Tuesday, November 15, 2011

تبدیلی کے آثار

پاکستان کی سیاست میں ویسے تو استحکام کبھی نہیں رہا اور اس تالاب میں بھنور پڑتے ہی رہتے ہیں لیکن اب ایک ایسی ہلچل شروع ہو گئی ہے جو کسی بڑی تبدیلی کا پتا دے رہی ہے ۔ اس کے ساتھہی ایک اہم سوال یہ ہے کہ تبدیلی کیا اور کیسے ؟ کیا نئے انتخابات ‘ خواہ وقت سے پہلے ہوں یا وقت پر کوئی مثبت تبدیلی لا سکیں گے یا اس کوٹھڑی کے دھان اس کوٹھڑی میں کے مصداق کچھ چہرے اِدھر سے اُدھر ہوں گے۔ دعوے تو بڑے بڑے ہیں لیکن کیا وہ آزمائش کی کٹھالی میں کھرے اتریں گے؟ یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ اس لحاظ سے ماضی کے تجربات کچھ خوشگوار نہیں ہیں۔ یہ پاکستانی قوم کی بد نصیبی ہے کہ یہاں جو بھی نئی حکومت آئی وہ پہلے سے بد تر ثابت ہوئی اس وقت جو حکومت اقتدار میں ہے وہ ماضی کے مقابلے میں بد ترین ہے۔ لیکن کیا مستقبل میں اس سے بھی بر اہوسکتاہے یا یہ توقع کی جائے کہ جب خرابی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو بہتری کی طرف سفر نا گزیر ہوجاتاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک ایسے آثار ہویدا نہیں ہوئے۔ عوام مضطرب ہیں‘ پریشان ہیں‘ تبدیلی چاہتے ہیں اور ایسی حکومت کی آس رکھتے ہیں جو ان کے دکھ درد دور کرے اور ان کے مسائل کو حل کرے لیکن اس کے لیے خود عوام کو جو کچھ کرنا چاہیے اس کا عزم نظر نہیں آتا۔ شاید خود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ یہ خدشہ فرضی نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی آزمائے ہوئے لوگوں اور جماعتوں ہی کو آزمایاجائے گا۔ ممکن ہے کہ اسمبلیوں کی کچھ نشستیں اِدھر سے اُدھر ہوجائیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی جگہ ن لیگ کو دوسری جماعتوں سے مل کر حکومت بنانے کا موقع مل جائے یا پیپلزپارٹی پنجاب کو فتح کرنے کے خواب کی تعبیر دیکھ لے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کو پہلی مرتبہ حکومت بنانے کا موقع ملا اور ہو سکتاہے کہ یہ آخری موقع ہو۔ بلوچستان میں تو کوئی اپوزیشن ہے ہی نہیں‘ سب جماعتیں حکومت میں ہیں۔ رہا سندھ تواگر یہاں شفاف انتخابات ہوگئے تو اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی کچھ نشستیں کم ہوجائےں گی اور اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کا اصل ووٹ بینک بھی سامنے آجائے گا لیکن کیا شفاف انتخابات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں آج تک تو ایسا ہوا نہیں ۔ جنرل یحییٰ خان نے 1970ءمیں انتخابات کرائے تھے جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ تھے۔ لیکن کیا سچ مچ ایسا ہی ہے؟ مشرقی پاکستان کے بارے میں تو عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہاں بارہ‘بارہ برس کے بچے بھی آزادانہ ووٹ ڈال رہے تھے۔ عوامی لیگ کا ہر جگہ ایساہی غلبہ تھا جیسا کراچی کے پولنگ اسٹیشنوں پر ایم کیو ایم کا دیکھا جا تارہاہے۔ مشرقی پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں نظر بھی نہیں رکھی جا سکتی اس کے باوجود پہلا نتیجہ ایک دور دراز کے پہاڑی علاقوں سے نشر کیا گیا۔مغربی پاکستان میں ہمیشہ سے یہ کیفیت رہی ہے کہ جہاں جس کی پارٹی کا غلبہ ہے وہاں کوئی دوسری پارٹی ووٹ نہیں ڈلواسکتی۔2008ءگزشتہ انتخابات کتنے منصفانہ اور صاف شفاف تھے‘ اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ ساڑھے تین کروڑ ووٹ جعلی نکلے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ جو جیتے ا ن میں سے اکثرجعلی نمائندے ہیں۔ پھر جعلی ڈگریوں کا فراڈ بھی سب کے سامنے ہے۔ جو شخص جعلی ڈگری کے لیے دھوکے بازی کر سکتاہے اس سے کسی بھی معاملہ میں دیانت اور امانت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ بیس سال تک پیپلز پارٹی میں اہم مقام رکھنے والے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی یہی کہہ رہے ہیںاور اس پر ن لیگ کے خواجہ آصف نے ردّا رکھاہے کہ میں تو گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہی کہہ رہاہوں کہ پارلیمنٹ کا کوئی وجود نہیں رہا۔ اس کے باوجود ن لیگ پارلیمنٹ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے اس ساکن تالاب میں بڑا سا پتھر اچھال دیاہے اور سیاسی ہلچل میں اضافہ کیاہے۔ گزشتہ پیر کو انہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو الوداع کہ دیا بلکہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے۔ عملاً تو ریمنڈڈیوس کیس کے بعد ہی سے ان کا پیپلز پارٹی سے اور پارٹی کاان سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا تاہم محمود قریشی یہی کہتے رہے کہ وہ پارٹی کے وفادار ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کہتے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے استعفے کے اعلان کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی قیادت پر الزامات لگائے ہیں کہ وہ بے نظیر بھٹو کے وژن سے ہٹ گئی اور ق لیگ سے اتحاد ‘میثاق جمہوریت کی نفی ہے‘ محترمہ کے ساتھ ان کی سیاست کو بھی دفن کردیاگیا‘ یہ زرداری لیگ ہے جسے چھوڑ رہاہوں۔ جو بھی کوئی پارٹی چھوڑتاہے عموماً الزامات عائد کرکے ہی چھوڑتاہے اور پھر دوسری طرف سے اسے لتاڑا جاتاہے۔ چنانچہ شاہ محمود قریشی پر بھی تیر برس رہے ہیں۔ ان کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ ممکن ہے یہ حوالے جناب آصف علی زرداری کو ناگوار گزریں۔ سب سے اچھا تبصرہ گونرپنجاب جناب عبداللطیف کھوسہ نے کیاہے۔ انہوںنے کہا کہ محمود قریشی پہلے بھی ہمارے نہیں تھے‘ وہ ضےاءالحق کے ساتھی تھے۔ جناب لطیف کھوسہ شاید اپنی تاریخ سے واقف نہیں ورنہ وہ یہ بات ہر گز نہ کہتے کیونکہ ان کے وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی تو جنرل ضیاءالحق کی کابینہ میںتھے اور ان کے ہاتھوں سے حلف اٹھایا تھا۔ اگر شاہ محمود پہلے بھی ” ہمارے“ آدمی نہیں تھے تو انہیں وزیر خارجہ کا اہم ترین منصب کیا سوچ کر دیا گیااور کیا لطیف کھوسہ یہ بھی بھول گئے کہ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بھی تھے۔ اب انہیں اقتدار کا بھوکا ‘ سیاسی بونا اور احسان فراموش کہاجارہاہے۔ بھٹو خاندان سے غداری کا طعنہ دیا گیاہے لیکن بھٹو خاندان ہے کہاں؟ الزام لگانے کے لیے بھی سلیقہ چاہیے۔ اگر پی پی رہنما ¶ں کے مطابق یہ پارٹی ایک سمندر ہے تو اتنے شدید رد عمل کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن لگتاہے کہ بہت شدید دھچکا پہنچاہے ۔ شاید یہ خدشہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کسی اور کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ شاہ محمود قریشی کس طرف جاتے ہیں ۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ شاہ محمود قریشی 27 نومبر کو تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف کو بھی ایسا تجربہ کار سیاستدان مل جائے گا جو انتخاب جیت سکتاہے۔ شاہ محمود قریشی کے قومی اسمبلی سے استعفے کے بعد ن لیگ کے خواجہ آصف نے بھی یہی کہا ہے کہ آئندہ دو ڈھائی ماہ میں ن لیگ بھی اسمبلیوں سے استعفے دے کر باہر آجائے گی۔ مارچ2012 میں سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ ممکن ہے کہ یہ قدم مارچ سے پہلے پہلے اٹھالیاجائے تاکہ سینیٹ انتخابات ملتوی کرائے جا سکیں۔ لیکن اس سے کیا ہوگا؟ آئینی طورپر تین ماہ کے اندر ضمنی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں جو صدر زرداری ہی کی نگرانی میں ہوں گے۔www.nasikblog.com

No comments:

Post a Comment