Sunday, February 12, 2012

ملاّ

-ملاّ ہماری مذہبی فکر اور معاشرت کا ایک بنیادی کردار ہی، اور اس کردار نے امت ِمسلمہ بالخصوص برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ میں کئی کارنامے انجام دیے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کردار نے ہمارے مذہبی علوم کو دو سو سال کی غلامی کے اثرات سے محفوظ رکھا، ان کی تعلیم کو ممکن بنایا، اور ان علوم کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا۔ اس کام کے لیے ملاّ نے قناعت اور سخت کوشی کی زندگی اختیار کی۔ اس حوالے سے ملاّ کے کردار کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن یہ ملاّ کی شخصیت کا ایک پہلو ہے۔ اس شخصیت کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اقبال کی شاعری میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس پہلو پر کہیں اقبال نے کفِ افسوس ملا ہے اور کہیں اس پر تنقید کی ہے۔ اقبال کی اس روش کے حوالے سے ہمارے یہاں افراط و تفریط کا رویہ پیدا ہوا۔ کچھ لوگ اقبال کی اس روش کو سراہتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو اس روش میں نقص کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال کی بات نہ اقبال کی تعریف کرنے والے سمجھتے ہیں، نہ اقبال کو مسترد کرنے والے۔ چنانچہ یہاں سوال یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ملاّ کے کردار کی معنویت کیا ہی؟ ملاّ کے حوالے سے اقبال کا مشہورِ زمانہ شعر ہے
ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اقبال کے اس شعر میں ملا کے حوالے سے تین مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ غلامی کے زیراثر ملا کا تصور اسلام بدل گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ملا نے عبادت کے ظاہرکو کافی سمجھ لیا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ ملا سجدے سے تو آگاہ ہے مگر اس کے اطلاقات کو وہ بھول چکا ہے۔ لیکن اس اجمال کی تفصیل کیا ہی؟ برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے پہلے اسلام ایک مکمل ضابطہ ¿ حیات تھا اور زندگی کا کوئی گوشہ اس کے نور سے محروم نہ تھا۔ لیکن انگریزوں کے اقتدار نے دین اور دنیا کی تفریق پیدا کی اور اسے عوام تک پہنچادیا۔ اس تفریق نے اسلام کو انفرادی زندگی تک محدود کردیا۔ اقبال کی شکایت یہ ہے کہ ملا نے اس صورت حال کو قبول کرلیا اور اس بات پر قناعت کرلی کہ غلامی میں روزی، نماز کی اجازت بھی بہت ہی، بلکہ یہی مکمل دین ہے۔ اقبال کا ایک شکوہ یہ ہے کہ ملا نے عبادات کے ظاہر کو تو اختیار کرلیا مگر اس کے معنی کو فراموش کردیا۔ چنانچہ ملا کی نماز ایک ظاہری سرگرمی یا صرف ایک Ritual بن کر رہ گئی۔ اقبال نے اس بات کو ایک اور جگہ یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں اذان تو باقی ہے مگر ”روحِ بلالی“ باقی نہیں ہے۔ ملا پر اقبال کا ایک اعتراض یہ ہے کہ ملا نماز پڑھتا ہے مگر اس کے ”اطلاقات“ سے ناواقف ہے۔ انسان جب خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ بندگی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ مگر بندگی صرف نماز تک محدود نہیں۔ بندگی عبادات میں بھی ہوتی ہے اور سماجیات میں بھی۔ بندگی معاشیات میں بھی لازم ہے اور سیاسی و ریاستی امور میں بھی۔ انسان کی پوری زندگی جب بندگی کا نمونہ بن جاتی ہے تو سجدے کا حق ادا ہوتا ہے۔ لیکن ملا سے اقبال کے شکوے شکایت کا سلسلہ دراز ہے۔ اقبال کہتے ہیں
صوفی کی طریقت میں فقط مستی ¿ احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی ¿ گفتار
اقبال کو ملا کیا خود اپنے آپ سے بھی شکایت تھی کہ میں کردار کے بجائے گفتار کا غازی بن کر رہ گیا ہوں۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک اس حوالے سے ملا کی ذمہ داری زیادہ تھی، اس لیے کہ وہ دین کا محافظ تھا، لیکن اقبال کے مطابق ملا نے دین کی محافظت کا فرض بہ تمام و کمال انجام نہیں دیا، اس لیے کہ وہ ”مستی ¿ گفتار“ میں غرق ہوکر رہ گیا۔ مستی ¿ گفتار ایک سطح پر ”لفاظی“ ہے اور دوسری سطح پر ”گفتگو کی لذت“۔ لفاظی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کھوکھلے لفظوں کے استعمال میں ملوث ہوگیا ہے۔ اس کے پاس لفظوں کی فراوانی ہے مگر مفہوم کا کال پڑا ہوا ہے۔ لذتِ گفتار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے لیے گفتگو کی لذت عمل کا نعم البدل بن گئی ہے اور ہماری تہذیب میں جو فکر و عمل پر منتج نہ ہو وہ بانجھ ہے۔ اقبال کے نزدیک ملا کی شخصیت ان کے دور میں ان دونوں رویوں کی علامت بن گئی تھی، اسی لیے اقبال نے کہا
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملاّ نہ فقیہہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
یہاں سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کے فکر و عمل میں بُعد کیوں پیدا ہوگیا تھا؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ غلامی کے تجربے نے مسلمانوں کو خوداعتمادی سے محروم کردیا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ ان کے کسی عمل سے غلامی کی زنجیر کٹنے والی نہیں، چنانچہ کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسلمانوں کی یہ بے عملی اتنی بڑھی کہ عمل کے خیال سے بھی جان چھڑالی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ جو کچھ ہورہا ہے تقدیر کے جبر کے تحت ہورہا ہے۔ اقبال نے اس بات کو ایک مصرع میں یوں بیان کیا ہے
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
لیکن اقبال نے ملا پر اس سے بھی زیادہ بنیادی اعتراض کیا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ملاّئے حرم میں کہا ہے
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیغام
امتوں اور تہذیبوں کی زندگی میں ان کے ”تصورِ انسان“ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ ہمارا تصورِ انسان یہ تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس تصورِ انسان کی معنویت اور جلال و جمال بے پناہ تھا۔ لیکن انگریزوں کا تصورِ انسان جس میں انسان کہیں سیاسی حیوان تھا، کہیں محض جبلی وجود.... مسلمانوں کے تصورِ انسان پر غالب آگیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا تصورِانسان ایک مدفون خزانہ بن گیا اور انگریزوں کا تصورِ انسان سکہ رائج الوقت قرار پایا۔ ملا کی فکر اور شخصیت اس تغیر سے متاثر ہوئی اور وہ نظری سطح پر بھی اپنے تصورِ انسان کا اجمال اور اس کی تفصیل بھول گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہوا کہ اگر کہیں ملا اسلام کے تصورِ انسان سے آگاہ بھی تھا تو یہ تصور محض ایک تصور تھا، ملا کا ”تجربہ“ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نماز بھی جلال و جمال سے محروم ہوگئی اور اس کی اذان میں بھی سحر کی نوید باقی نہ رہی۔ اقبال نے ملا پر ایک اور بڑا اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے شیطان کی زبان سے کہلوایا ہے
یہ ہماری سعی ¿ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملاّ ملوکیت کے ہیں بندے تمام
ہمارے یہاں بعض لوگ ملوکیت کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے ملوکیت سو فیصد انحرافی تجربہ ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملوکیت خلافت کے مثالیے یا Ideal کے مقابلے پر ایک انحرافی اور پست درجے کی چیز ہی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ملوکیت میں پورا اسلام ہی ساقط ہوگیا تھا۔ مگر مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہوا کہ وہ ملوکیت کے عادی ہوگئے جس کی وجہ سے ایک جانب وہ خلافت کے تجربے کو بھول گئے اور دوسری جانب ان کو یہ امید بھی نہ رہی کہ مستقبل میں خلافت کا تجربہ ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آسکتا ہے۔ اقبال کے اس شعر میں ”ملوکیت کے بندوں“ سے اقبال کی یہی مراد تھی۔ ورنہ تاریخی جبر کے تحت اقبال نے انگریز کی غلامی میں زندگی بسر کی اور ان سے ”سر“ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ تاہم اصل چیز یہ تاریخی جبر نہیں تھا، اصل بات یہ تھی کہ اس تاریخی جبر کا اقبال کی روح اور اس کے قلب و ذہن پر کوئی اثر نہ تھا، اور اقبال کے لیے ”سر“ کا خطاب ایک حقیر شے تھا۔ اقبال کے یہاں ملاّ کی اس تصویر سے بعض لوگوں کو خیال گزر سکتا ہے کہ اقبال نے ملا کو سرے سے سراہا ہی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اقبال نے ملاّ کے حوالے سے ایک ایسا شعر کہہ رکھا ہے جسے سمجھے بغیر ہم اقبال کے تصورِ ملاّ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرسکتے۔ اقبال نے کہا ہے
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اقبال کے اس شعر میں ملا ”غیرت ِدین“ کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کا ملاّ صرف مسجد میں اذان نہیں دیتا، صرف نماز نہیں پڑھاتا، صرف مدرسہ نہیں چلاتا،بلکہ کوئی غیر ملکی طاقت افغانستان پر حملہ آور ہوتی ہے تو افغانستان کا ملاّ اچانک ہتھیار اٹھا کر ”مجاہد“ بن جاتا ہے۔ یہی مجاہد اقبال کا مثالیہ یا ان کا Ideal ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال کے یہاں ملاّ اور مجاہد ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ مجاہد کو زوال ہوتا ہے تو وہ ملاّ بن جاتا ہی، اور ملاّ کو عروج حاصل ہوتا ہے تو وہ مجاہد میں ڈھل جاتا ہے۔ یعنی اقبال کے یہاں ملاّ ایک پیشہ ور مجاہد ہے اور مجاہد دنیا سے بے نیاز ملاّ۔

No comments:

Post a Comment