر میں سنن رواتب کو اگرکوئی ترک کرنا چاہے تو اس کے لیے جائز ہے‘ نہ کہ غیر مشروع یا ممنوع (تحفتہ الاحوزی96/3)
حضرت ابن عمرؓ کی دوسری ایک روایت کہ وہ فرماتے ہیں صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان لایزعلی رکعتین‘ میں آپ کے ساتھ رہتا تھا تو آپ دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (بخاری 1102) شیخ ابن حجر عسقلائی اور ابن دقیق العیدؒ فرماتے ہیں کہ جب دوسری روایات سے سنن رواتب کے پڑھنے کا ثبوت ہے تو پھر اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ آپ فرض رکعات کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتے تھے (فتح الباری 713/3) اس کے علاوہ ابن عمرؓ خود فرماتے ہیں‘ لوکنت مسبحا اتممت صلاتی‘ اگر مجھے سفر میں نفل نماز پڑھنا ہوتی تو پھر میں اتمام کرتا (سنن بیہقی 6508) شیخ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتمام صلاة اور سنن رواتب میں مجھے اختیار دیا جائے تو مجھے اتمام یعنی چار رکعت مکمل پڑھنا زیادہ محبوب ہے نہ کہ ترک (فتح الباری 713/3) امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر سفر میں سنن رواتب کو چھوڑ کر قصر کے بجائے اتمام کو ہی مشروع کیا جاتا تو ہمیشہ اتمام ہی کرنا واجب ہوتا۔ اس لیے رواتب کے سلسلے میں مکلف کو اختیار ہے کہ چاہے تو سنت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے سنن رواتب پڑھے‘ چاہے تو ترک کرے ۔ (شرح مسلم 218)
تفصیل بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سفر میں مطلق سنتوں کے عدم ثبوت پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ سنن رواتب میں بھی فجر کی سنت‘ ظہر اور مغرب کے بعد کی دو رکعت سنتیں اور وتر ونماز کے سفر میں پڑھنے کا مذکورہ احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔
سفر میں سنت کے ثبوت پر احادیث:۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں اپنی سواری پر سواری کے رخ کی طرف اپنا رخ کرکے اشارے سے تہجد ادا فرماتے تھے اور اپنی سواری پر وتر پڑھا کرتے تھے‘ (بخاری 1095)
حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ اپنی سواری پر نفل نماز پڑھتے تھے اور آپؓ وتر بھی اس پر پڑھ لیتے اور بیان کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کرتے تھے۔ (مسلم 610)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس طرف رخ کیے ہوتی اسی طرف رخ کرکے آپ سنت نماز پڑھتے تھے۔ (ترمذی 552)
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ حضر وسفر میں نماز پڑھی میں نے حضر میں آپ کے ساتھ ظہر کی چار رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت پڑھی اور سفر میں ظہرکی دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت پڑھی‘ مغرب کی حضر وسفر میں تین ہی رکعت ہیں اور اس کے بعد دورکعت ہیں۔ (ابوداﺅد 1222)
حضرت براءبن عازبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ اٹھارہ سفرکیے۔ کبھی آپ کو زوال شمس کے بعد ظہر سے پہلے دو رکعت سنت ترک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مسلم‘ 310)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ہم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری حصے میں ایک جگہ پڑاﺅ ڈال کر سوگئے‘ جب ہم بیدار ہوئے تو سورج طلوع ہوچکا تھا‘ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنی سواری کی نکیل پکڑ لے (یعنی یہاں سے آگے چلے) اس لیے کہ یہ ایسی جگہ ہے‘ جہاں ہمارے پاس شیطان آگیا ہے چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا‘ پھر آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر دو رکعت فجرکی سنت اداکی‘ اس کے بعد جماعت کھڑی کی گئی تو آپ نے فجر کی نماز پڑھائی۔ (بخاری‘ 1176)
حضرت ام ہانیؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ اُن کے گھر میں داخل ہوئے اور غسل کرکے آٹھ رکعات (چاشت) کی ادا فرمائی‘ (فتح مکہ کے موقع پر آپ مسافر تھے۔)
مذکورہ احادیث کے علاوہ بھی کئی احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں جن کی روشنی میں محدثین کرام اور فقہاءامت نے سفر میں سنت نماز کے مستحب ومشروع ہونے پر استدلال کیا ہے۔ لہٰذا احادیث کے بعد ان حضرات کے اقوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔
آپ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ سفر میں نفل نماز پڑھا کرتے تھے‘ اور وہ فجر کی دو رکعت (سنت) ہے یہاں تک کہ غزوہ خیبر سے واپسی کے وقت فجر کی نماز کے وقت آپ اور آپ کے صحابہ سوتے رہے تو جب نماز فجرکی قضاءفرمائی تو آپ اور صحابہؓ نے فرض کے ساتھ سنت کی بھی قضاءکی اور آپ سے صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ سواری پر نفل نماز پڑھا کرتے اور اس پر وتر بھی ادا کرتے۔ (فتاوی الکبری لابن تیمیہ 150/1)
اس عبارت سے سنن رواتب و غیررواتب کا سفر میں پڑھنے کا ثبوت معلوم ہورہا ہے۔ شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں۔
(موسوعہ الاحکام ولافتاویٰ الشرعیہ 443,42)
سفر وحضر میں مطلع نوافل کا پڑھنا مشروع ہے‘ اسی طرح سبب والی سنت نمازیں بھی مشروع ہیں جیسے تحیت الوضوئ‘ طواف کی دو رکعت‘ سنت‘ چاشت اور تہجد کی سنت نماز‘ سفر میں مشروع ہے ان احادیث کی بنا پر جو اس سلسلہ میں وارد ہیں۔
امام شافعی فرماتے ہیں۔
(کتاب الام 365/2)
مسافر کے لیے رات دن میں نفل نماز پڑھنا سنت ہے‘ چاہے وہ قصر کرے یا نہ کرے اور آپ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ رات میں نوافل کا اہتمام فرماتے تھے دراں حالے کہ آپ قصرکرتے تھے۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔
فرائض کے ساتھ سنن رواتب سفر میں بھی سنت ہیں۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں۔
مسافر سنن رواتب کو ادا کرے گا یہی بات پسندیدہ ہے۔
امام نوویؒ ان تمام روایتوں کی بنیاد پر شرح مسلم میں فرماتے ہیں۔
سفر میں مطلق نوافل کے مستحب ہونے پر تمام علماءکا اتفاق ہے۔ البتہ سنن رواتب کے سلسلے میں بعض حضرات نے حضرت ابن عمرؓ ہی کی روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں سنت نماز نہیں پڑھتے تھے (ترمذی 550) کی وجہ سے اختلاف کیا ہے کہ سفر میں سنن رواتب میں سے چند سنتوں مثلاً فجر کی سنت‘ وتر وغیرہ کے علاوہ دیگر سنن رواتب مشروع نہیں ہیں۔ چنانچہ شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں۔
کہ سفر میں سنن رواتب مشروع نہیں ہیں۔ البتہ سنن رواتب میں سے فجر کی سنت اور وتر مشروع ہے۔ اس لیے کہ آپ نے سفر وحضر میں ان سنتوں کی پابندی کی ہے۔ (فتاویٰ اللجنتہ الدائمہ 256/7) لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے سفر میں سنن رواتب وغیررواتب کے مشروع سنت ہونے کی احادیث کثرت سے مروی ہیں‘ تو دوسری طرف حضرت ابن عمرؓ ہی فرما رہے ہیں کہ آپ سفر میں نماز سے پہلے اور بعد میں سنت نہیں پڑھتے تھے۔ اسی لیے علماءومحدثین نے حضرت ابن عمرؓ کی اس حدیث کی بہت ساری توجیہات نقل کی ہیں۔ مزید یہ کہ امام مالکؒ نے حضرت نافعؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابن عمرؓ نے اپنے بیٹے عبیداللہ کو سفر میں نفل نماز پڑھتے دیکھا اور منع نہیں فرمایا۔ (موطا الامام مالک 53)
سفر میں سنن رواتب کے نفی پر مستدل روایت کی توجیہات:۔
حضرت ابن عمرؓ کے اس ارشاد سے کہ آپ رواتب نہیں پڑھتے تھے‘ امکان ہے کہ آپ نے سنن رواتب کوکجاوہ میں پڑھا ہو اور ابن عمرؓ نے نہ دیکھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے جواز کو بتلانے کے لیے چھوڑا ہو۔ (شرح مسلم218/3)
حضرت ابن عمرؓ سے جو روایتیں سنن رواتب کے سنت ہونے کے متعلق مروی ہیں ان کو ان کی یادداشت پر محمول کیا جائے گا اور عدم مشروعیت والی روایت کو ان کے نسیان اور بھول پر محمول کیا جائے گا۔ (تحفتہ الاحوزی96/3)
ابن عمرؓ کی روایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ سفر میں سنن رواتب کو اگرکوئی ترک کرنا چاہے تو اس کے لیے جائز ہے‘ نہ کہ غیر مشروع یا ممنوع (تحفتہ الاحوزی96/3)
حضرت ابن عمرؓ کی دوسری ایک روایت کہ وہ فرماتے ہیں صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان لایزعلی رکعتین‘ میں آپ کے ساتھ رہتا تھا تو آپ دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (بخاری 1102) شیخ ابن حجر عسقلائی اور ابن دقیق العیدؒ فرماتے ہیں کہ جب دوسری روایات سے سنن رواتب کے پڑھنے کا ثبوت ہے تو پھر اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ آپ فرض رکعات کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتے تھے (فتح الباری 713/3) اس کے علاوہ ابن عمرؓ خود فرماتے ہیں‘ لوکنت مسبحا اتممت صلاتی‘ اگر مجھے سفر میں نفل نماز پڑھنا ہوتی تو پھر میں اتمام کرتا (سنن بیہقی 6508) شیخ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتمام صلاة اور سنن رواتب میں مجھے اختیار دیا جائے تو مجھے اتمام یعنی چار رکعت مکمل پڑھنا زیادہ محبوب ہے نہ کہ ترک (فتح الباری 713/3) امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر سفر میں سنن رواتب کو چھوڑ کر قصر کے بجائے اتمام کو ہی مشروع کیا جاتا تو ہمیشہ اتمام ہی کرنا واجب ہوتا۔ اس لیے رواتب کے سلسلے میں مکلف کو اختیار ہے کہ چاہے تو سنت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے سنن رواتب پڑھے‘ چاہے تو ترک کرے ۔ (شرح مسلم 218)
تفصیل بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سفر میں مطلق سنتوں کے عدم ثبوت پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ سنن رواتب میں بھی فجر کی سنت‘ ظہر اور مغرب کے بعد کی دو رکعت سنتیں اور وتر ونماز کے سفر میں پڑھنے کا مذکورہ احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔
No comments:
Post a Comment