اقبال کی شاعری میں صبح کی نماز عنوانات بدل بدل کر ظاہر ہوتی ہے اور اپنی معنویت کا اظہار کرتی ہے۔ مثلاً اقبال نے ایک جگہ کہا ہے نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی ”آدابِ سحر گاہی“
ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ”بے آہِ سحر گاہی“
ایک اور مقام پر فرمایا ہے
جوانوں کو مری ”آہِ سحر“ دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پَر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
اقبال کی اس شاعری میں پہلی مثال بتارہی ہے کہ اقبال کے لیے صبح کی نماز وظیفہ ¿ حیات بن گئی ہے، اور اس وظیفہ ¿ حیات کی ادائیگی کے حوالے سے لاہور اور لندن میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ عطار، رومی، رازی اور غزالی اسلامی تہذیب کی بلند ترین روحانی، تہذیبی، علمی اور تخلیقی علامتیں ہیں، اور اقبال کی دوسری مثال بتارہی ہے کہ اقبال کی آہِ سحرگاہی اتنی اہم ہے کہ اس کے بغیر کسی اور کیا‘ عطار، رومی، رازی اور غزالی کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یعنی یہ آہِ سحرگاہی ہی ہے جس نے عطار کو عطار، رومی کو رومی، رازی کو رازی اور غزالی کو غزالی بنایا ہے۔ اقبال کی تیسری مثال ظاہر کررہی ہے کہ آہِ سحرگاہی کا جوانوں کے بال و پَر اور نورِ بصیرت سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مزید گہرائی میں اقبال کی آہِ سحرگاہی کی معنویت کس طرح آشکار ہوتی ہے؟
یہاں ہم نے آہِ سحرگاہی کے لیے ”صبح کی نماز“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ ایک مبہم اصطلاح ہے۔ صبح کی نماز کی اصطلاح دو نمازوں کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ تہجد کی نماز کے لیے اور فجر کی نماز کے لیے۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اقبال نے یہ اصطلاح ان میں سے کس نماز کے لیے استعمال کی ہے۔ لیکن اسلام کے نظامِ عبادات اور اسلام کی روحانی تاریخ میں فجر کی نماز کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر فرض نماز ہے اور تہجد نفلی عبادت ہے۔ اصول اور عام تجربہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز سے تہجد کی نماز کی طرف جاتا ہے، تہجد سے فجر کی نماز کی طرف نہیں آتا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جس شخص کو فجر پڑھنے کی عادت ہوجاتی ہے اُس کے لیے تہجد پڑھنا مشکل نہیں رہتا۔ چنانچہ گمان غالب ہے کہ اقبال کی آہِ سحرگاہی کا تعلق فجر کی نماز سے زیادہ ہے، تہجد کی نماز سے کم ہے۔
فجر کی نماز کی فضےلت کا یہ عالم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق جو شخص عشا اور فجر کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرے اُسے تمام رات عبادت کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن فجر کی یہ فضیلت کیوں ہے؟
فجر کے سوا چار نمازوں کا معاملہ یہ ہے کہ انسان انہیں ”عادت کی قوت“ سے ادا کرسکتا ہے۔ انسان کو ایک بار نماز کی عادت پڑجائے تو عادت کی قوت اور اس کی خودکاریت انسان کے بہت کام آتی ہے۔ لیکن فجر کی نماز عادت کی قوت اور اس کی خودکاریت یا Automation کی مدد سے پڑھی ہی نہیں جاسکتی، اس لیے کہ فجر اُس وقت ادا کی جاتی ہے جب انسان نیند کے سمندر میں غرق ہوتا ہے۔ اس کے حواس، اس کا شعور، اس کا ارادہ سب کچھ معطل ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ نیند کا عالم کیف کا عالم ہے، لذت کا عالم ہے۔ چنانچہ فجر کے لیے انسان کو اپنے شعور کی تمام استعداد اور قوت کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ چنانچہ فجر کی نماز فرض نمازوں میں سب سے زیادہ شعوری اور سب سے زیادہ ارادی نماز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فجر کی نماز وہ نماز ہے جس میں بندگی عادت کی سطح سے اٹھ کر شعور اور ارادے کی سطح پر آجاتی ہے، اور یہ بات اس لیے اہم ہے کہ مذہب ایک شعوری اور ارادی حقیقت ہے۔ لیکن اقبال کی آہِ سحرگاہی اس مقام پر پیدا نہیں ہوتی، یہاں سے اس کے اظہار کا آغاز ہوتا ہے۔
نیند کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ ایک مکمل غفلت ہے، لیکن اس غفلت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان جب صبح کے وقت نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس کی سماجیات اور اس کی نفسیات معطل ہوتی ہے۔ چنانچہ انسان کا قلب اس وقت نسبتاً شفاف حالت میں ہوتا ہے اور نماز میں نفس کی مداخلت کم سے کم ہوتی ہے۔ قلب اور نفس کی یہ کیفیت خشوع و خضوع کہلاتی ہے۔ اسی کیفیت کو ایک اور سطح پر ذوق و شوق بھی کہتے ہیں۔ شوق کا مطلب یہ ہے کہ انسان رغبت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے۔ نماز کے ذوق بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں حلاوت پیدا ہوگئی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ فجر اور تہجد کی نمازوں میں ان کیفیات کے پیدا ہونے کے امکانات کسی بھی دوسری نماز سے زیادہ روشن ہیں۔ لیکن نماز میں صرف خشوع و خضوع اور ذوق و شوق کافی نہیں۔ نماز کو نمازِ عشق بن جانا چاہیے۔ مگر ”نمازِ عشق“ کا مطلب کیا ہے؟
نمازِ عشق کا مطلب یہ ہے کہ نماز صرف جسم اور ذہن کی نماز نہ رہے بلکہ پورے وجود کی نماز بن جائے۔ یعنی انسان کا جسم، انسان کا ذہن، انسان کا نفس اور اس کی روح شعورِ بندگی سے جگمگا اٹھے۔ فجر اور تہجد کی نمازیں ان کیفیات کو جس طرح پیدا کرسکتی ہیں کوئی دوسری نماز نہیں کرسکتی۔ لیکن نمازِ عشق نماز کی آخری منزل نہیں۔ عشق میں وارفتگی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ وارفتگی رقت پیدا کرتی ہے۔ یہی وارفتگی، یہی رقت آہِ سحرگاہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ تہجد میں سب سے زیادہ گریہ کرنے والے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نماز میں رقت اور گریہ کی سب سے بڑی مثال سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور نماز کی امامت آپ کے لیے ممکن نہ رہی تو آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو امامت کا حکم دیا۔ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ آپ میرے والد کو نماز پڑھانے کے لیے کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ نماز میں بہت گریہ کرنے والے ہیں۔
بہت سے لوگ رونے اور گریہ کرنے کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، لیکن رونے کا تعلق اپنی شخصیت کی محبت سے ہے اور گریہ کا تعلق خدا یا دوسرے انسان کے ساتھ محبت سے۔ رونے میں ہم خود اہم ہوتے ہیں۔ گریہ میں دوسرا اہم ہوتا ہے۔ رونا محرومی سے آتا ہے۔ گریہ صبر اور شکر سے جنم لیتا ہے۔ یہ وہ حال ہے جس میں انسان خدا کے روبرو بندے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، کچھ بھی نہیں۔ نمازوں میں فجر اور تہجد کی نمازیں وارفتگی، رقت اور گریہ کے لیے سب سے زیادہ کفایت کرتی ہیں، اس لیے کہ ان نمازوں کے وقت انسان دنیا اور اس کی محبت سے سب سے زیادہ فاصلے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ یہ آہِ سحرگاہی ہی ہے جس نے عطار کو عطار، رومی کو رومی، رازی کو رازی اور غزالی کو غزالی بنایا۔ لیکن اقبال نے آہِ سحرگاہی کو نوجوانوں کے بال و پَر سے متعلق کیا ہے اور اس کا رشتہ اپنی بصیرت سے استوار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا مفہوم کیا ہے؟
اقبال کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اقبال مسلم نوجوانوں کو دو پروں سے لیس دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک پَر بڑی آرزو کا پَر ہے اور دوسرا پَر عشق سے عبارت ہے۔ آہِ سحرگاہی کا کمال یہ ہے کہ وہ مومن کو چھوٹی چھوٹی خواہشات کی قید سے رہائی عطا کرتی ہے اور اسے بڑی آرزو کے انعام سے نوازتی ہے، اور انسان کے سر پر عشق کا تاج سجادیتی ہے۔ اقبال نے اپنے مذکورہ اشعار میں فکر کی سطح پر آہِ سحرگاہی کو اپنی بصیرت اور اس کے فروغ کی آرزو کے ساتھ بھی منسلک کیا ہے، اور یہ ایک قابلِ فہم بات ہے۔ اس لیے کہ بصیرت دل کی آنکھ سے دیکھنے کا عمل ہے اور آہِ سحرگاہی بصیرت کو بیدار کرنے اور مہمیز دینے کا ذریعہ ہے۔ اور بصیرت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی تاثیر دیر یا سویر لوگوں کو ضرور متاثر کرتی ہے اور بصیرت عام ہوکر رہتی ہے۔
No comments:
Post a Comment