پیپلزپارٹی دیہی سندھ پر اسی طرح اپنا حق جتاتی ہے جیسے دیہی سندھ اس کی ذاتی جاگیر ہو۔ لیکن پیپلزپارٹی نے اس جاگیرکا جو حال کیا ہے اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ دیہی سندھ کی واحد دانش گاہ سندھ یونیورسٹی ہمیشہ کے لیے بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔ سندھ یونیورسٹی دیہی سندھ کا علمی چہرہ ہے۔ اس تعلیمی ادارے میں 25 ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ یونیورسٹی میں 57 مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تعداد 500 اور انتظامی شعبوں سے وابستہ ملازمین کی تعداد ساڑھے تین ہزار ہے۔ یونیورسٹی سے منسلک کالجوں میں 75 ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی کا حال یہ ہے کہ 2011ءکے دوران یونیورسٹی میں صرف 90 دن درس وتدریس کا کام ہوا۔ سال کے باقی دنوں میں یا تو یونیورسٹی بند رہی یا اس میں تعلیمی عمل معطل رہا۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ چار سال سے مرکز اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور سندھ اسمبلی کے اراکین کی اکثریت سندھ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہے لیکن سندھ یونیورسٹی کی حالت زار کہیں زیر بحث نہیں ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں سندھ یونیورسٹی بند رہا کرتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ یہ جرنیلوں کی سازش ہے وہ سندھ کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں لیکن گزشتہ چار سال سے پوراملک اور سندھ آصف زرداری اور گیلانی کے ہاتھ میں ہے لیکن سندھ یونیورسٹی کی حالت جنرل ضیاءالحق کے دور سے ہزار گنا بدتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت دیہی سندھ کے خلاف کون سازش کررہا ہے۔؟ ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ ملک گیر رہنما بن کر ابھرے تھے اور انہیں سندھ سے زیادہ پنجاب میں پذیرائی حاصل ہوئی تھی مگر اس کے باوجود سندھ میں ان کی شخصیت اور سیاست کا مرکزی حوالہ تھا اور پیپلزپارٹی نے ہر دور میں سندھ کو اپنی آخری سیاسی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا لیکن دیہی سندھ کے ساتھ پیپلزپارٹی نے جیسی دشمنی کی ہے اس کی مثال مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ بھٹو صاحب نے دیہی سندھ سے محبت کے نام پرکوٹہ سسٹم ایجاد کیا۔ اس سے ایک جانب سندھ میں لسانی تفریق کی آگ بھڑک اٹھی اور سندھ کی وحدت کے تصور کو نقصان پہنچا اور دوسری جانب کوٹہ سسٹم نے دیہی سندھ کے نوجوانوں کے لیے افیون کا کام کیا۔ کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر خیال تھا کہ دیہی سندھ شہری سندھ سے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتا چنانچہ دیہی سندھ کے نوجوانوں کو کوٹہ سسٹم کے ذریعے شہری سندھ کے برابر لایا جائے۔ بلاشبہ عارضی اور عبوری طور پر اس سسٹم کا جواز تھا۔ لیکن اس سسٹم نے دیہی سندھ کے نوجوانون میں ایک خود اطمینانی پیدا کردی۔ انہیں محسوس ہوا کہ کوٹہ سسٹم ان کی تعلیم اور روزگار کا محافظ ہے چنانچہ انہیں محنت کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔ اس احساس نے دیہی سندھ کی نئی نسل میں سہل انگاری پیدا کی اور اس میں لیاقت میں اضافے کی فطری استعداد کو کمزور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 20‘25 سال میں کوٹہ سسٹم سے 10‘ 15 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم ہوگیا مگر اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد ان طلبہ کی تھی جو کوٹہ سسٹم کی وجہ سے مقابلے کی اہلیت سے محروم ہوگئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوٹہ سسٹم مجرد معنوں میں سندھ سے دوستی تھا ورنہ اس نظام نے دیہی سندھ کے نوجوانوں سے جیسی دشمنی کی ہے اس کی نظیر مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ملک اور بین الاقوامی سطح پر مقابلے کی کیفیت میں شدت پیدا ہورہی ہے۔ اور کوٹہ سسٹم کے پروردہ نوجوان مقابلے کے امتحان میں مشکل ہی سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ لیکن دیہی سندھ میں صرف اعلیٰ تعلیم ہی خطرے سے دوچار نہیں۔ ایک ملک گیر سروے کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں کے طلبہ کی لسانی استعداد انتہائی کم ہے لیکن دیہی سندھ کے اسکولوں کے طلبہ وطالبات کی لسانی اہلیت سب سے کم ہے۔ اس کی دوبنیادی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ دیہی سندھ میں اکثر اساتذہ کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں اور دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کے سوا کسی پارٹی کا وجود نہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دیہی سندھ میں بنیادی تعلیم کی تباہی کی ذمہ دار بھی پیپلزپارٹی ہے۔ سندھ میں پرائمری تعلیم کی تباہی کی دوسری وجہ جعلی یا Ghost اسکولوں کا مسئلہ ہے جو اگرچہ ملک کے تمام صوبوں میں موجود ہے لیکن دیہی سندھ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ لیکن دیہی سندھ کی ”خدمت“ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی ”کارکردگی“ کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ دیہی سندھ گزشتہ دو برسوں سے سیلاب اور شدید بارشوں کی زد میں ہے۔ بڑی آفتیں جہاں آزمائش ہوتی ہیں وہیں ان سے خدمت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا بھی موقع فراہم ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی دیہی سندھ کی سب سے بڑی بلکہ تقریباً واحد جماعت ہے۔ چنانچہ سیلاب اور بارش کے موقع پر اس کے لاکھوں کارکنوں کو دیہی سندھ کے عوام کی خدمت کے لیے متحرک نظرآنا چاہیے تھا۔ لیکن اس موقع پر پیپلزپارٹی کا وجود بھی کہیں نظرنہ آیا۔ تاہم یہ معاملہ صرف پیپلزپارٹی تک محدود نہیں۔ کراچی پاکستان کا دل تھا ایم کیو ایم نے اسے دل سے سل بنا دیا۔ کراچی سیاسی اعتبار سے ملک کا سب سے باشعور شہر تھا۔ ایم کیو ایم نے شعور کے سمندر کو شعور کا کپ بنا دیا۔ کراچی زندگی سے بھرپور شہر تھا لیکن ایم کیو ایم کی سیاست کے آغاز کے بعد کراچی کی ہرگلی میں موت رقص کرنے لگی۔ کراچی علم کی علامت تھا۔ ایم کیو ایم نے علم کو کلاشنکوف سے بدل دیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی کو بھتہ دیا۔ نقل کا رجحان دیا۔ چوری‘ ڈاکے کی وارداتیںدیں۔ مطلب یہ کہ ایم کیو ایم نے کراچی کے ہر مثبت کو منفی بنا دیا۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کا قصہ بھی مختلف نہیں۔ بلوچستان کی غربت‘ اس کے افلاس اس کی تعلیمی پسماندگی میں بلوچوں کے حقوق کے علمبرداروں کا بڑا حصہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی پشتون قوم پرستی کی علامت ہے اور خیبر پختونخوا سے باہر اے این پی کی قوت کا کوئی مرکز نہیں۔ لیکن اے این پی صوبے میں پختونوں کی خدمت کے بجائے اس حوالے سے پہچانی جاتی ہے کہ جب تک سوویت یونین موجود تھا اے این پی سوویت یونین کے ساتھ تھی۔ جب سے سوویت یونین ختم ہوا ہے اور امریکا دنیا کی واحد طاقت بنا ہے۔ اے این پی امریکا کے ساتھ ہے۔ اے این پی نے صوبے میں بدعنوانی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ بدعنوانی اے این پی کا تشخص بن گئی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر غالب کا یہ مصرعہ بے ساختہ یاد آجاتا ہے۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو یہاں سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا مفہوم کیا ہے۔؟ اس صورتحال کا ایک مفہوم یہ ہے کہ تعصب ایک منفی جذبہ ہے اور اس کی بنیاد پر سیاست کرنے والے بالآخر ان لوگوںکو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جن کے نام پر وہ سیاست کرتے ہیں۔ بلاشبہ دنیا میں قوم پرستی کی سیاست کی اچھی مثالیں بھی موجود ہیں بھارتی ریاست بنگال میں جیوتی باسو نے 30سال تک قوم پرستی کی سیاست کیلیکن ان کی قوم پرستی پر کمیونسٹ نظریات کا غلبہ تھا لیکن پاکستان کی قوم پرستی کا کسی نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کی قیادت بالخصوص قوم پرست قیادت کے لیے اس کے مفادات ہی سب کچھ ہیں۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی ایک قوم پرست جماعت نہیں ہے لیکن سندھ میں اس نے ہمیشہ ایک قوم پرست جماعت ہی کا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کے لیے پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے پر زیادہ تباہ کن ہے۔
No comments:
Post a Comment