انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان الفاظ اور اصطلاحوں کی اندھی محبت اور اندھی نفرت میں مبتلا ہوتا ہے اور حقائق کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے لیے الفاظ اور اصطلاحیں ہی سب کچھ بن جاتے ہیں اور اصطلاحوں میں مضمر تصورات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں قبائلیت کو ماضی کی چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی جی بھر کے مذمت کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبائلیت کو ایک سطح پر پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، دوسری سطح پر قبائلیت قبیلے کی اندھی محبت ہے، تیسری سطح پر وہ قبیلے کے سردار کی اندھی اطاعت ہے، چوتھی سطح پر وہ نفرت اور انتقام کا استعارہ ہے، پانچویں سطح پر وہ قبیلے کا تعصب ہے۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی تاثر قبائلیت کو ناپسندیدہ چیز بنادیتا ہے۔
قبائلیت کے مقابلے پر ”قومیت“ عہدِ حاضر کا تصور ہے۔ اس تصور پر پوری دنیا مہرِ تصدیق ثبت کیے ہوئے ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انسانی تہذیب کے سفر میں قومیت انسانی شعور کی ایک پیش رفت ہے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو قومیت میں وہ تمام اجزاءموجود ہیں جن سے قبائلیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومیت کا تصور نسل، زبان اور جغرافیے سے تشکیل پاتا ہے، اور قبائلیت میں بھی نسل، زبان اور جغرافیہ اہم ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ قبیلے کی نسل، زبان اور جغرافیہ محدود ہوتا ہے، اور اس کے مقابلے پر قومیت کے دائرے میں نسل، زبان اور جغرافیے کا تصور وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ تاریخی تجربے اور شہادتوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو قومیت نے قبائلیت کے مقابلے پر زیادہ ذہنی پسماندگی، زیادہ تعصب، زیادہ انتقام، زیادہ اندھی محبت اور زیادہ اندھی اطاعت کی مثالیں قائم کی ہیں۔ یورپی اقوام کی گزشتہ 400 سالہ تاریخ میں یورپی اقوام کی قوم پرستی نے ان کے مابین 1240 سے زیادہ جنگیں کرائی ہیں۔ ان میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں جن میں 7 کروڑ سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے۔ یورپ کی قوم پرستی نے ہٹلرکو پیدا کیا‘ مسولینی کو جنم دیا۔ یورپ کی قوم پرستی نے اُس نوآبادیاتی تجربے کو جنم دیا جس نے دنیا کی درجنوں اقوام کو دو سو سال تک عزت اور وقار کے ساتھ جینے نہیں دیا۔
بیسویں صدی کے اواخر میں بھی قوم پرستی نے خون آشامی کی تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان کا قیام ایک پُرامن جدوجہد کا حاصل تھا، لیکن ہندو قوم پرستی نے اس پُرامن جدوجہد کو پُرامن نہ رہنے دیا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پورے برصغیر میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے جن میں لاکھوں مسلمان جاں بحق ہوگئے۔ اسرائیل کا قیام یہودی قوم پرستی کا شاخسانہ ہے، اور یہ قوم پرستی 60 سال میں لاکھوں افرادکو نگل چکی ہے اور 50 لاکھ سے زائد انسان اس کی وجہ سے جلاوطنی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کی نسل پرستی، نفرت اور انتقام 50 سال تک لاکھوں انسانوں کو حیوانوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے رہے۔ روانڈا میں ہُوتُو اور نتسی قوموں کا باہمی تصادم چند برسوں میں دس لاکھ افراد کو چٹ کرگیا۔ لیکن اس ”جدید قبائلیت“ کے خلاف جدید دنیا میں کہیں بھی ویسا ردعمل نہیں پایا جاتا جیسا کہ قبائلیت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ لوگ جدید قبائلیت اور اس کے ہولناک نتائج کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے ان کی کوئی پوشیدہ منطق اورجواز موجود ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو اقوام متحدہ کا ادارہ جدید قبائلیت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کہنے کو ہماری جدید دنیا عقل پرستی کی دنیا ہے، دلیل کی دنیا ہے، جمہوریت اور اکثریت کے اصول کی دنیا ہے، مساوات کی دنیا ہے، مکالمے کی دنیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا کے سات ارب انسانوں پر پانچ سرداروں کو مسلط کیے ہوئے ہے۔ ان سرداروں کے ہاتھوں میں ویٹو کی طاقت ہے، اور ویٹو کی طاقت عقل کی نفی ہے، دلیل کی تردید ہے، جمہوریت کی تکذیب ہے، مساوات کی تذلیل ہے، مکالمے کی تحقیر ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کو قائم ہوئے 60 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس عرصے میں کسی کو مذکورہ حقائق نظر نہیں آئے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جارہا ہے کہ سلامتی کونسل پر پانچ سرداروں کا قبضہ منصفانہ نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ سرداروں کی تعداد بڑھائی جائے، ان سرداروں میں جاپان، جرمنی اور بھارت کو بھی شامل کیا جائے۔ غورکیا جائے تو یہ ”دلیل“ قبائلیت کو ختم کرنے کے بجائے اس کی توسیع کی حمایت کررہی ہے۔
سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ انقلاب طبقاتی یا معاشی قبائلیت کا شاہکار تھا۔ اس قبائلیت نے روس میں لینن اور اسٹالن کے ہاتھوں دو ڈھائی کروڑ انسانوں کو ہلاک کردیا، چین میں سوشلسٹ انقلاب کروڑوں انسانوں کو نگل گیا۔ لیکن انقلاب کے لفظ میں ایسی کشش ہے کہ اس نے انقلاب کی بنیاد میں موجود قبائلیت کی نفرت اور انتقام کو نمایاں ہی نہیں ہونے دیا۔ لیکن یہ مسئلہ یہیں تک محدود نہیں۔
ہمارے دور میں دنیا بالخصوص تیسری دنیا کی ”سیاسی جماعتیں“ بھی قبائلی نفسیات ہی کی علامت ہیں۔ ان جماعتوں کی سیاست قبائلی ہے، ان کی پالیسیاں قبائلی ہوتی ہیں، ان کے باہمی تعلقات پر قبائلیت کی چھاپ ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کو ووٹ بھی اسی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی اونچی ذات کے ہندوﺅں کی علامت ہیں۔ سماج وادی پارٹی ہریجنوں اور دلتوں کی نمائندہ ہے۔ پاکستان میں میاں نوازشریف کی جماعت پنجاب میں سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈ کی گرفت میں ہے۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم مہاجریت کے تعصب کی اسیر ہے۔ اے این پی پشتونیت کی قیدی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں اکثر انسانوں کو قبائلیت کی ان صورتوں میں سے کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، اور وہ یہ کہ صرف اسلام ہی انسان کو اصطلاحوں کے جادو اور اس جادو کے دھوکے سے نکال سکتا ہے۔ لیکن اسلام کے دائرے میں بھی لوگوں نے مسالک اور مکاتبِ فکر کو ایک طرح کی قبائلیت میں ڈھال لیا ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے دائرے میں بھی کچھ لوگ توحید، رسالت، آخرت اور امت کے تصورات سے نابلد ہوگئے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ حقائق ہیں جو انسان کو ہر منفی خیال سے بلند کرکے اسے شرف ِانسانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ انسانیت جب تک ان حقائق کی روشنی میں زندگی بسر نہیں کرے گی الفاظ اور اصطلاحوں کا جادو اسے دھوکا دیتا رہے گا۔
www.nasikblog.com
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں قبائلیت کو ماضی کی چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی جی بھر کے مذمت کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبائلیت کو ایک سطح پر پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، دوسری سطح پر قبائلیت قبیلے کی اندھی محبت ہے، تیسری سطح پر وہ قبیلے کے سردار کی اندھی اطاعت ہے، چوتھی سطح پر وہ نفرت اور انتقام کا استعارہ ہے، پانچویں سطح پر وہ قبیلے کا تعصب ہے۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی تاثر قبائلیت کو ناپسندیدہ چیز بنادیتا ہے۔
قبائلیت کے مقابلے پر ”قومیت“ عہدِ حاضر کا تصور ہے۔ اس تصور پر پوری دنیا مہرِ تصدیق ثبت کیے ہوئے ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انسانی تہذیب کے سفر میں قومیت انسانی شعور کی ایک پیش رفت ہے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو قومیت میں وہ تمام اجزاءموجود ہیں جن سے قبائلیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومیت کا تصور نسل، زبان اور جغرافیے سے تشکیل پاتا ہے، اور قبائلیت میں بھی نسل، زبان اور جغرافیہ اہم ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ قبیلے کی نسل، زبان اور جغرافیہ محدود ہوتا ہے، اور اس کے مقابلے پر قومیت کے دائرے میں نسل، زبان اور جغرافیے کا تصور وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ تاریخی تجربے اور شہادتوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو قومیت نے قبائلیت کے مقابلے پر زیادہ ذہنی پسماندگی، زیادہ تعصب، زیادہ انتقام، زیادہ اندھی محبت اور زیادہ اندھی اطاعت کی مثالیں قائم کی ہیں۔ یورپی اقوام کی گزشتہ 400 سالہ تاریخ میں یورپی اقوام کی قوم پرستی نے ان کے مابین 1240 سے زیادہ جنگیں کرائی ہیں۔ ان میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں جن میں 7 کروڑ سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے۔ یورپ کی قوم پرستی نے ہٹلرکو پیدا کیا‘ مسولینی کو جنم دیا۔ یورپ کی قوم پرستی نے اُس نوآبادیاتی تجربے کو جنم دیا جس نے دنیا کی درجنوں اقوام کو دو سو سال تک عزت اور وقار کے ساتھ جینے نہیں دیا۔
بیسویں صدی کے اواخر میں بھی قوم پرستی نے خون آشامی کی تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان کا قیام ایک پُرامن جدوجہد کا حاصل تھا، لیکن ہندو قوم پرستی نے اس پُرامن جدوجہد کو پُرامن نہ رہنے دیا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پورے برصغیر میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے جن میں لاکھوں مسلمان جاں بحق ہوگئے۔ اسرائیل کا قیام یہودی قوم پرستی کا شاخسانہ ہے، اور یہ قوم پرستی 60 سال میں لاکھوں افرادکو نگل چکی ہے اور 50 لاکھ سے زائد انسان اس کی وجہ سے جلاوطنی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کی نسل پرستی، نفرت اور انتقام 50 سال تک لاکھوں انسانوں کو حیوانوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے رہے۔ روانڈا میں ہُوتُو اور نتسی قوموں کا باہمی تصادم چند برسوں میں دس لاکھ افراد کو چٹ کرگیا۔ لیکن اس ”جدید قبائلیت“ کے خلاف جدید دنیا میں کہیں بھی ویسا ردعمل نہیں پایا جاتا جیسا کہ قبائلیت کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ لوگ جدید قبائلیت اور اس کے ہولناک نتائج کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے ان کی کوئی پوشیدہ منطق اورجواز موجود ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو اقوام متحدہ کا ادارہ جدید قبائلیت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کہنے کو ہماری جدید دنیا عقل پرستی کی دنیا ہے، دلیل کی دنیا ہے، جمہوریت اور اکثریت کے اصول کی دنیا ہے، مساوات کی دنیا ہے، مکالمے کی دنیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا کے سات ارب انسانوں پر پانچ سرداروں کو مسلط کیے ہوئے ہے۔ ان سرداروں کے ہاتھوں میں ویٹو کی طاقت ہے، اور ویٹو کی طاقت عقل کی نفی ہے، دلیل کی تردید ہے، جمہوریت کی تکذیب ہے، مساوات کی تذلیل ہے، مکالمے کی تحقیر ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کو قائم ہوئے 60 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس عرصے میں کسی کو مذکورہ حقائق نظر نہیں آئے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جارہا ہے کہ سلامتی کونسل پر پانچ سرداروں کا قبضہ منصفانہ نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ سرداروں کی تعداد بڑھائی جائے، ان سرداروں میں جاپان، جرمنی اور بھارت کو بھی شامل کیا جائے۔ غورکیا جائے تو یہ ”دلیل“ قبائلیت کو ختم کرنے کے بجائے اس کی توسیع کی حمایت کررہی ہے۔
سوشلسٹ انقلاب انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ انقلاب طبقاتی یا معاشی قبائلیت کا شاہکار تھا۔ اس قبائلیت نے روس میں لینن اور اسٹالن کے ہاتھوں دو ڈھائی کروڑ انسانوں کو ہلاک کردیا، چین میں سوشلسٹ انقلاب کروڑوں انسانوں کو نگل گیا۔ لیکن انقلاب کے لفظ میں ایسی کشش ہے کہ اس نے انقلاب کی بنیاد میں موجود قبائلیت کی نفرت اور انتقام کو نمایاں ہی نہیں ہونے دیا۔ لیکن یہ مسئلہ یہیں تک محدود نہیں۔
ہمارے دور میں دنیا بالخصوص تیسری دنیا کی ”سیاسی جماعتیں“ بھی قبائلی نفسیات ہی کی علامت ہیں۔ ان جماعتوں کی سیاست قبائلی ہے، ان کی پالیسیاں قبائلی ہوتی ہیں، ان کے باہمی تعلقات پر قبائلیت کی چھاپ ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کو ووٹ بھی اسی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی اونچی ذات کے ہندوﺅں کی علامت ہیں۔ سماج وادی پارٹی ہریجنوں اور دلتوں کی نمائندہ ہے۔ پاکستان میں میاں نوازشریف کی جماعت پنجاب میں سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈ کی گرفت میں ہے۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم مہاجریت کے تعصب کی اسیر ہے۔ اے این پی پشتونیت کی قیدی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں اکثر انسانوں کو قبائلیت کی ان صورتوں میں سے کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، اور وہ یہ کہ صرف اسلام ہی انسان کو اصطلاحوں کے جادو اور اس جادو کے دھوکے سے نکال سکتا ہے۔ لیکن اسلام کے دائرے میں بھی لوگوں نے مسالک اور مکاتبِ فکر کو ایک طرح کی قبائلیت میں ڈھال لیا ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے دائرے میں بھی کچھ لوگ توحید، رسالت، آخرت اور امت کے تصورات سے نابلد ہوگئے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ حقائق ہیں جو انسان کو ہر منفی خیال سے بلند کرکے اسے شرف ِانسانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ انسانیت جب تک ان حقائق کی روشنی میں زندگی بسر نہیں کرے گی الفاظ اور اصطلاحوں کا جادو اسے دھوکا دیتا رہے گا۔
www.nasikblog.com
No comments:
Post a Comment