Thursday, January 31, 2013

دعا اور اس کی حقیقت

’’دُعا‘‘ کے لغوی معنی ہیں: پکارنا اور بلانا۔ اسلامی شریعت میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور نیاز مندی ہے، اور اصطلاحاً دُعا خدا کے حضور اس عرض و معروض کو کہتے ہیں جو ایک خاص ہیئت کے ساتھ یعنی دونوں ہاتھ بلند کرکے صورتِ سوالیہ بن کر کی جاتی ہے۔
دُعا کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کہ بندہ ہروقت اپنے مالک و معبود کے آگے جھکا رہے اور ہر ضرورت اور امداد کے لیے اس کو پکارتا رہے۔ اسلامی نظامِ عبادات پر غور کرنے سے یہ بات نہایت وضاحت سے ذہن نشین ہوجاتی ہے کہ یہ عبادات سراپا دعا ہی دعا ہیں۔ جسمانی اعمال و حرکات جو عبادات میں فرض ہیں وہ اصل میں دعا کی عملی اشکال ہی ہیں۔ چنانچہ ان اشکال کے ساتھ جو اذکار و عبادات زبان سے ادا کی جاتی ہیں وہ سب نقطاً دعا ہی کے قبیل سے ہیں اور معناً عین دعا ہیں۔ روزہ میں صبح سے شام تک بھوک پیاس کو برداشت کرلینا خدائی احکام کی اطاعت کا عملی مظاہرہ ہے جس کو وہ الفاظ اچھی طرح واضح کردیتے ہیں جو روزہ کھولتے ہوئے زبان سے ادا کیے جاتے ہیں: اللہم انی لک صمت وبک آمنت و علیک توکلت و علیٰ رزقک افطرت۔ (ترجمہ: یہ دن بھر کی تکلیف جو میں نے برداشت کی ہے، اے اللہ وہ صرف تیری ہی خاطر ہے۔ مجھے ایقان و اعتماد صرف تجھ پر ہے اور یہ تیرا ہی دیا ہوا رزق ہے جس سے اب میں اپنا روزہ کھول رہا ہوں۔) حج کے لیے ایک طویل سفر اور خود مناسکِ حج کی مشغولیت جسمانی اعمال و حرکات کا ایک بڑا مظہر ہے، مگر اس کے اندر جو روح کام کرتی ہے اس پر لبیک اللہم لبیک کے وہ الفاظ پوری روشنی ڈال دیتے ہیں جو حاجی کے وردِ زبان رہتے ہیں، یعنی یہ کہ اے خدا میں ہر وقت تیری خدمت کے لیے کمربستہ اور تیرے حکم کی اطاعت کے لیے دل و جان سے حاضر ہوں۔ نماز اسلامی عبادات میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے اعمال و ارکان تو خدا کے سامنے اپنی نیازمندی کے اظہار کا مکمل نمونہ ہیں۔ پھر جو اذکار اس کے لیے سکھائے گئے ہیں وہ تقریباً سب کے سب عاجزانہ التماس کی نوعیت رکھتے ہیں۔ آپ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہی ہوتے ہیں کہ فوراً زبان سے کہتے ہیں: سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک و لاالہٰ غیرک اس عبارت میں خدا کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اور یہ تعریف و توصیف دعا کی تمہید بھی ہے اور خود دعا بھی۔ کیونکہ اس سے یہ بات خودبخود نکل آتی ہے کہ خدا ایسی اور ایسی صفات کا مالک ہے، ہم اس سے کیا کچھ نہ مانگیں گے۔ وہ اپنی ذات میں پاکیزہ اور منزّہ عن الخطا ہے۔ ہم اس سے سوائے اس کے کیا مانگیں گے کہ وہ ہمارے عقائد واعمال کو پاکیزہ بنادے۔ وہ قابلِ تعریف ہے، ہم اس سے یہی چاہیں گے کہ ہمیں ان اعمال و افعال کی توفیق دے جو قابلِ تعریف ہوں اور خود اسے پسند ہوں۔ اُس کا نام بابرکت ہے، لہٰذا ہم چاہیں گے کہ ہم بھی اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے کرتے کسی مقامِ رفیع تک پہنچ جائیں۔ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں، اس لیے ہم اپنی تمام حاجات و ضروریات کو اسی کے سامنے رکھیں گے اور اسی کی مدد کے خواستگار ہوں گے۔ پھر سورۂ فاتحہ کی تلاوت ہر رکعت میں لازم کردی گئی ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ سورت ایک دعائیہ مضمون پر مشتمل ہے، جس میں صریحاً خدا سے صراطِ مستقیم پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ کے لیے جو اذکار مقرر کیے گئے ہیں ان سب میں خدا کی حمد و ثناء کے ساتھ اپنی بندگی کا عاجزانہ اقرار و اعتراف موجود ہے۔ قعدہ میں جو عبارت تلقین کی گئی ہے اس میں اولاً اپنی تمام سلامیوں، بندگیوں اور نمازوں کو خدا ہی کے لیے ادا کرنے کا اقرار کیا جاتا ہے اور پھر اپنے لیے خیر و سلامتی کی دعا کی جاتی ہے (السلام علینا) اس کے بعد درود تلقین کیا گیا ہے جو حقیقت میں دعا ہی ہے۔ اس میں خدا سے درخواست کی جاتی ہے کہ خداوندا ! جس مبارک اور مقدس ہستی کے طفیل ہم کو ایمان کی توفیق نصیب ہوئی ہے اور ہم مسلمان کہلاتے ہیں، اس پر اپنے فضل و رحمت کی بارش برسادے، اس ذاتِ قدسی صفات پر خیر و برکت کے ابر سایہ فگن ہوں اور اُن کی آل کے ساتھ بھی تیری رحمت و برکت شاملِ حال ہو۔درود کے ساتھ ہی دعا کی جاتی ہے، اس طرح کہ اگر پہلے خدا کی حمد و ثناء کے پردے میں کچھ اشارۃً یا کنایتہً یہ درخواست کی جارہی تھی تو اب صریحاً اپنی ضروریات کو خدا کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ مانگ لیا جاتا ہے جس کی ایک بندہ کو اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے ضرورت ہے۔ یہاں نماز ختم ہوجاتی ہے لیکن مانگ مانگ کر دل ابھی سیر نہیں ہوتا، ہاتھ اٹھاکر پھر مانگا جاتا ہے اور وہ سب کچھ اللہ سے عرض کردیا جاتا ہے جس کا تقاضا ہماری دینی اور دنیوی ضروریات ہر وقت کرتی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے اسلامی عبادات اول و آخر دُعا ہیں، اور جس عبادت سے دعا کی روح نکل جاتی ہے وہ چند ایسے جسمانی اعمال و اشغال کا ایک ڈھانچہ ہوتی ہے جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، نہ مدعا۔ یہ بے روح عبادت انسان کے لیے کسی پہلو سے مفید اور مؤثر نہیں ہوتی۔ ’’دُعا‘‘ تو وہ روح ہے جو عبادت کے جسم میں خون بن کر دوڑتی اور اسے زندہ رکھتی ہے۔ جب کوئی عبادت اس روح سے خالی ہوجائے گی تو گو اسے ظاہراً ’’عبادت‘‘ ہی کہا جائے گا مگر معناً وہ کسی پہلو سے ’’عبادت‘‘ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقتِ عظمیٰ ہے جس کو سب سے بڑے دانا و حکیمؐ نے دو تین ہی لفظوں کے اندر ادا کردیا ہے: الدعاء مخ العبادۃ (دعا عبادت کا مغز ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مختصر سا حکیمانہ فقرہ ان بہت سے جواہر ریزوں کا ایک جز ہے جن کی موجودگی اس بات کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے  کہ یہ حقیقت میں حکمتِ الٰہی کے سرچشمہ سے براہِ راست فیضان کا نتیجہ ہے۔ غور کرنے کی جگہ ہے کہ روحِ دُعا کے بغیر عبادت کا جسم جب چھلکوں سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا تو اس سے کسی افادیت یا تاثیر کی توقع رکھنا کتنی نادانی ہے۔ ’’دُعا‘‘ تو وہ چیز ہے جس کو قرآن میں بکثرت مقامات پر ’’عبادت‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ انعام رکوع 7 میں ہے۔ (ترجمہ) ’’کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن جن کو پکارتے ہو اُن کی عبادت کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین جن جن معبودوں سے دعا کرتے تھے وہ دُعا  دراصل ’’عبادت‘‘ تھی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متبعین کو منع کردیا گیا۔ ایک اور جگہ آیا ہے: (ترجمہ) ’’تمہارے رب نے حکم دے دیا ہے کہ مجھی سے دُعا کرو، میں قبول کروں گا۔ رہ گئے وہ لوگ جو میری عبادت سے استکبار کرتے ہیں سو وہ عنقریب ذلیل ہوکر دوزخ میں داخل ہوں گے۔‘‘ (مومن رکوع 6)
یہاں صاف فرمادیا ہے کہ وہ میں ہی ہوں جس سے دعا کی جانی چاہیے، جو لوگ مجھ سے دُعا کرنے میں استکبار دکھاتے ہیں وہ جہنم میں جھونکے جانے کے لائق ہیں۔ پس جب یہ حقیقت ہے کہ دُعا عبادت کا مغز ہے اور دعا و عبادت میں اصلاً و معناً کوئی فرق نہیں ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عبادت انسانی زندگی کی تخلیق کا واحد مقصد ہے تو اس شخص سے بڑھ کر نادان کون ہوگا جو دعا کی حقیقت سے غافل ہوکر عبادت کو غیر مؤثر اور بے معنی بنادے، اور عبادت سے غافل ہوکر اپنے مقصدِ زندگی ہی کو پورا کرنے میں ناکام ہوجائے۔ یہ نادانی نہیں، دیوالیہ پن ہے۔ خود فریبی نہیں، خود کشی ہے۔

No comments:

Post a Comment