Tuesday, January 10, 2012

اسلامی بینکاری اور انٹربینک آفرنگ ریٹ


-دورحاضرمیں مروجہ اسلامی بینکاری ایک معرکہ الاراءمسئلہ بن چکی ہے۔ علماءکا ایک گروہ اس کو نام نہاد اسلامی بینکاری قراردیتاہے۔ ان علماءمیں سے بعض نے تو محض بینکاری کی مروجہ شکلوں اورطریقہ کارپر اعتراضات اٹھائے ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس قدرشدید موقف اختیارکیاہے کہ گویا اسلام اوربینکاری اپنی بنیادی خصوصیات اور خدوخال کے اعتبار سے دومتضاد چیزیں ہیں جن کو یکجا کرنا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ کسی بینک کو اسلامی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کو مسلمان کرنا یا شراب کو اسلامی کہنا۔ اس وقت ہمارے پیش نظر دونوں طرف کی رائے کا جائزہ پیش کرنا یا ان کے دلائل کا محاکمہ کرنا نہیں ہے بلکہ ایک جزوی مسئلے کی وضاحت مقصود ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی بینکاری پرکیے جانے والے اعتراضات میں سے بیشتر اعتراضات یا تو موجودہ بینکاری نظام سے عدم واقفیت کے مرہون منت ہیں یا قدیم معلومات کا نتیجہ‘ اس کی تازہ ترین مثال روزنامہ ایکسپریس کراچی کی 4 جنوری کی اشاعت میں شائع ہونے والا اوریا مقبول جان صاحب کا وہ کالم ہے جس میں انہوں نے رائج الوقت غیرسودی بینکاری کو روایتی بینکنگ سسٹم ہی کی جانب سے تیارکردہ ملغوبہ کہاہے اس کی وجہ انہوں نے بتائی ہے کہ ”یہ تمام بینک بین ای بینک لین دین(Interbank Transaction)) کے لیے اسی سودی لین دین کے دھندے میں ملوث ہیں“ جو شخص بھی اسلامی بینکاری کی تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھتاہے وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ موجودہ صورتحال وہ نہیں جو بیان کی گئی ہے بلکہ صورتحال یکسرطورپربدل چکی ہے۔ اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ بینک اور اس کے نظام کو اسلامیانے کا عمل اتنا آسان اور مختصر نہیں رہا ہے کہ ادھر نیت کی اور ادھر وہ انجام پاگیا بلکہ عالمی اورملکی قوانین اور دیگر پیچیدگیوں کے باعث یہ عمل سالہا سال کی شبانہ روز محنتوں کے نتیجے میں اس سطح پر پہنچاہے اور روز افزوں اس میں بہتری کی کوشش جاری ہے۔ اس کی موجودہ شکل کو اگر مکمل اسلامی بینکاری نہیں کہاجاسکتا تو اسے سودی اور حرام کہنا بھی انصاف نہیں ہے کچھ عرصہ قبل تک صورتحال وہی تھی جس کا حوالہ موقرکالم نگارنے دیاہے۔ ہوتا تو یہ ہے کہ بڑی ٹرانزکشنز کی تحویل کے لیے بسا اوقات کسی ایک بینک کے پاس موجود سرمائے کے ذخائر ناکافی ثابت ہوتے ہیں اور بینک تنہا اس کو سرمایہ فراہم کرنے سے عاجز ہوتاہے دوسری طرف وہ اتنے بڑے سودے کو کھونا بھی نہیں چاہتا تو وہ دوسرے بینک سے مارکیٹ کی طے شدہ شرح سود پر قرض لے لیتاہے۔ یہ عمل کوئی غیرمعمولی نہیں بلکہ یہ روزمرہ کی روایت اور عرف بن چکاہے جس کے نتیجے میں بینکوں کی باہمی لین دین کی ایک مارکیٹ وجود میں آگئی ہے جس کو عالمی تناظرمیں Libor یعنی لندن انٹربینک آفرنگ ریٹ اورپاکستان کے اندر Kibor یعنی کراچی انٹربینک آفرنگ ریٹ کہاجاتاہے۔ اس مارکیٹ سے جس طرح کنونشنل (سودی) بینک استفادہ کرتے رہے ہیں ویسے ہی غیر سودی بینک بھی اسے استعمال کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اسلامی بینکوں پربے شمار اعتراضات بھی آتے رہے ہیں لیکن یہ اس وقت کی مجبوری تھی کہ جس کا کوئی متبادل راستہ نہیں تھا۔ اس وقت الحمدللہ16 بینکوں کے اشتراک سے اسلامی انٹربینک آفرنگ ریٹ (IIBOR) کے نام سے ایک متبادل انٹربینک مارکیٹ نہ صرف وجود میں آچکی ہے بلکہ ان بینکوں کے آپس کے لین دین غیرسودی طرز پر انجام بھی پارہے ہیں۔ اس مارکیٹ کے وجود میں آجانے کے بعد اب کوئی اسلامی بینک بڑی سے بڑی ٹرانزکشن کے لیے کسی کنونشنل بینک سے سود کی بنیادپر لین دین کرنے پر مجبورنہیں ہے بلکہ ایسے موقع پر وہ کسی دوسرے اسلامی بینک کو مضاربہ ‘ شارکہ اور وکالہ کی بنیاد سرمایہ کاری کی دعوت دیتاہے جس کو بالعموم دوسرا بینک خوشی سے قبول کرلیتاہے۔
www.nasikblog.com

No comments:

Post a Comment