Saturday, February 9, 2013

پروفیسر غفور احمد

طواف کی طرح زندگی کی تمام سرگرمیوں کی معنویت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کا مرکز کیا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پروفیسر عبدالغفور کی زندگی خیر کی علامت تھی۔ وہ جماعت اسلامی میں آئے تھے تو دین کے غلبے کی جدوجہد کررہے تھے، اور دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے ہاتھ میں دین کی بالادستی کی جدوجہد کا پرچم تھا۔ یہ سعادت زورِ بازو سے نہیں کمائی جاسکتی۔ یہ اوّل وآخر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتی ہے۔
جماعتی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان یا تو جماعت میں جذب ہوجاتا ہے اور چلتی پھرتی ’’پارٹی‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی کوئی ذاتی رائے ہی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کو ان کی اَنا پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ پارٹی میں ’’فرد‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔ غفور صاحب کا کمال یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال کی سیاسی جدوجہد میں وہ فرد اور پارٹی کا حسین امتزاج بنے رہے۔ آمریت کی مزاحمت جماعت اسلامی کے خمیر میں ہے اور غفور صاحب کی شخصیت اس خمیر کا استعارہ تھی، مگر 1977ء میں جماعت اسلامی پی این اے کا حصہ تھی اور پی این اے نے جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ غفور صاحب اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے مگر جماعتی نظم وضبط نے انہیں اس فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔ لیکن جب 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو جواز اور تسلسل فراہم کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا اور جماعت اسلامی کی شوریٰ نے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا تو غفور صاحب اختلاف کا پرچم لے کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے جماعت اسلامی سے ریفرنڈم میں ووٹ نہ ڈالنے کی ’’آزادی‘‘ طلب کی اور یہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غفور صاحب جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بنے تو اس کا سبب بھی ’’اصول‘‘ تھا، اور انہوں نے جب ریفرنڈم میں ووٹ نہ ڈالنے کی آزادی طلب کی تو اس کی وجہ بھی اصول تھا۔ غفور صاحب کو طویل سیاسی زندگی میں انفرادیت یا جماعت کے نام پر کبھی اَنا کا جھنڈا لہراتے نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کے لٹریچر اور جماعت اسلامی کی جدوجہد سے نظریات کی پاسداری سیکھی تھی اور وہ تمام زندگی نظریات ہی کی پاسداری کرتے رہے۔
پاکستان کی سیاست میلوں تک پھیلی ہوئی کیچڑ ہے۔ جو شخص اس کیچڑ میں آتا ہے اس کے لباس پر داغ ضرور لگتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا لباس ہی داغ بن جاتا ہے۔ غفور صاحب پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی کہ وہ چار دہائیوں تک سفید لباس پہنے اس کیچڑ میں بھاگ دوڑ کرتے رہے مگر جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے سفید لباس پر کوئی داغ نہ تھا۔ پاکستانی سیاست کے تالاب میں غفور صاحب کی زندگی کنول کی طرح کھلی رہی۔ فی زمانہ شریف آدمی کی تعریف یہ ہوگئی ہے کہ جس شخص کو خراب ہونے کا موقع ہی نہیں ملا وہ شریف ہے۔ مگر غفور صاحب کی سیاست قومی سطح کی سیاست تھی۔ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن رہے۔ اہم سیاسی اتحادوں کی مرکزی قیادت کا حصہ رہے۔ چند ماہ کے لیے سہی ایک وفاقی وزارت بھی ان کے سپرد رہی۔ اتنے اہم مقامات پر رہتے ہوئے انسان کا کوئی نہ کوئی مفاد پیدا ہوہی جاتا ہے۔ لیکن غفور صاحب جہاں رہے مفادات سے بالاتر رہے۔ اس بات کی گواہی غفور صاحب کے ’’اپنوں‘‘ ہی نے نہیں ’’غیروں‘‘ نے بھی دی۔ غیروں کی گواہی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے، ہم ملک کے ممتاز سیاست دان سردار شیرباز خان مزاری کا انٹرویو کرنے کے لیے ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ سیاسی رہنمائوں کا ذکر شروع ہوا تو مزاری صاحب نے غفور صاحب کے بارے میں اس طرح کی گفتگو شروع کردی جیسے وہ غفور صاحب کے پروپیگنڈا سیکرٹری ہوں۔ ہم نے کریدنے کے لیے کہا: ’’صاحب! غفور صاحب میں ایسی کیا خاص بات ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’میں نے اُن کے ساتھ اسمبلی میں وقت گزارا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ غفور صاحب، محمود اعظم فاروقی اور ڈاکٹر نذیر شہید ایسے لوگ تھے جنہیں نہ ڈرایا جاسکتا تھا، نہ خریدا جاسکتا تھا۔ ان لوگوں کے لیے ان کے نظریات ہی سب کچھ تھے۔‘‘
کچھ سال پہلے ہم ایران کے دورے پر گئے تو بائیں بازو کے کئی اہم رہنما اس دورے میں ہمارے ساتھ تھے۔ جماعت اسلامی کا ذکر ہوتا تو  وہ کہتے کہ غفور صاحب کی کیا بات ہے، ہمارے دل میں ان کا بڑا احترام ہے، ہمیں ان سے نظریاتی اختلاف ہے مگر سیاست دان ہو تو ایسا ہو۔ غفور صاحب کے سلسلے میں اپنوں اور پرایوں کی ایک جیسی آراء کا مفہوم یہ ہے کہ غفور صاحب قریب سے جیسے نظر آتے تھے فاصلے سے بھی ویسے ہی دکھائی دیتے تھے۔ ورنہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا جادو قریب میں چلتا ہے، ان سے جیسے ہی فاصلہ پیدا ہوتا ہے، شخصیت کا سارا اثر جاتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ دور سے بہت اچھے لگتے ہیں مگر جسے ہی انسان ان کے قریب جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہاںتو کچھ بھی نہیں تھا۔
غفور صاحب قومی سطح کے سیاست دان تھے۔ سیاست کے بارے میں ان کا علم اور تجربہ 40 سال پر محیط تھا، مگر اس کے باوجود ان کا انکسار بے مثال تھا۔ متحدہ مجلس عمل انتخابات میں حصہ لینے والی تھی اور ملک کی سیاسی فضا میں بڑا ابہام تھا۔ ایک دن میں نے غفور صاحب کو فون کیا اور کہا کہ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کل آجائو اور دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائو۔ میں برادرم یحییٰ بن زکریا صدیقی کے ساتھ غفور صاحب کے یہاں پہنچا اور اُن کی سیاسی بصیرت سے استفادے کا طالب ہوا۔ کہنے لگے کہ میرا تجزیہ تو یہ ہے مگر تم بتائو کہ مستقبل کی سیاست میں کیا ہونے والا ہے؟ میں نے کہا کہ ہم آپ کو کچھ بتانے تھوڑی آئے ہیں، ہم تو آپ سے رہنمائی حاصل کرنے آئے ہیں، ہم تو آپ کے بچوں کے طرح ہیں، ہم بھلا آپ کو کیا بتائیں گے! مگر غفور صاحب اپنی شخصیت، علم اور تجربے کے تاثر سے بے نیاز ہوکر کہتے رہے کہ میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں۔ دس بارہ سال پہلے کی بات ہے، روزنامہ جسارت نے سقوطِ ڈھاکا پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کے دو میزبانوں میں سے ایک میں تھا۔ مذاکرے کے تین مہمان تھے: غفور صاحب، پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو، اور ریٹائرڈ جنرل عمر۔ گفتگو کے دوران جنرل عمر نے فرمایا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ضرور بن گیا مگر بنگلہ دیش بہرحال ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے قیام سے اسلامی کانفرنس کی تنظیم میں ایک رکن کا اضافہ ہوگیا۔ جنرل صاحب کا یہ بیان سفاکانہ اور لایعنی تھا۔ میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ اگر آپ کی بات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو خاکم بدہن موجودہ پاکستان کے چار ٹکڑے ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ آپ کی دلیل کی رو سے اس طرح او آئی سی کے اراکین کی تعداد میں چار نئے اراکین کا اضافہ ہوجائے گا۔ جنرل صاحب نے یہ سنا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ انہوں نے چونکہ چنانچہ کرنے کی کوشش کی تو میں نے دو تین سوالات اور داغ دیے۔ جنرل صاحب کو پسینہ آگیا۔ نثار کھوڑو اس صورت حال کو ’’انجوائے‘‘ کررہے تھے، مگر غفور صاحب کو اچانک محسوس ہوا کہ جسارت اُن کا اپنا اخبار ہے اور ان کے بچے جنرل صاحب کو گھیرے ہوئے ہیں، چنانچہ وہ ایک لمحے میں مہمان سے ’’میزبان‘‘ بن گئے۔ کہنے لگے: ’’بھئی آپ لوگ جنرل صاحب کو اپنا مؤقف تو بیان کرنے دیں‘‘۔ جنرل صاحب نے غفور صاحب کو اپنی حمایت پر آمادہ دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی۔ غفور صاحب کی شخصیت کی یہ نرمی، یہ دھیما پن ان کے انکسار اور تواضع کا حاصل تھا۔ غفور صاحب اتنے شریف النفس تھے کہ ان کی شرافت ان کے چہرے کا غالب ترین تاثر بن گئی تھی۔ فی زمانہ اگر کسی کو بتانا ہو کہ شریف آدمی کیسا ہوتا ہے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے غفور صاحب کی تصویر دکھا دی جائے۔
کراچی سے باہر لوگوں کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نے گزشتہ 25 سال کے دوران ایم کیو ایم کے جبر واستبداد کو کس طرح جھیلا، اس کا مقابلہ کیا اور اسے جذب کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص سید منورحسن اور غفورصاحب اس صورت حال کا مرکزی حوالہ ہیں۔ کراچی میں حالات بہت خراب تھے تو خود جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے غفور صاحب سے کہا کہ آپ تھوڑی سی احتیاط کرلیا کریں، بہتر ہے کہ ایک دو محافظوں کو ساتھ لے کر شہر میں نکلیں۔ مگر غفور صاحب نے ایسا بندوبست قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے بھی حفاظتی حصار میں رہنا شروع کردیا تو پھر ہمارے کارکنوں کا کیا بنے گا اور ان کے حوصلوں پر کیا گزرے گی؟ جماعت اسلامی کے قائدین بالخصوص غفور صاحب کے اس کردار نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو کبھی کراچی میں خوف زدہ اور بے حوصلہ نہ ہونے دیا۔
غفور صاحب پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہیں سیاسی بیان ڈرافٹ کرنے کا فن آتا تھا۔ بھٹو صاحب کے دور میں روزنامہ جسارت بند ہوا تو اس کے کچھ عرصے بعد صحافیوں نے غفور صاحب سے پوچھا کہ جسارت کب نکلے گا؟ غفور صاحب نے کہا: جسارت اور بھٹو ایک ساتھ نکلیں گے۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ بیان کو شہ سرخی بنانا اِس کو کہتے ہیں۔ کوئی غفور صاحب کے بیانات کا جائزہ لے گا تو اسے ایسے سیکڑوں بیانات مل جائیں گے جو سیاسی بیان ڈرافٹ کرنے کے فن کا بہترین نمونہ ہیں۔
غفور صاحب کا انتقال ہوا تو ایک صحافی نے لکھا کہ میں نے غفور صاحب جیسا سیاست دان نہیں دیکھا۔ انہوں نے لکھا کہ میں نے غفور صاحب کے گھر فون کیا تو فون خود غفور صاحب نے اٹھایا۔ میں غفور صاحب سے ملنے ان کے گھر پہنچا تو گھر کا دروازہ انہوں نے خود کھولا۔ میں غفور صاحب کے کمرے میں گیا تو اس کی سادگی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ تھوڑی دیر میں غفور صاحب خود ہی چائے بنا لائے اور کہنے لگے کہ اہلیہ بیمار ہیں اس لیے آپ کو چائے پر گزارا کرنا پڑے گا۔ یہ سب باتیں اہم ہیں، مگر ان باتوں سے بھی اہم بات یہ ہے کہ غفور صاحب کا یہ طرزِعمل ان کی کسی ’’منصوبہ بندی‘‘ کا حاصل نہیں تھا۔ یہ ان کا ’’اسلوبِ حیات‘‘ تھا جس میں چلتی ہوئی ہوا اور بہتے ہوئے دریا کا سا فطری پن اور برجستگی تھی۔

No comments:

Post a Comment