زین صدیقی ایم اے
zain626@yahoo.com
14فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے منایاجارہاہے اور گزشتہ کئی سال سے اس کی اہمیت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ہم محو حیرت ہیں کہ یہ دن کہاں سے آیا اسے کیوں منایاجارہاہے اور اس دن سے ہمارا کیا تعلق ہے ،2011ءمیں ہم نے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جو تماشے دیکھے ہیں وہ ابھی ذہن سے محو نہیں ہوئے تھے 2012ءکا14فروری ہمارے سامنے آ کھڑا ہو ہے ،دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اسے عالمی یوم محبت کے نام سے جانا جاتاہے‘لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں اسے بھرپور انداز میں منانے والے اس بات سے لا علم ہیں کہ اسے کیوں منایاجاتاہے ہم نے 14فروری2011ءکو سڑکوں پر عجیب وغریب مناظر دیکھے ‘پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوگئے, سڑکوں پر نوجوان جوڑوں کے تحریک دیکھنے کو ملی جبکہ بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول پھینکتے ہوئے دیکھے گئے جبکہ کراچی کے تمام پارکوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیب تن کئے تاکہ اس دن سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔
ویلنٹائن ڈے کیا ہے یہاں نئی نسل کویہ بتانا انتہائی ضروری ہے جو ایسے فیشن اختیار کرتی ہے ،ایسے ایام کو خوشی سے مناتی ہے جو ہماری اسلا می تہذیب سے نہیں ہیں بلکہ اس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جو ہما ری نہیں ہے اور جسے دیکھ کر دل شر ماتاہے ، گردن جھکنے پر مجبور ہوجاتی ہے، اس تناظر میں اس ہمیں امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ ہم پر غیرمسلم ممالک نے اپنی تہذیب کی جنگ مسلط کردی ہے، ابھی چند سال پہلے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا گلوبل ویلج ہے، گلوبل ویلج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اسے پھیلایا جس کا مقصد صاف ستھرے الفاظ میں یہی ہے کہ دنیا میں مسلم مما لک کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے، جہاں ایک نظام ہو مغرب کا نظام جس کا اثر اور ہر روایت و تہذیبیں مسلم مما لک کی قو میں قبول کریں ،جس کے ہر رواج کو لبیک کہیں اور اسے اپنی زندگی کا جزبنالیں میں اور یہی مغرب کی فتح ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب اس جنگ میں فتح یاب ہوچکا ہے ‘بسنت اور میراتھن ریس بھی پاکستان میں ہندواور مغرب ثقافت سے در آمد کی گئی رسمیں ہیں جنہیں ہم نے ویلکم کرکے سینے سے لگایا ہے یہی نہیں ہمیں دیگر کئی ایام مغرب سے تحفہ میں ملے ہیں جو ہم بخوشی منارہے ہیں۔ 14فروری در اصل عیسائی مذہب کے ماننے والوں کیلئے خوشی کا دن ہے یہ دن عیسائی بزرگوں کے نام سینٹ ویلنٹائن سے منسوب ہے جو عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی یاد میں منایاجاتاہے لیکن آج اسے دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے لوگ منانے لگے ہیں رومن کھتولک کے مطابق ماضی میں ویلنٹائن نامی3بزرگ ہستیاں گزری ہیں اور اتفاق سے ان تینوں کو کسی نہ کسی جرم میں سزائے موت دے دی گئی تھی لہٰذا اس دن کو خوشی کی بجائے غم کے طورپر منایاجاناتھا۔ ان تینوں بزرگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں اسے جذبہ احساس اور ہمدردی کے تحت یوم فتح محبت کے طورپر منایاجارہاہے۔
پہلے ویلنٹائن کو اس وقت موت کی سزا سنادی گئی جب اس نے دوسری صدی میں رومن بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پابندی کے باوجود فوج کے سپاہیوں کی خفیہ شادی کرانے کا عمل شروع کیاتھا جبکہ اس وقت روم کے بادشاہ کے مطابق ایک اچھا اور صحت مند سپاہی وہ ہوتاہے جو غیر شادی شدہ ہو کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ایسا سپاہی ہی فکرات سے بالاتر ہوکر میدان جنگ میں جواں مردی کا مظاہرہ کرسکتاہے ‘ لہٰذا سینٹ ویلنٹائن کواس جرم میں سزائے موت دی گئی۔
دوسرے سینٹ ویلنٹائن کو بھی قتل کیا گیا وہ ایک راہب تھا اور اس نے ایک راہبہ سے محبت کی اور اس سے شادی کرلی حالانکہ کلیسا کے قانون کے مطابق راہب وراہبہ کیلئے شادی بیاہ کو ممنوع قرار دیا گیا تھا ویلنٹائن نے اپنی محبوبہ کی دل جوئی کیلئے اسے بتایا کہ اس نے ایک خواب دیکھا ہے کہ 14فروری کا دن ایساہے کہ اس میں کوئی راہب اگر راہبہ سے ملاپ کرلے تو اسے گناہ نہیں سمجھاجاتا‘ ویلنٹائن نے راہب کی باتوں پر یقین کرلیا پھر کلیسا کی روایت کے مطابق اسے سزائے موت سنادی گئی تیسرے ویلنٹائن کیلئے یہ بات مشہور ہے کہ اس نے رومن بادشاہ کی قید سے قیدیوں کو نجات حاصل کرنے پر اکسایا تھا اور بہت سے قیدی بھی فرار کرادیئے تھے لہٰذاس جرم میں اسے سزائے موت دی گئی یہ ہے ویلنٹائن ڈے کی حقیقت جسے ہم تک منتقل کرکے راہ سے بھٹکادیا گیا ہے‘ نئی نسل اسے بڑے اہتمام کے ساتھ منارہی ہے لیکن اسے اس کی حقیقت سے آگہی حاصل نہیں بہت سے لوگ اسے عالمی یوم محبت کا نام دے کر پھول اورتحائف کا تبادلہ کررہے ہیں‘ ہمیں آنکھیں بند کرکے حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے کے بجائے ان کا جائزہ لینا چاہیئے‘ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم ان ایام کی اندھی تقلید کیوں کررہے ہیں کم علمی اور اسلام سے دوری کی وجہ سے قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے دنیا میں مسلمانوں کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں قرآن مجید میں جا بجا موجود ہے کہ یاد رکھو کہ یہود ونصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے اور اگر تم ان کے نقش قدم پر چلے تو یہ تمہیں مایوس لوٹادیںگے قرآن مجید کے بعد تمام دلائل اور بحث ختم ہوجاتی ہے مغرب نے دنیا کو گلوبل ویلج کہہ کر مسلم دنیا میں اپنی تہذیب کو پھیلانے کا جو وار کیا ہے اسے سمجھنا ہوگا‘ کیونکہ جب کسی غیر مذہب تہذیب کسی کی مذہب پر حملہ آور ہوتی ہے اور وہ قوم اس مذہب کے حملہ کا اثر قبول کرتی ہیں تو وہ اپنی شناخت کھودیتی ہیں اور حملہ آور تہذیب غالب آجاتی ہے یہی مغرب کی کوشش ہے کہ ہم ان کے ایام مناکر ان کی تہذیب کو تقویت دیتے ہیں ہمیں گلوبل ویلج کے نام پر تہذیب کے تسلط کی جنگ سے بچنا ہوگا اور ویلنٹائن جیسے غیر اسلامی ایام کو مسترد کرکے اسلامی ایام کو شاہان شان طریقہ سے منانا ہوگا آج کے دن ہم یوم توبہ استغفار منائیں تو یہ عمل اﷲ تعالیٰ کے ہاں بہت پسندیدہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment